’گئوماتا کے محافظ فسادیوں سے زیادہ خطرناک ہیں‘ بھارتی صحافی
گئو رکشکوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ ہونا بھارتی حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی مشترکہ سازش بھی ہوسکتی ہے۔
بھارت میں 'گئوماتا کی حفاظت' کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں کو سینئر بھارتی صحافی نے 'فسادیوں سے بھی زیادہ خطرناک' قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مسلسل بڑھتے ہوئے اس رجحان کا نتیجہ بھیانک تباہی کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
ڈیجیٹل ایڈیٹر بی بی سی ہندی راجیش پریہ درشی نے ''پرتشدد گئو رکشک ہندوؤں کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں'' کے عنوان سے اپنے تازہ بلاگ میں ان ہندو انتہاء پسندوں پر شدید تنقید کی ہے جو گائے کے تقدس کے نام پر، ہجوم کی شکل میں، کسی بھی شخص پر دھاوا بول کر اسے قتل کردیتے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے بھارتی ادارے انہیں گرفتار ہی نہیں کرتے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: بھارت میں گائے چوری کے الزام پر 2 مسلمان قتل
خود کو ''گئو رکشک'' (گائے کے محافظ) کہنے والے ان گروہوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے راجیش پریہ درشی نے انہیں ''آوارہ بھیڑ'' سے تعبیر کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل میں انہیں قومی و انسانی اقدار کی تباہی اور جمہوریت ختم کرنے کےلیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ وہ لکھتے ہیں: ''اس وقت ملک میں فسادات نہیں ہو رہے ہیں لیکن جو ہورہا ہے وہ شاید زیادہ خطرناک ہے۔ فسادات واقعہ ہے، مگر ابھی جو چل رہا ہے وہ ایک مسلسل عمل ہے اور یہ دھیرے دھیرے معمول پر آنے والی چیز نہیں ہے۔''
اس خبر کو بھی پڑھیں:بھارتی ریاست گجرات میں گائے ذبح کرنے پرعمر قید کی سزا
گئو رکشکوں کا نشانہ بننے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ''اخلاق احمد، مظلوم، عنایت اللہ اور پہلو خان جیسے ناموں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔ انہیں جس ہجوم نے مارا ہے وہ فسادی نہیں ہیں بلکہ ان کا ایک قابل فخر نام 'گئو ركشک' یا گائے کا محافظ ہے۔''
اس قتل و غارت گری کے باوجود گئو رکشکوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ ہونے کےلیے انہوں نے ''خاموش شاباش'' کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حالات بھارتی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی مشترکہ سازش کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: گائے کے تحفظ کی آڑ میں بھارت میں انتہا پسندوں کی غنڈا گردی عروج پر
راجیش پریہ درشی لکھتے ہیں کہ اس طرزِ عمل نے گئو رکشکوں کو آئین اور قانون سے بالاتر بنادیا ہے لیکن اگر اس پُرتشدد ہجوم کو نہ روکا گیا تو مستقبل میں یہ بے قابو ہو کر ''کبھی افریقی نسل کے شہریوں پر، کبھی دلتوں (پسماندہ ہندوؤں) پر، کبھی قبائلیوں پر، کبھی خواتین پر حملے کرے گا۔''
ڈیجیٹل ایڈیٹر بی بی سی ہندی راجیش پریہ درشی نے ''پرتشدد گئو رکشک ہندوؤں کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں'' کے عنوان سے اپنے تازہ بلاگ میں ان ہندو انتہاء پسندوں پر شدید تنقید کی ہے جو گائے کے تقدس کے نام پر، ہجوم کی شکل میں، کسی بھی شخص پر دھاوا بول کر اسے قتل کردیتے ہیں جبکہ قانون نافذ کرنے والے بھارتی ادارے انہیں گرفتار ہی نہیں کرتے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: بھارت میں گائے چوری کے الزام پر 2 مسلمان قتل
خود کو ''گئو رکشک'' (گائے کے محافظ) کہنے والے ان گروہوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے راجیش پریہ درشی نے انہیں ''آوارہ بھیڑ'' سے تعبیر کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مستقبل میں انہیں قومی و انسانی اقدار کی تباہی اور جمہوریت ختم کرنے کےلیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ وہ لکھتے ہیں: ''اس وقت ملک میں فسادات نہیں ہو رہے ہیں لیکن جو ہورہا ہے وہ شاید زیادہ خطرناک ہے۔ فسادات واقعہ ہے، مگر ابھی جو چل رہا ہے وہ ایک مسلسل عمل ہے اور یہ دھیرے دھیرے معمول پر آنے والی چیز نہیں ہے۔''
اس خبر کو بھی پڑھیں:بھارتی ریاست گجرات میں گائے ذبح کرنے پرعمر قید کی سزا
گئو رکشکوں کا نشانہ بننے والوں کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ''اخلاق احمد، مظلوم، عنایت اللہ اور پہلو خان جیسے ناموں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے۔ انہیں جس ہجوم نے مارا ہے وہ فسادی نہیں ہیں بلکہ ان کا ایک قابل فخر نام 'گئو ركشک' یا گائے کا محافظ ہے۔''
اس قتل و غارت گری کے باوجود گئو رکشکوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند نہ ہونے کےلیے انہوں نے ''خاموش شاباش'' کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حالات بھارتی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی مشترکہ سازش کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں۔
اس خبر کو بھی پڑھیں: گائے کے تحفظ کی آڑ میں بھارت میں انتہا پسندوں کی غنڈا گردی عروج پر
راجیش پریہ درشی لکھتے ہیں کہ اس طرزِ عمل نے گئو رکشکوں کو آئین اور قانون سے بالاتر بنادیا ہے لیکن اگر اس پُرتشدد ہجوم کو نہ روکا گیا تو مستقبل میں یہ بے قابو ہو کر ''کبھی افریقی نسل کے شہریوں پر، کبھی دلتوں (پسماندہ ہندوؤں) پر، کبھی قبائلیوں پر، کبھی خواتین پر حملے کرے گا۔''