تنقید کیجیے پگڑیاں مت اچھالیے

سوشل میڈیا نے یہ سارا گند ایسے وقت پھیلایا ہے جب ملک میں ترقی کی بہار آئی ہوئی ہے

سوشل میڈیا پر ملک کے چار بڑوں کے خلاف چلائی جانے والی شر انگیز مہم کی تحقیقات ایف آئی اے کے سپرد کیے جانے کے بعد توقع ہے کہ اس میں ملوث شرپسندوں کو قرار واقعی سزا ملے گی تاکہ ذرایع ابلاغ کے غلط استعمال کی مستقل بنیادوں پر روک تھام کی جا سکے۔ نیزکسی کی عزت سے کھیلنے اور پگڑی اچھالنے والوں کو ان کے جرم کی سنگینی کا احساس دلایا جا سکے۔

شریف برادران کو بادشاہوں سے تشبیہ دینے کی روایت عمران خان نے ڈالی تھی جو اس کے لیے کبھی تخت لاہور تو کبھی تخت رائے ونڈ کی اصطلاحات استعمال کرتے تھے، اب بلاول بھٹو اور ان کے والد بزرگوار آصف علی زرداری نے وزیر اعظم نواز شریف کو بالخصوص مغل بادشاہ کہنا شروع کیا ہے، نتیجتاً ان کے جیالوں نے سوشل میڈیا پر نت نئے قصے اور کہانیاں پھیلانا شروع کردی ہیں۔ مثلاً نواز شریف نے شاہانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پچھلی مدت صدارت میں رفیق تارڑ کو چیف جسٹس پاکستان، سجاد علی شاہ کے خلاف ججوں کی بغاوت کرانے میں کلیدی کردار ادا کرنے اور اس مقصد کے لیے نام نہاد بریف کیس کوئٹہ پہنچانے کے صلے میں ملک کا صدر بنایا تھا۔

مشرف دور میں میاں صاحب کو لانڈھی جیل میں ان کے پسندیدہ، گھر کے بنے ہوئے سری پائے اور نہاری کے ٹفن پہنچانے کی خدمت انجام دینے پر اس بار ممنون حسین کو صدر مملکت کے منصب پر یوں فائزکردیا گیا، جیسے ملک کا اعلی ترین منصب بطور بخشش(ٹپ) دیا جاتا ہو۔ زرداری صاحب کی وطن واپسی کو اس طرح سیلیبریٹ کیا اوراس کا مذاق اڑایا گیا جیسے وہ سابق صدر مملکت اورسیاسی رہنما نہیں کوئی چور ڈاکو ہوں۔ سوشل میڈیا پر ان کی اپنی اہلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ لی گئی تصویر کو، مایہ ناز شاعر منیرنیازی کی پیروڈی نظم کے ساتھ بڑے پیمانے پہ شیئر کیا گیا جس سے تینوں کی تذلیل کرنا مقصود تھا۔ اس شاہکار نظم کی مٹی کس طرح پلید کی گئی آپ بھی ملاحظہ فرمائیں۔

میری ساری زندگی کو بے ثمر، اس نے کیا

عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا

شہر میں وہ معتبر... میری گواہی سے ہوا

پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا


شہر کو برباد کرکے رکھ دیا۔۔۔ اس نے منیر

شہر پر یہ ظلم میرے نام پر۔۔۔۔ اس نے کیا

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ایسی ہی ایک اور مذموم مہم جو پچھلے دنوں میری نظر سے گزری، مرحوم گورنر سندھ، جسٹس (ریٹائرڈ) سعید الزماں صدیقی سے متعلق تھی جس میں ان کی ضعیف العمری اور علالت کا مذاق اڑاتے ہوئے انھیں ایک ایسے آدمی سے تشبیح دی گئی تھی جسے بستر مرگ سے اٹھا کر گورنر سندھ کی کرسی پر بٹھا دیا گیا ہو، کہا گیا کہ میاں صاحب نے ایسا کرکے ایک پرانا واجب الادا قرض چکایا ہے۔ تفصیل یہ بیان کی گئی کہ نواز شریف کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے والے سابق چیف جسٹس پاکستان، سجاد علی شاہ کے خلاف ججوں کی بغاوت(جس کا مقصد میاں صاحب کو بچانا تھا )کی قیادت انھی سعید الزماں صدیقی صاحب نے کی تھی جو اس وقت کوئٹہ رجسٹری کے سربراہ تھے، گویا اس خدمت کے صلے میں انھیں گورنری کے منصب سے نوازا گیا تھا۔

