پیغامات کس کے لیے تھے

کوئی گرفت کرے تو سیدھا جمہوریت پر حملہ! ارے بھائی جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن توخود آپ سیاستدان ہیں



پہلا پیغام۔کسی نے کہا یا کہلوایا، ہم توکچھ اور چاہتے ہیں، ہمارا ایجنڈا دراصل کچھ اور ہے جس پر ہمیں 'اس طرح عمل کرنے نہیں دیا جارہا جس طرح ہم چاہتے ہیں۔ورنہ''امن کی فاختہ''ہمارے گھرکی منڈیر پرہی تو بیٹھتی ہے، صبح وہیں سے اڑ کر باقی ملک میں امن پھیلاتی ہے۔اب آپ ہی بتائے ہمارا کیا قصور؟ لیکن یہاں مسئلہ یہ درپیش کہ پیغام دینے والا ہی گھر کا مالک بھی ہے یا کہہ لیجیے اس وقت بڑا ہے۔

تو وہ پیغام کسے دے رہا ہے؟کون اسے وہ نہیں کرنے دے رہا جو اس کے ساتھ ساتھ کسی اورکی خوہش بھی ہے۔ اور وہ (اور) کون ہے؟جس کی بات ماننا بھی بہت ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔آخر پیغام کس کو دیا گیا؟خیر آگے چلتے ہیں، پیغام نشرہوتے ہی پوچھ گچھ کا عمل شروع،پکڑ دھکڑ، الفاظ کی آگ پر میڈیا کے ہاتھ میں تیل، شعلے آسمان پر،کیا کریں کیاکریں، اس کو فارغ کر 'اس کو نکال، بات نا بننے پرکمیٹی بنانے کا پرانا اور بوسیدہ طریقہ،ادھر سے اصرار،ادھر سے انتظارکی درخواست، معذرت کے ساتھ۔ وہ بھی خاموش نہیں فیصلہ ہوا اتنے پانامہ لیکس کو ٹرائی کرلیتے ہیں،چانس کم ہیں دیکھ لیں،شایدکسی کو عقل آجائے، نہیں تو پھر وہیں سے شروع ۔پانامہ لیکس کا فیصلہ آتے ہی جو تقریبًا حسبِ توقع تھا، معاملہ اٹھالیا گیا لیکن اب نرمی ختم! فیصلہ کن جنگ کا آغاز۔ہم نہیں مانتے ہم نہیں مانتے، تم نہیں جانتے،کچھ نہیں جانتے۔یہ کرو وہ کرو۔ جوکرو گے مگر ہم نہیں مانتے،گر منانا ہے ہم کو تو پھر وہ کرو جوکہیں ہم،جہاں تک اور جس کو کہیں...اس پر ایکشن لینا ہوگا۔ یہ دوسرا پیغام تھا جو دیا گیا لیکن کس کو ؟صاف معلوم ہورہا ہے یہ بھی کسی اورکو!وہ کون ہے؟

تاحال یہ پتہ نہیں چلا لیکن ظاہر ہواکہ ملک اپنا باگ ڈور اپنے ہاتھ میں نہیں۔لوگ اپنے لڑ رہے لیکن اشارہ کہیں اور سے ہے۔حتیٰ کہ فیصلہ بھی وہیں سے ہوگا۔کیونکہ دونوں اطراف سے جوکچھ بھی کہا جارہا ہے وہ کسی اور سے،کسی اور کو سنانے کے لیے۔واہ رے پاکستان تیری قسمت ۔لوگ رہتے تجھ میں، سیاست کہیں اورکی کرتے ہیں،کھاتے تیرا کاروبار انگلستان میں، زمین تیری بیچتے ہیں،جائیداد امریکا میں بناتے ہیں۔

ووٹ یہاں کے،نوٹ وہاں کے! عدالت یہاں کی،علاج باہر سے،کہلاتے پاکستانی، شادی فرنگی سے،دیکھا جائے تو دور دور تک کوئی نہیں،ایک لق ودق صحرا تا حد نظر، سراب درسراب در سراب، جھوٹی قسمیں، بات بات پرکلمہ پڑھنا، ملکی ترقی ِ کے بے بنیاد دعوے، نئے پاکستان کے خواب، پرانے پرعذاب، روزانہ ایک جلسہ روزانہ ایک وعدہ،اشرافیہ کا نا ختم ہونے والا اقتدار۔وہ، بیٹے، پوتے ان کی اولاد، بے اندازہ کرپشن۔دنیا کے بینک بھر دیے ڈالرز سے، نہ بدلی تو زیدی بھائی کی قسمت ۔ابھی دوماہ پہلے ہی ملاقات ہوئی میں نے پوچھا، زیدی صاحب آپ بیٹی کی شادی کرنے والے تھے اس ماہ،سرجھکا کرکہا، ہاں میاں ارادہ تو پکا تھا بس انتظام کچا رہ گیا، میں نے استفسارکیا،اللہ خیر فرمائے کیا کچھ رقم کا بندوبست نہیں ہو سکا؟ جواب دیا جی کچھ ایسا ہی معاملہ رہا کسی نے وعدہ کیا تھا لیکن ان کے بچے کی طبیعت خراب ہو گئی،پیسے وہاں اٹھ گئے۔انھوں نے معذرت کرلی،لیکن لڑکے والے تو جلدی میں تھے،میں نے سوال کیا۔جی سیف صاحب وہ رشتہ ٹوٹ گیا۔لیکن اب کیا ہوگا زیدی صاحب؟ اللہ مالک ہے بھائی۔وہ یہ کہہ کر تیزی سے نکل گئے، میں سوچتا رہ گیا۔

کوئی گرفت کرے تو سیدھا جمہوریت پر حملہ! ارے بھائی جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن توخود آپ سیاستدان ہیں،آپ کوئی کم بڑا فتنہ ہیں؟آپ کے سبھی ادوار اداروں سے لڑتے بھڑتے گزرے۔ سمجھ سے بہت بالاتر ہے ،انڈیا آپ کو کیا دے دے گا اورکیا امریکا سے مل جائے گا ؟70سالوں میں ایسا کیا دیا انھوں نے؟سوائے بیوفائی کے مسلسل بیوفائی،دھوکا ،فریب، جھوٹ،جھوٹے وعدے،بلکہ دشمنی ،کیا ملا ان سے جنھیں آپ سنا رہے ہیں کہ آپ کو آپ کے حقیقی ایجنڈے پر عمل کرنے نہیں دیا جاتا ورنہ تو انڈیا پاکستان کب کے ایک ہوگئے ہوتے! دوسری طرف بھی اپنی یا اپنے ادارے کی خود نمائی کا تاثر نمایاں رہا،ملک کی عزت ووقار،sovereintyکا خیال وہاں بھی اس طرح نہیں رکھا گیا جس کی ان سے۔ کم از کم امید تھی ۔یہ سوچے بغیر کہ میڈیا پر آپ جو کہیں گے اسے ساری دنیا میں سنا جائے گا۔

اسی ساری دنیا میں ہمارے بدترین دشمن بھی گھات لگائے بیٹھے ہیں،انڈیا،اسرائیل اور بہت سے۔آپ سمجھتے ہیں اس سے ملک کی بے عزتیِ نہیں ہوئی؟بالکل ہوئی اور اتنی ہی ہوئی جتنی پہلے پیغام سے،کبھی کبھی لگتا ہے یہ ملک ہم عوام کا نہیں، بلکہ صرف خواص کا ہے اور جن کا ہے وہ اسے اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں۔میرا استدلال بس اتنا ہے کہ پیغام ایک دوسرے کو دیں، بات ایک دوسرے سے کریں،جان لیں مان لیں کہ آپ دشمن نہیں بلکہ ہم وطن ہیں،ملک کے حکمران، ملک کے رکھوالے۔لڑائی ایسے ہورہی ہے جیسے انڈیا پاکستان کی۔

دیکھیے ہر اپوزیشن اپنے دور میں ملکی دفاعی اداروں کو سسٹم میں دخل اندازی پر اکساتی ہے،جس کے لیے طرح طرح کے اسکینڈل تلاش کیے جاتے ہیں، اداروں کی عزتِ نفس سے چھیڑچھاڑ کی جاتی ہے، ماضی میں اس پر عمل بھی ہوتا رہا لیکن نتیجہ؟صفر بعد میں وہی لوگ آپ کو آمر کا لقب دیتے ہیں! ملک کا الگ بیڑہ غرق ہوتا ہے۔اب بہرحال پاکستان ترقی پر ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں،کہ سسٹم مضبوط ہورہا ہے،ملک کی اب ایک سمت ضرورہے۔ میں ہرگز نہیں کہہ رہا کہ ترقی کا بھونچال آگیا لیکن فرق ہے پہلے سے اورواضح ہے۔اسے چلنا چاہیے،آگے بڑھنا چاہیے اور یہ ممکن ہوگا صبروبرداشت سے، وطن کی محبت سے،مجھے اس ضمن میں بس اتنا ہی کہنا تھا۔

بلا ٓخر عدالت نے وہ جے آئی ٹی بنا دی جسے وزیرِاعظم سے باز پرس کرنی ہے۔اللہ اراکینِ کمیٹی کو نیک ہدایت عطا فرمائے، وہ راست گوئی سے، راسخ العقیدہ رہتے ہوئے اپنا کام انجام دیں،کسی کی نا سنیں،کسی کی نا مانیں، یا د رکھیں کہ انھیں اللہ رب العزت کو جان دینی ہے۔بہت عمدہ صورتحال درپیش ہے، ایک وزیرِ اعظم کی جانچ پڑتال ہورہی ہے۔ عمران خان کا بھی شکریہ جن کی کوششوں سے یہ ممکن ہوا لیکن اب انھیں اور ان کے ساتھیوں کو بھی حساب سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔بلکہ بڑھ چڑھ کر دیں تاکہ معاملہ صاف ہو۔یہ رجحان البتہ انقلابی ہے۔

اس عمل نے حوصلہ دیا ان غریب و بے سہارا لوگوں کو جن کا ماننا تھا کہ اس ملک میں انصاف صرف ان کے لیے ہے کوئی امیر اس کی زد میں نہیں آتا،اس عمل نے ان امراء کو بھی ہلا مارا جو یقین رکھتے تھے کے وہ بری الذمہ ہیں ہر عدالت سے، ہر قانون سے۔ دراصل خرابی کے حقیقی ذمے دار وہی ہیں ورنہ تو غریب کو ملا ہی کیا کہ اس سے حساب بھی لیا جائے! بڑی امید ہے کہ آیندہ کرپشن میں واضح کمی آئے گی،ملک کا پیسہ ملک میں استعمال ہوگا ،الیکشن اچھے برے کردار کی بنیاد پر ہونگے۔کوئی واقعی شیر ہے تو اسے شیر مانا جائے نا۔ورنہ کرپشن سے شیروشکرکو کیسے شیر مان لیں اس کے لیے تو بھائی ایمانداری کو تیرکر پارکرنا پڑتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں