صبر صبر اور بس صبر

جے آئی ٹی کے سامنے مسائل کے پہاڑ نظر آرہے ہیں


[email protected]

خبر یہ ہے کہ آج مورخہ 9مئی کو پاناما کیس کے 20اپریل کے فیصلے کے بعد جے آئی ٹی نے اپنا کام شروع کردیا ہے اور وفاق نے ابتدائی طور پر 2کروڑ روپے کا فنڈ جاری کر دیا ہے(ابتدائی طور سے مراد یہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں بھی جتنا فنڈ درکار ہوگا اُتنا مل جایا کرے گا)اور جب جے آئی ٹی اپنا کام مکمل کرچکی ہوگی تو یار دوستوں کا خیال ہے کہ یہ تخمینہ 2ارب روپے کو چھوُ رہا ہوگا۔کیسے؟ (یہ کالم میں آگے چل کر آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا)

قارئین کو یاد ہوگا کہ 1997ء میں میاں نواز شریف نے ''احتساب بیورو'' کے نام سے ادارہ قائم کیا تھا ، جس کے سربراہ سینیٹر سیف الرحمن تھے،احتساب بیورو کو صدر اور وزیراعظم کے خلاف بھی تحقیقات کا اختیار حاصل تھ۔ انھوں نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات کی طویل فہرست بنا لی اور ان کی تحقیقات کے لیے بھاری معاوضے کے عوض غیر ملکی کمپنیوں سے خدمات حاصل کی گئیں، اور ایسا صرف اس لیے کیا گیاکہ آپ بین الاقوامی سطح پر یہ باور کروا سکیں کہ یہ کیسز محض سیاسی نہیں بلکہ ان میں کچھ حقیقتیں بھی ہیں۔حکومت غیر ملکی کمپنیوں کو براہ راست ہائر نہیں کر سکتی تھی ، یہ کمپنیاں 1999ء تک بے نظیر بھٹو کے خلاف تحقیقات کرتی رہیں لیکن ان تحقیقات کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ، البتہ قومی خزانے سے اخراجات کردیے گئے ، پھر میاں نواز شریف کی حکومت کو ختم کردیا گیا، پرویز مشرف آگئے ، ان کے دور میں بھی کرپشن کی تحقیقات ہوتی رہیں لیکن کرپشن پھر بھی جاری رہی۔

یہ ابتدائیہ تھا اور اب تو دوپارٹیوں کی کرپشن کی تحقیقات ہورہی تھی یعنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ، یعنی اب تو عوام کو ڈبل معاوضہ ادا کرنا تھااور یہ اُس وقت کی بات ہے جب ڈالر 30سے 40روپے کا ہوا کرتا تھا، اس کے بعد ہر سال کروڑوں روپے کے اخراجات کیے گئے، سوئس حکام سے لڑنے کے لیے سوئس ہی میں بیٹھ کر وہاں کے وکیلوں کے ساتھ ملکر پاکستانی عوام کے پیسے خرچ ہوتے رہے ، اور بات 3سے 4ارب روپے تک پہنچ گئی، ایک دہائی کی اس مسلسل کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے لوٹے ہوئے چھ ارب روپے واپس لانے کے لیے 4ارب روپے مزید خرچ کردیے گئے۔

اور پھر مشرف کی ''سنجیدگی'' کا عالم تو یہ تھا کہ اُس نے 2008ء میں ''این آر او '' کے تحت تمام سیاستدانوں کو گنگا میں نہلا کر پوتر کردیا ۔ اس کے بعد وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی اور پنجاب میں ن لیگ کی یعنی دونوں بڑی جماعتیں ایک بار پھر مسند اقتدار پر بیٹھ کر کرپشن کرپشن کھیلنے لگیں اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتی رہیں۔آج جے آئی ٹی کے حوالے سے عوام میں نے جانے کیوں خوف بیٹھ چکا ہے کہ اس جے آئی ٹی میں بھی قوم کا پیسہ اور وقت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جائے گا۔

