عمران خان نااہلی کیس مسلم لیگ ن کے رہنماؤں پر چیف جسٹس برہم
ہم بہت تحمل کا مظاہرہ کررہےہیں آخری بارکہہ رہے ہیں کہ عدالتوں کی تضحیک نہ کریں، چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کی درخواستوں پر سماعت سے متعلق میڈیا سے بات کرنے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نےعمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے گزشتہ روز دانیال عزیز اور حنیف عباسی کی میڈیا سے گفتگو پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے دانیال عزیز کو روسٹرم پر بلا کر استفسار کیا کہ آپ سے کیا امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ جس پر دانیال عزیز نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ نہیں الیکشن کمیشن سے متعلق کہا تھا، اگرعدالت سےمتعلق کوئی غلطی ہوتومعاف کردیں۔ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو یقین دہانی کرائی کہ عدالتی حکم پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اداروں سے متعلق لوگوں میں اعتماد پیدا کریں، یہ آپ کے ادارے ہیں، ان کو مضبوط کریں اور بے اعتباری اوربے اعتمادی کی بیماری کو ختم کریں، آپ کی آزادی اظہار رائے کیا ہے اس کی تشریح ہمیں کرنی ہے۔ ہم بہت تحمل کا مظاہرہ کررہےہیں لیکن اب آخری بارکہہ رہے ہیں کہ عدالتوں کی تضحیک نہ کریں، دوسری صورت میں ہم اس کیس پر بات کرنے سے روک دیں گے۔
سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے حنیف عباسی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پراعتراض کردیا، انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 2013 کے عام انتخابات میں حنیف عباسی کو بھاری مارجن سے ہرایا۔
انور منصور نے غیر ملکی شہریوں سے فنڈ وصول کرنے کے معاملے پر اپنے دلائل میں کہا کہ فنڈ، ایڈ اور کنٹری بیوشن میں فرق ہے، آئین کا سیکشن 6 امداد لینے کی اجازت دیتا ہے، قانون میں افراد سے فنڈز دینے کی اجازت ہے لیکن کسی غیر ملکی سے فنڈنگ لینے کا ذکر نہیں، اس لیے غیر ملکی بھی افراد ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ غیر ملکی کے فنڈ دینے پر پابندی ہے اور آپ نے اپنے جواب میں فنڈ دینے والوں کی دوہری شہریت کو تسلیم کیا ہے۔ جس پر انور منصور نے کہا کہ پاکستان کا کئی ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کامعاہدہ ہے۔ کوئی بھی شخص بیک وقت پاکستانی اور امریکی شہریت رکھ سکتا ہے۔
انور منصور کی دلیل پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ قانون اب بھی رائج ہے، جس پر انور منصور نے بتایا کہ 2002 سے پہلے امریکی نژاد پاکستانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ نہیں دیا جاتا تھا۔ 2002 کے بعد یہ معاملات طے پاگئے کہ اب دونوں پاسپورٹس رکھے جاسکتے ہیں۔ تحریک انصاف دوہری شہریت کے حامل افراد سے فنڈز لیتی ہے، جس کی تمام تفصیلات الیکشن کمیشن کو دی گئی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعت کی تشکیل بنیادی حقوق میں آتی ہے، کیا سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کا کوئی قانون موجود ہے۔
چیف جسٹس کے سوال پر انور منصور نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کے لئے انٹرا پارٹی الیکشن ضروری ہیں، اس کے علاوہ پارٹی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنا بھی ضروری ہے،سیاسی جماعتوں کا آڈٹ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کرتے ہیں، اکاؤنٹس کی تفصیلات الیکشن کمیشن کوفراہم کی جاتی ہیں،الیکشن کمیشن تمام تفصیلات کاجائزہ لیتا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعت کو انتخابی نشان الاٹ کیا جاتا ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے اکاؤنٹس کا آڈٹ نہیں ہو سکتا، جس پر انور منصور نے کہا کہ وہ آڈٹ کی تفصیلات عدالت میں جمع کروا چکے ہیں اور ہماراموقف ہے اکاؤنٹس کی منظوری کے بعد دوبارہ کیس نہیں کھل سکتا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی دستاویز الیکشن کمیشن میں کیس آنے کے بعد کی ہیں، کیس سے پہلے کی بھی دستاویزات ہیں تو وہ دکھائیں اور اگر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بیرونی فنڈنگ والا نکتہ چھوڑ دیں تو پھر کیا ہوگا۔ جس پر انور منصور نے کہا کہ تمام ذمہ داری چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی بنتی ہے اور پی ٹی آئی کی جانب سے فنڈنگ کی پالیسی 2011 میں تیار کی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الزام یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے امریکا میں کمپنی بنا کر فنڈ ریزنگ کی، جس پر انور منصور نے کہا کہ ایل ایل سی کمپنی تحریک انصاف کے لئے فنڈز لیتی ہے اور اس کی حیثیت ایک ایجنٹ جیسی ہے۔ تحریک انصاف ایل ایل سی امریکا میں پارٹی کی تنظیم سازی اور پارٹی کے موقف سے امریکا میں پاکستانیوں کو آگاہ کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آپ کے دلائل سے اب تک مطمئن نہیں ہوئی۔ فنڈ دینے والوں میں کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں، درخواست گزار نے غیرملکیوں کے فنڈز کی تفصیل بھی دی ہے، قانون کے حوالے سے فارن نیشنل اوردوہری شہریت میں کیافرق ہے۔ جس پر انور منصور نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پانچ سے چھ ہزار ڈالر ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں لکھا ہے کہ فنڈز کاکچھ بھی ممنوع ذرائع سے نہ ہو۔ انور منصور نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن میرے موقف کو درست تسلیم کرکے انتخابی نشان الاٹ کرچکا، یہ فیصلہ کرنا حکومت کااختیار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے فیصلہ دیا تو عدالت نے وفاقی حکومت کا اختیار غصب کیا، پہلے بھی ایک ایسے ہی معاملے میں جے آئی ٹی تشکیل دے چکے ہیں ، بتائیں فارن فنڈنگ کامعاملہ کس فورم پراٹھایا جاسکتا ہے، اگر پی ٹی آئی کو فارن فنڈنگ پارٹی کہہ دیاتو الیکشن کمیشن میں زیرالتواء مقدمے کا کیا ہوگا، کیاانتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد مصدقہ معلومات پر ایشو زندہ نہیں ہوگا۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نےعمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے گزشتہ روز دانیال عزیز اور حنیف عباسی کی میڈیا سے گفتگو پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے دانیال عزیز کو روسٹرم پر بلا کر استفسار کیا کہ آپ سے کیا امتیازی سلوک کیا جارہا ہے۔ جس پر دانیال عزیز نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ نہیں الیکشن کمیشن سے متعلق کہا تھا، اگرعدالت سےمتعلق کوئی غلطی ہوتومعاف کردیں۔ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو یقین دہانی کرائی کہ عدالتی حکم پر من و عن عمل کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اداروں سے متعلق لوگوں میں اعتماد پیدا کریں، یہ آپ کے ادارے ہیں، ان کو مضبوط کریں اور بے اعتباری اوربے اعتمادی کی بیماری کو ختم کریں، آپ کی آزادی اظہار رائے کیا ہے اس کی تشریح ہمیں کرنی ہے۔ ہم بہت تحمل کا مظاہرہ کررہےہیں لیکن اب آخری بارکہہ رہے ہیں کہ عدالتوں کی تضحیک نہ کریں، دوسری صورت میں ہم اس کیس پر بات کرنے سے روک دیں گے۔
سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے حنیف عباسی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پراعتراض کردیا، انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 2013 کے عام انتخابات میں حنیف عباسی کو بھاری مارجن سے ہرایا۔
انور منصور نے غیر ملکی شہریوں سے فنڈ وصول کرنے کے معاملے پر اپنے دلائل میں کہا کہ فنڈ، ایڈ اور کنٹری بیوشن میں فرق ہے، آئین کا سیکشن 6 امداد لینے کی اجازت دیتا ہے، قانون میں افراد سے فنڈز دینے کی اجازت ہے لیکن کسی غیر ملکی سے فنڈنگ لینے کا ذکر نہیں، اس لیے غیر ملکی بھی افراد ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ غیر ملکی کے فنڈ دینے پر پابندی ہے اور آپ نے اپنے جواب میں فنڈ دینے والوں کی دوہری شہریت کو تسلیم کیا ہے۔ جس پر انور منصور نے کہا کہ پاکستان کا کئی ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کامعاہدہ ہے۔ کوئی بھی شخص بیک وقت پاکستانی اور امریکی شہریت رکھ سکتا ہے۔
انور منصور کی دلیل پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ قانون اب بھی رائج ہے، جس پر انور منصور نے بتایا کہ 2002 سے پہلے امریکی نژاد پاکستانیوں کو پاکستانی پاسپورٹ نہیں دیا جاتا تھا۔ 2002 کے بعد یہ معاملات طے پاگئے کہ اب دونوں پاسپورٹس رکھے جاسکتے ہیں۔ تحریک انصاف دوہری شہریت کے حامل افراد سے فنڈز لیتی ہے، جس کی تمام تفصیلات الیکشن کمیشن کو دی گئی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیاسی جماعت کی تشکیل بنیادی حقوق میں آتی ہے، کیا سیاسی جماعت کی رجسٹریشن کا کوئی قانون موجود ہے۔
چیف جسٹس کے سوال پر انور منصور نے کہا کہ ہر سیاسی جماعت کے لئے انٹرا پارٹی الیکشن ضروری ہیں، اس کے علاوہ پارٹی کے اکاؤنٹس کی تفصیلات فراہم کرنا بھی ضروری ہے،سیاسی جماعتوں کا آڈٹ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کرتے ہیں، اکاؤنٹس کی تفصیلات الیکشن کمیشن کوفراہم کی جاتی ہیں،الیکشن کمیشن تمام تفصیلات کاجائزہ لیتا ہے، جس کے بعد سیاسی جماعت کو انتخابی نشان الاٹ کیا جاتا ہے۔
جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے اکاؤنٹس کا آڈٹ نہیں ہو سکتا، جس پر انور منصور نے کہا کہ وہ آڈٹ کی تفصیلات عدالت میں جمع کروا چکے ہیں اور ہماراموقف ہے اکاؤنٹس کی منظوری کے بعد دوبارہ کیس نہیں کھل سکتا، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی دستاویز الیکشن کمیشن میں کیس آنے کے بعد کی ہیں، کیس سے پہلے کی بھی دستاویزات ہیں تو وہ دکھائیں اور اگر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بیرونی فنڈنگ والا نکتہ چھوڑ دیں تو پھر کیا ہوگا۔ جس پر انور منصور نے کہا کہ تمام ذمہ داری چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی بنتی ہے اور پی ٹی آئی کی جانب سے فنڈنگ کی پالیسی 2011 میں تیار کی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الزام یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے امریکا میں کمپنی بنا کر فنڈ ریزنگ کی، جس پر انور منصور نے کہا کہ ایل ایل سی کمپنی تحریک انصاف کے لئے فنڈز لیتی ہے اور اس کی حیثیت ایک ایجنٹ جیسی ہے۔ تحریک انصاف ایل ایل سی امریکا میں پارٹی کی تنظیم سازی اور پارٹی کے موقف سے امریکا میں پاکستانیوں کو آگاہ کرتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت آپ کے دلائل سے اب تک مطمئن نہیں ہوئی۔ فنڈ دینے والوں میں کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں، درخواست گزار نے غیرملکیوں کے فنڈز کی تفصیل بھی دی ہے، قانون کے حوالے سے فارن نیشنل اوردوہری شہریت میں کیافرق ہے۔ جس پر انور منصور نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پانچ سے چھ ہزار ڈالر ہوں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون میں لکھا ہے کہ فنڈز کاکچھ بھی ممنوع ذرائع سے نہ ہو۔ انور منصور نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن میرے موقف کو درست تسلیم کرکے انتخابی نشان الاٹ کرچکا، یہ فیصلہ کرنا حکومت کااختیار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نے فیصلہ دیا تو عدالت نے وفاقی حکومت کا اختیار غصب کیا، پہلے بھی ایک ایسے ہی معاملے میں جے آئی ٹی تشکیل دے چکے ہیں ، بتائیں فارن فنڈنگ کامعاملہ کس فورم پراٹھایا جاسکتا ہے، اگر پی ٹی آئی کو فارن فنڈنگ پارٹی کہہ دیاتو الیکشن کمیشن میں زیرالتواء مقدمے کا کیا ہوگا، کیاانتخابی نشان الاٹ ہونے کے بعد مصدقہ معلومات پر ایشو زندہ نہیں ہوگا۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