وزیراعظم کا استعفیٰ اوراپوزیشن
عمران خان کی بیس سالہ سیاسی جدوجہدبظاہراِس ملک کے کرپٹ نظام کے خلاف رہی ہے
سیاست میں ویسے تو سب ممکن ہے۔کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ کل کے دوست آج کے دشمن اورکل کے دشمن آج کے خیرخواہ اور ہمدرد ہو سکتے ہیں، لیکن یہ سب کچھ ملک اورعوام کی خاطر نہیں بلکہ صرف اورصرف ذاتی مفادات کے تحت ہی ہوا کرتا ہے۔ مجھے آج میاں نواز شریف کی شکل و صورت اگر اچھی نہیں لگ رہی تو اِس میں ہمارے عوام اور قومی مفادات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
یہ صرف میری اپنی ترجیحات اور خواہشات کے تحت ہے۔عوام کو میں نے بلاوجہ اِس میں گھسیٹ ڈالا ہے۔ یہی نواز شریف جب کل اپوزیشن میں ہوگا تو میری طرح بہت سوں کو ایک بار پھر عزیز اورمحترم ہوجائے گا۔ اُس کے سارے گناہ اورخطائیں معاف ہوجائیں گی۔بالکل اُسی طرح جیسے آج آصف علی زرداری کے پچھلے سارے گناہ معاف ہوچکے ہیں۔آج کسی کو یاد نہیں کہ آصف علی زرداری جب کل مسندِ صدارت پر براجمان تھے تو اُن کی سرپرستی میںملک میں کیا کچھ نہیں ہو رہا تھا۔رینٹل پاور اسکینڈل سے لے کر حج کرپشن تک ملکی دولت لوٹے جانے کی بے شمارکہانیاں ہر ایک کی زبان پر عام تھیں، مگر آج وہی تمام کہانیاں ماضی کے دھندلکوں میں کہیں چھپتی جا رہی ہیں۔
اب بس صرف ایک ہی نعرہ ہے۔'' گو نواز گو۔'' یہ نعرہ ویسے تو 2014ء سے لگایا جارہا ہے لیکن جیسے جیسے الیکشن قریب آتے جارہے ہیں اِس میںقوت، توانائی، جاذبیت اورہر دلعزیزی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ پہلے یہ نعرہ صرف پی ٹی آئی کی طرف سے لگایا گیا تھا لیکن اب یہ ساری اپوزیشن پارٹیوں کاانتخابی سلوگن بن چکا ہے۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ سے بڑی اُمیدیں وابستہ تھیں، مگراُس کے نتیجے اور فیصلے نے ہمارے کچھ لوگوں کوبڑا مایوس کیا ہے اور وہ اب جے آئی ٹی کی رپورٹ تک انتظارکرنے کی موڈ میں دکھائی نہیں دے رہے۔اُنہیں جے آئی ٹی کی تشکیل اور اُس کے فیصلوں پر ابھی سے کچھ خدشات اور تحفظات لاحق ہیں۔لیگل اور قانونی طریقے سے وزیرِ اعظم کوچونکہ ہٹانا ممکن نہیں رہا شایداِسی لیے وہ اُنہیں ''بزورِ اسٹریٹ پاور'' اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔
میاں صاحب کو سڑکوں پر احتجاج اور انتشار کی مدد سے صرف اُس وقت ہی ہٹایا جاسکتا ہے، جب سار ی اپوزیشن جماعتیں صرف اِس ایک ایجنڈے اور مقصد کے لیے متحد اور اکٹھی ہوجائیں، لیکن موجودہ سیاسی تناظر میں فی الحال یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔پاکستان تحریک انصاف اِس مقصد کے لیے دوسری تمام جماعتوں کو ساتھ ملانے کے لیے یقینا تیار ہے لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کو ساتھ ملانے میںوہ کچھ تذبذب کاشکار ہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلاناخود اُس کے لیے پریشانی اور مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
عمران خان کی بیس سالہ سیاسی جدوجہدبظاہراِس ملک کے کرپٹ نظام کے خلاف رہی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی سے اِس معاملے میں سمجھوتہ کرلینا اُس کی ساری نیک نامی پرپانی پھیر دینے کے مترادف ہوگا۔ایک کرپٹ حکمراں کے خلاف محاذآرائی میں کسی دوسرے بڑے کرپٹ فریق کے ساتھ سمجھوتہ کرلینا خان صاحب کی ساری سیاست کے لیے خطرناک، مضر اور زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے۔اِسی لیے وہ ابھی تک شیخ رشید کے ایسے مفت اور مفید مشوروں پرعمل درآمد کرنے سے ہچکچاہٹ سے کام لے رہے ہیں، ممکن ہے وہ آگے جاکر مجبوراً اور بادل نخواستہ یہ زہر بھی اُگلنے پر تیار ہوجائیں۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی بھی ابھی تک وہی کھیل جاری رکھے ہوئے ہے جو اُس نے گزشتہ برس پاناما کیس میں اپنائے ہوئے تھا۔یعنی میاں نواز شریف کی بظاہر بھر پورمخالفت بھی کرنی ہے لیکن خان صاحب کے تجویز کردہ اُصولوں اور ضابطوں کے مطابق نہیںبلکہ اپنی ترجیحات اور طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت۔ پریس کانفرنسوں اور سیاسی بیانوں تک توخوب تابڑ توڑ حملے کیے جائیں لیکن عملی طور پرکوئی پیشرفت نہ کی جائے۔ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ برس چار مطالبات کے ساتھ حکومتِ وقت کوایسی دھمکی دے ڈالی کہ اگر 27دسمبر 2016ء تک اُن کے یہ چار مطالبات نہیں مانے گئے تو پھر وہ ہونگے اور دم دمادم مست قلندر ہوگا۔مگر سب نے دیکھا کہ اُس ڈیڈ لائن کوگزر ے ہوئے بھی اب تقریباً چار مہینے ہو چکے ہیں، نہ دم دما دم مست قلندر ہوا اور نہ کسی چڑیا نے پر مارا۔ حکومت نے اُن کے کسی ایک مطالبے کو بھی لائقِ اعتناء نہ جانا۔ نہ کوئی تحریک چلی اور نہ کوئی احتجاج ہوا۔
بلاول واپس اپنے بلوں میں جابیٹھے۔اب خود آصف علی زرداری میدان میں کود آئے ہیںاور وہ تقریروں اور بیانوں تک میاں نواز شریف کو کوئی رعایت دینے کے روادار دکھائی نہیں دے رہے۔ مگر اُن کی مجبوری خود اُن کی اپنی ذات شریف ہے۔وہ جہاں جاتے ہیں کوئی اچھا تاثر لے کر واپس نہیں آتے۔ عوام کے ذہنوں پر اُن کے پچھلے پانچ سال ابھی تک ایک آسیب کی طرح سوار ہیں۔اُن کے نامہ اعمال میں کوئی ایسا قابل ذکر کارنامہ موجود نہیں ہے جسے دکھا کر وہ عوام کو اچھے دنوں کی کوئی نوید سنا سکیں۔عوام اُن پر اعتبارکرنے پر ابھی کسی طور تیار اور رضامند نہیں ہے۔ہاں اگر میاں صاحب کا حالیہ دورِ اقتدار زرداری صاحب کے پچھلے دور سے بھی خراب اور بدتر ہوتا تو شایدعوام اُن کی باتوں پر کوئی توجہ دے دیتے۔مگر حقیقتِ حال ایسی نہیں ہے۔ملک کے اندر یقینا بہتری آئی ہے۔حالات و واقعات عندیہ دے رہے ہیں کہ تمام مشکلات کے باوجود وطن ِ عزیز ترقی وخوشحالی کی جانب گامزن ہوچکا ہے۔
آج کاپاکستان 2013ء کے پاکستان سے بہت اچھا ہے۔پاناما کیس کوئی آج کی کرپشن کا معاملہ نہیں ہے۔یہ 20سال پرانا قصہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ میاں صاحب کو کسی تحریک کے نتیجے میں ہٹانے پر متفق اورتیار نہیں ہیں۔وہ اگر تبدیلی کے خواہاں ہیں تو صرف ووٹ اور انتخابی طریقہ کار کے مطابق۔وہ جانتے ہیں کہ افراتفری اور انتشارکی سیاست کے سبب ملک ایک بار پھر تنزلی اور ابتری کا شکار ہوسکتا ہے۔''گو نواز گو'' ایک حقیقی مطالبے کی بجائے تفریحی سلوگن بن چکا ہے۔عوام اِسے صرف لطف اندوزی اور مضحکہ خیزی کے لیے گنگنانا چاہتے ہیں۔ اِس سے بڑھ کر اِس کی کوئی اہمیت و افادیت نہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی اورپاکستان تحریک انصاف کا ملاپ اور گٹھ جوڑ بہت مشکل اور ناقابل قبول ہے۔ اِن دونوں کامفاد ایک دوسرے سے دوری ہی میں ہے، اگر یہ کسی ایک معاملے پر متحدومتفق بھی ہوجائیں توایسا زیادہ دنوں تک نہیں چل پائے گا۔ اِن دونوں کے اتحاد سے کسی قسم کا کوئی خطرہ اورنقصان بھی میاں نواز شریف کو نہیں بلکہ اِن ہی دونوں جماعتوں کو ہوگا۔میاں صاحب تو اِسے ایک نعمت غیر مترقبہ جان کر لطف اندوز ہی ہونگے۔ویسے بھی نہ خان صاحب اپوزیشن کارول اداکرنے کایہ استحقاق پیپلزپارٹی کے حوالے کرنے پر تیار ہوسکتے ہیں اور نہ پیپلزپارٹی کسی احتجاجی تحریک کی کمان خان صاحب کے ہاتھوں میں دینے پر رضامند ہوسکتی ہے۔دونوں خود کوملک کی دوسری بڑی سیاسی پارٹی اور حقیقی اپوزیشن تصورکیے بیٹھے ہیں۔ایسے میں دونوں کا یکجا ہونا فی الحال ناممکن ہی دکھائی دیتا ہے۔
ویسے بھی اگر یہ دونوں متحد ہوگئے تو میاں نواز شریف کے لیے اگلا انتخابی معرکہ اور بھی آسان ہوجائے گا۔اُنہیں دو مختلف مورچوں کی بجائے صرف ایک محاذ پر رزم آزمائی کرنا ہوگی۔وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ خان صاحب کی تحریک ِ انصاف کو بھی ایک ہی تیر سے شکار کرینگے۔دوسری جانب اِن دونوں پارٹیوں کو یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ علیحدہ علیحدہ الیکشن لڑنے کی صورت میں بالواسطہ فائدہ بھی میاں نواز شریف ہی کو پہنچ سکتا ہے۔یہ بات کچھ بعیداز قیاس بھی نہیں کہ نواز مخالف ووٹوں کی تقسیم کابالآخرفائدہ مسلم لیگ (ن) ہی کو حاصل ہوگا ۔یہی وسوسے اور خدشات اِن دونوں پارٹیوں کوایک دوسرے سے قریب بھی آنے نہیں دیتے اور بہت دور جانے بھی نہیں دیتے۔میاں صاحب کو قبل از وقت گھر بھیجنے میں بھی یہی دو عوامل حائل اور کارفرما ہیں۔