آپ خود دیکھ لیں 20اپریل کو فیصلے کے مطابق ایک ہفتے میں جے آئی ٹی بننا تھی اور اُس نے 2ماہ میں تحقیقات مکمل کرنا تھیں،لیکن 20دن بعد ابھی جے آئی ٹی کام کرنے کی پوزیشن میں آئی ہے اور جب تحقیقات اس قدر پیچیدہ ہوں تو اُس پر کتنا وقت لگتا ہے یہ تو عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جو تحقیقات سالوں میں نہیں مکمل ہو سکیں وہ یہ دو ماہ میں کیسے مکمل ہو سکتی ہیں اور پھر آگے عید ین، روزے اور اگست کے مہینے کی سالانہ چھٹیاں بھی سر پر ہیں اور بطور قوم ہم چھٹیاں قربان کرنے کے عادی بھی نہیں ہیں کہ پاناما جیسے 'فضول' کیس کے لیے چھٹیاں برباد کی جائیں جس کا انتظار تو بچپن سے ہی ہمارے نصاب کا حصہ رہا ہے۔

خیر اس جے آئی ٹی کے سامنے مسائل کے پہاڑ نظر آرہے ہیں ، انھیں 4ملکوں پانامہ، ورجن آئی لینڈ، سعودی عرب اور لندن میں تحقیقات کرنی ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ1992-93میں جن بینکوں کے ذریعے رقم ملک سے باہر بھجوائی گئی تھیں، وہ بینک بھی بند ہو چکے ہیں،جے آئی ٹی کے اراکین وہ ریکارڈ بھی نہیں حاصل کر سکیں گے اور اگر ریکارڈ مل بھی گیا تو اس کی بنیاد پر مقدمہ نہیں بن سکے گا، کیوں کہ 25سال پہلے ٹیکس قوانین کچھ اور تھے اور آج کچھ اور ہیں۔ اور بند بینک کے مالکان کا بھی اتا پتا نہیں ہے ، چلیں اگر اُن کا پتہ لگا بھی لیا گیا تو بینکوں کے مالکان بینک کا نظام تھوڑی چلا رہے ہوتے ہیں... اس لیے ان کے ڈائریکٹرز کی ضرورت پڑے گی جو شاید کاغذوں میں یا حقیقت میں ''مر'' چکے ہوں۔ اب جے آئی ٹی یہ تو نہیں کہے گی کہ مرُدوں کو باہر نکال کر ہمارے سامنے بٹھایا جائے، ہم محسوس کرنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ بندہ اس کام میں ملوث تھا یا نہیں! اب اگر جے آئی ٹی کی اپنی تحقیقات کے حو الے سے متعلقہ غیر ملکی حکام کے ساتھ مراسلت ہوگی تو وہ دو طرفہ اور بین الاقوامی سمجھوتوں کے تحت ہی ہوگی اور باقی سوالات کے جوابات بھی اسی طرح گھمبیر ترین ہیں جن کے بارے میں آنے والے وقت میں آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا...

اب اتنے گھمبیر مسائل میں تحقیقات کے بعد مجھے یہ بتایا جائے کہ یہ دو ماہ میں کیسے مکمل کر سکیں گے؟ اور کیا یہ کام 2کروڑ روپے کا ہے؟ اور جے آئی ٹی کا کام تو تحقیقات کرنا ہے اس کے لیے اس کے پاس بجٹ کی بھی کمی نہیں ہوگی کیوں کہ عدالتی حکم کے مطابق کسی جگہ اگر کسی ادارے نے تحقیقات میں ''خلل'' ڈالنے کی کوشش کی تو جے آئی ٹی سپریم کو رٹ کو رپورٹ کرے گی... چلیں مان لیا کہ یہ عوام کے لیے سب کچھ ہو رہا ہے تاکہ کرپٹ حکمرانوں سے چھٹکارا حاصل کرکے شفاف حکمرانوں کا حصول ممکن ہو، لیکن بادی النظر میں ایسا کچھ نہیں ہونے والا اس لیے عوام سے اپیل کی جارہی ہے کہ وہ اپنے اپنے کام میں لگ جائیں کیوں کہ انھیں تو اس حوالے سے بھی نہیں بتایا جائے گا کہ کتنا پیسہ خرچ ہو چکا ہے اور کتنا مزید لگے گا اور پھر عوام بے چارے تو یہ بھی جانتے کہ یہاں ایک پلاٹ کا قبضہ چھڑوانے کے لیے دوسرا بیچنا پڑتا ہے تو ایسے میںچند ارب روپے کی تحقیقات کے لیے چند ارب ہی ''خرچے'' کے طور پردرکار ہوں گا یعنی

صبر صبر اور بس صبر

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں