تقدیر سازی کی رات

رجب المرجب، شعبان المعظم اور رمضان المبارک کے درمیان ایک خاص روحانی ربط اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے


[email protected]

رجب المرجب، شعبان المعظم اور رمضان المبارک کے درمیان ایک خاص روحانی ربط اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اہل فکر و نظرکا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ رجب تزکیہ نفس، شعبان تسویہ قلب اور رمضان تصفیہ روح کے لیے نسخہ کیمیا ہے۔ رجب کی شرف و عظمت کو معراج النبیؐ نے، شعبان کو رحمۃ اللعالمین سے نسبت خاص نے اور رمضان کو رب اللعالمین سے رشتہ خاص نے چار چاند لگا دیے۔

آپؐ نے فرمایا:''شعبان المعظم کو دوسرے مہینوں پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسی مجھ کو تمام انبیائے کرام پر اور رمضان المبارک کو باقی مہینوں پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسی اللہ کو تمام مخلوق پر۔''

رحمت، برکت اور عظمت کے لحاظ سے مہینوں میں رمضان المبارک کا پہلا اور شعبان المعظم کا دوسرا نمبر ہے کیونکہ اول الذکر مہینہ اللہ کا اور بعدالذکر مہینہ رسولؐ اللہ کا ہے۔ بصیرت جیلانیؒ کے مطابق شعبان کے پانچ حروف پانچ بیش بہا نعمتوں کے مخزن ہیں یعنی شرف، عزت، بِر، الفت اور نور ۔ اور یہ نعمتیں انھی نیک اور سعید روحوں کو حاصل ہوتی ہیں جو شعبان المعظم کے جذبات اور احساسات کا دل و جان سے احترام کرتے ہیں۔

آج شعبان المعظم کی پندرہ تاریخ یعنی شب برات ہے۔ یہ ایک ایسی اہم رات ہے جس میں فرد، قوم، ملک اور سلطنت کی تقدیروں میں آیندہ سال کے دوران یعنی شعبان سے شعبان تک جوکچھ ہونے والا ہے وہ سب کچھ اور جس دن، جس گھڑی، جس جگہ اور جس وجہ سے ہونے والا ہے ان سب کی تفصیلات بمعہ جزئیات، کاتب تقدیر لوح محفوظ سے ظاہر کرکے فرشتوں کو عمل درآمد کی غرض سے دے دیتا ہے۔گزشتہ حالات یا تو بدستور رکھے جاتے ہیں یا ان میں بہتر یا ابتر تبدیلی کردی جاتی ہے۔ گویا آج کی رات تاریخ سازی اور تقدیر سازی کی رات ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ انسان اور زمین و زمان کی تقدیرکی تدبیرکرتا ہے۔

اس رات شجر حیات سے کئی پتے جھڑگئے اورکئی کونپلیں پھوٹ گئیں،کئی چراغ بجھ گئے اورکئی چراغ جل اٹھے، کئی گور کھدگئیں اور کئی گود بھر گئیں، کتنے ساز بے آواز ہوکر قبر کی رہن ہوگئے، لیکن نادان انسان کا تن اور من تماشاگاہ کون و مکان اور دھن، راگ ورنگ اور نغمہ وآہنگ کی دھن میں مگن ہے۔ اس بے خبر کو خبر بھی نہیں کہ موت نے دبے دبے پاؤں اس کی حیات کو اچکنے اور جھپٹنے کے لیے سفر شروع کردیا ہے اور اس کا بالائے زمین سے زیر زمین دفن کرنے کا سامان ہوچکا ہے۔

آج تجلیات الٰہی آسمان دنیا کی طرف ملتفت اور متوجہ ہوتی ہے اور شب کا آغاز، اللہ کی اس آواز سے ہوتا ہے ''ہے کوئی طالب رزق کہ اسے رزق دوں۔ ہے کوئی طالب صحت کہ اسے شفا دوں۔ ہے کوئی جگر لالہ کہ اسے شبنم کی ٹھنڈک دوں۔ ہے کوئی طالب مغفرت کہ اسے بخش دوں۔'' یہ صدا، یہ ندا صبح صادق تک فضا میں گونجتی رہتی ہے۔

آج کی رات کا تانا بانا، برکت، رحمت اورمغفرت کے تاروں سے بنا ہوا ہے۔ ہر آن کی شان ناقابل بیان ہے۔ ہرگھڑی برکت، ہر ساعت رحمت، ہر لحظہ مغفرت اور ہر لمحہ برأت ہے۔