سوشل میڈیا نے یہ سارا گند ایسے وقت پھیلایا ہے جب ملک میں ترقی کی بہار آئی ہوئی ہے۔ سی پیک نے پاکستانی عوام میں جینے کی نئی امنگ پیدا کردی ہے، وہ نہ صرف چاروں صوبوں، فاٹا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں سے خوش ہیں بلکہ اس لحاظ سے مطمئن بھی ہیں کہ چین کی شمولیت کی وجہ سے ان کے کرپشن کی نذر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں رہا۔

سی پیک کی اہمیت اس اعتبار سے بھی مسلمہ ہے کہ اس کے تحت شروع کردہ منصوبے مکمل ہونے کے بعد تینوں پسماندہ صوبے ترقی یافتہ پنجاب کی برابری کرنے لگیں گے، بلکہ کئی عشروں سے زیر التوا ڈیموں کی تعمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ وفاقی وزیراحسن اقبال کے بقول اگر چین دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کو سی پیک میں شامل کرنے پر رضامند ہو جاتا ہے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ اس حوالے سے جو رپورٹ تیارکی گئی ہے اس میں ہائیڈل پاور پروجیکٹس (پانی ذخیرہ کرنے اور اس سے بجلی تیارکرنے)کے زیادہ سے زیادہ منصوبے شامل کیے گئے ہیں جن کی تکمیل سے پانی اور بجلی کی کمی کے مسائل حل ہو جائیں گے۔

بھاشا ڈیم منصوبے کا سی پیک کا حصہ بننا اس لیے بھی اہم ہے کہ ایک طرف انڈیا سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمارے حصے کا پانی روکنے کی دھمکیاں دے رہا ہے تو دوسری جانب انڈیا اور امریکا کے دباؤ پر ورلڈ بینک اوردوسرے عالمی مالیاتی ادارے فنڈز فراہم کرنے کے وعدے سے منحرف ہوگئے ہیں، نتیجتاً تاخیرکا شکار ہونے کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کو با اثر امریکی جریدے ''فوربز''میں شایع ہونے والی اس رپورٹ کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے تھا جس کے مطابق پاکستان کی معاشی ترقی میں شاندار (6 فیصد) اضافہ ہوا ہے، کرپشن اورمہنگائی میں نمایاں کمی ہوئی ہے جب کہ اسٹاک انڈیکس400 فیصد بڑھا ہے، تاہم خطرات بھی موجود ہیں اور بدعنوانی واقربا پروری اس ترقی کا راستہ روکنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

جریدے نے لکھا ہے کہ ملک میں بدعنوانی، اقربا پروری اور افراط زر جیسے عوامل کی بنا پر حصص کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ رک بھی سکتا ہے، اس کی وجہ سے بنیادی ضروریات کی چیزوں کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں، پاکستان درآمد شدہ تیل پر بہت زیادہ انحصارکرتا ہے اور تیل کی درآمد دگنی ہو چکی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے انڈیکس میں پاکستان 2010ء میں168ممالک میں143نمبر پر تھا جب کہ 2015ء میں یہ117 ویں نمبر پہ آگیا، لیکن کرپشن انڈیکس میں پاکستان کا نمبر اب بھی بہت اوپر ہے۔ جریدے نے نتیجہ اخذکیا ہے کہ ملک میں قانون کے نفاذکی خراب حالت، دولت کی تقسیم میں شدید عدم مساوات اوربھارت کے ساتھ تنازعات کی وجہ سے کسی بھی وقت انقلاب کی صورتحال بن سکتی ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر سوشل میڈیا منفی مہم جوئی کے بجائے معروضی حقائق بھی پیش نظر رکھتا کہ یہ بہرحال، ملکی مفاد کا معاملہ ہے کسی کی ذات کا نہیں۔ نواز شریف کے طرز حکمرانی کی دل کھول کر مخالفت کیجیے لیکن ان کی کامیابیوں کو بھی کھلے دل سے تسلیم کیجیے۔ آصف زرداری پر شوق سے تنقید کے تیر برسایے کہ یہ آپ کا جمہوری حق ہے، لیکن یہ مت بھولیے کہ سی پیک کے منصوبہ ساز وہی تھے اور انھوں نے ہی چین کو اسے زیر عمل لانے پر آمادہ کیا تھا۔ نواز شریف نے عظیم تر ملکی مفاد میں اسے آگے بڑھایا جس کا انھیں پورا کریڈٹ ملنا چاہیے، ایسا کریں گے تو توازن نہیں بگڑے گا اور ترقی کا سفر پوری رفتار سے جاری رہے گا۔
Load Next Story