گناہوں سے خلاصی شب برات کا خاصا اور برکت، رحمت اور نجات کی ضمانت اس کا خلاصہ ہے۔ آج ابر کرم جم کر برستا ہے۔ اللہ کی رحمتوں کے دروازے سب پر یکساں کھول دیے جاتے ہیں۔ جس طرح سورج امیرکے محل اور غریب کی جھونپڑی پر یکساں چمکتا ہے یا جس طرح برکھا کی رُت میں خوشنما اور بدنما دونوں برتن پانی سے بھرجاتے ہیں۔

اسی طرح آج کا رت جگا نیک و بد دونوں کی جھولیاں رحمت کے انمول موتیوں سے بن مول بھر دیاجا تا ہے یہ مغفرت اور رحمت بھری رات ان لوگوں کے لیے نوید مسرت ہے جو اپنے جرم و گناہ کے احساس سے، خوف خدا اور اندیشہ آخرت کے پیش نظر، ندامت کے آنسوؤں میں ڈوب جاتے ہیں۔ جو اپنے حال پر رو رو کر بے حال ہوجاتے ہیں اللہ کو اپنی عیال کا حال اور اپنے محبوبؐ کے پیاروں کا خیال، دو طرفہ محبت کی کشش سے بحر رحمت الٰہی میں مد وجزر اور جوش آجاتا ہے۔ اللہ کی رحمت بھی اپنے بندوں کی یہ حالت زار دیکھ کر حال میں آجاتی ہے۔ ارحم الراحمین کو رحم آجاتا ہے اور بارگاہ خداوندی سے یہ اعلان جاری ہوتا ہے ''آج تم سے کوئی باز پرس نہیں، جاؤ تمہارے سال بھر کے جرم و گناہ کی سزا معاف کردی گئی۔ تمہاری مغفرت فرما دی گئی۔''

آج کی رات رحمۃ اللعالمین کی امت کے لیے رب العالمین کی طرف سے ایک خصوصی قیمتی انعام ہے۔ ایسا انعام جو اس سے پہلے کسی نبی کی امت کو عطا نہیں کیا گیا۔ آج وہ اپنی رحمت کے تین سو دروازے اور جنت کے آٹھوں دروازے باعث تخلیق کائناتؐ کی امت کے لیے کھول دیتا ہے۔ آج اللہ عدل نہیں، احسان فرماتا ہے۔اس کی رحمت اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔

وہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ کثرت تعداد میں اپنے گناہ گار بندوں کو سال بھر کی خطاؤں اور گناہوں کی معافی، تلافی اور خلاصی کا پروانہ مغفرت عطا فرماتا ہے اور وہ گناہوں سے ایسے پاک وصاف ہوجاتے ہیں جیسے آج ہی انھوں نے شکم مادر سے آغوش مادر میں قدم رکھا ہے۔ شرط یہ ہے کہ مگرمچھ کے نہیں دل کے آنسوؤں اور سچی توبہ کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں اپنے سابقہ گناہوں کی معافی کے خواست گار اور طلبگار ہوں۔ ایسا نہ ہو بقول شاعر:

رات کو خوب پی، صبح کو توبہ کرلی

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

یہ توبہ نہیں، دھوکہ ہے۔ ایسی توبہ سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

شب برأت کی تصویر کا دوسرا رخ ''بے رخی'' ہے۔ آج رحمت غفار کے بحر دخار سے بعض بندوں کو ایک قطرہ بھی نصیب نہیں ہوتا۔ باد نسیم رحمت کے فرحت بخش جھونکوں میں سے ایک ہلکا سا جھونکا بھی انھیں نہیں چھوتا۔ چھونا تو بڑی بات، ان کی طرف سے گزرتا بھی نہیں وہ طعام رحمت اور کلام مغفرت کی دعوت عام میں بن بلائے مہمانوں کی طرح آتے ہیں لیکن دھتکار کر بھگا دیے جاتے ہیں۔ اللہ کی رحمت ان سے کوسوں میل دور رہتی ہے۔ ان میں مشرک، متکبر، چغل خور، کینہ پور، قاطع رحم، بے رحم، ذخیرہ اندوز، نافرمان اولاد، کاہن، جادوگر، زانی، شرابی اور سود خور شامل ہیں۔ اللہ ہمیں اپنی رحمت سے من کی مراد پانے والوں میں شامل فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں