محفل طفلاں
پاکستان کا آئین محافظ بن کر خود اس وڈیرہ شاہی کو توڑے گا۔
درد کی تانیں جب فغاں بنتی ہیں، ایک ساکن سی کیفیت ہوتی ہے، نہ کچھ دکھائی دیتا ہے، نہ سنائی، فیضؔ کو زندگی کسی مفلس کی قبا کی مانند نظر آئی۔ مفلس کی قبا، اس میں اتنے پیوند ہوتے ہیں اور ایک ایک پیوند کا دھاگا ٹوٹتا جاتا ہے۔
چاک چاک گریباں کی طرح پھٹا جاتا ہے سب کچھ۔ اور اب روئیں گے ہم زار زار، کوئی ہمیں رلائے کیوں۔ کل جو میری تحریر تھی، وہ وڈیرے کے بیٹے کے پس منظر میں تھی اور آج دفتر کھلا ہے، داستاں ہے ایک غریب بیٹی کی، اور وہی سندھ ہے، وہی شہر مقتل ہے، کندھ کوٹ میں ایک غریب کے گھر جب بھوک نے بسیرا کیا۔ گھر کے چولہوں کو جلے دیر ہو جائے تو فاقے جسم میں آگ کی طرح بھڑکنے لگے، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچوں کی نیلامی ہوتی ہے۔ باپ نے اپنی دس سالہ بیٹی ایک نیم وڈیرے نما شخص کو گھر میں کام کے خاطر، اس بیٹی کی انگلی وڈیرے کے ہاتھ میں دے دی۔
وہ صاحب اپنی کندھ کوٹ کی روایتوں کے ساتھ بستے کراچی میں تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ معاملہ ابھی تفتیش طلب ہے، لیکن یہ سچ بھی ہے کہ اس دس سالہ بیٹی کو نشہ آور چیزیں کھلانے کے بعد سات لوگوں نے زبردستی کی۔ لڑکی جب بہت بیمار ہوئی تو یہ موصوف، جو انگلی باپ نے اسے تھمائی تھی، واپس کندھ کوٹ جا کر اسی فاقہ کش گھر کی دہلیز پر اس بچی کے باپ کو واپس تھما دی۔ باپ کو کچھ سمجھ نہ آئی اور بیٹی کچھ بول نہ پائی کہ اس بیماری کا سبب کیا ہے۔ نہ وہ ہنستی تھی، نہ کھیلتی تھی، نہ بولتی تھی۔ آخر کیوں؟
بالآخر باپ اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور ڈاکٹر نے اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تصدیق کر دی۔ لڑکی بول اٹھی، چِلا اٹھی، بَین کرتے ہوئے سب کچھ بتانے لگی کہ کس طرح وہ وڈیرہ، اس کا بھتیجا اور اس کے بیٹوں نے اس کو برہنہ کیا اور اس کے جسم کے ساتھ کھیلا۔ وہ باپ فاقہ کش تو تھا مگر بھوک میں بھی اتنا شعور رکھتا تھا کہ اسے آیندہ نسلوں میں آنے والی بچیوںکو بچانا تھا، اس مقتل طفلاں سے۔ اس بھرے دستور سے، اس صبح بے نور سے، اس وڈیروں کی سندھ سے۔ کتنے باشعور ہیں اس کے والد، غیرتوں اور عزتوں کے کھوکھلے، تیوروں و روایتوں سے اور سلام ہو اس پولیس کو جس نے ایف آئی آر درج کی۔ کل کسی طرح وڈیرے کے بیٹے کی وڈیو وائرل ہوئی تھی۔
آج اس غریب کی بیٹی کی، اس کے فاقہ کش باپ کی وڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے۔ اتنی تیزی سے وڈیروں کا سندھ ٹوٹتے، پھوٹتے نظر آ رہا ہے، ایک فاقہ کش باپ کی فقط ایک دلیری کی وجہ سے، جس نے روند ڈالا اس ڈر کو کہ اس کو چھپا دوں اور میری عزت بچ جائے۔ ایسے کئی باپ ہوں گے، کئی مائیں ہوں گی جو بھوک کی ماری اپنی بیٹیوں کو وڈیرے کے گھر بھیجتی ہوں گی کام کی خاطر، بیٹوں کو مدرسوں میں بھیجتی ہوں گی ایک چھت اور چارپائی کی خاطر، بھوک کے مارے، ذلتوں کے مارے، ان گھروں سے بیٹے مدرسے کو جاتے ہیں اور بیٹیاں وڈیروں کے گھر کو جاتی ہیں۔ کسی بچی کے جسم کے ساتھ کھیلنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ صرف زبردستی ہو۔
اس بھوک کی ماری بچی کے لیے کچھ پیسے اور کھلونے ہی بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ اور وہ کیا جانے کہ ہاں اور نہ کرنے کے معنی کیا ہیں۔ وہ کیا جانے کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے۔ کنری سے جو کل وڈیرے کے بیٹے کے حوالے سے جو بند دریچے کھلے تھے، وہ سلسلہ کندھ کوٹ تک چلا ہے۔ اور دیکھیں کندھ کوٹ کے ایس ایس پی سومرو کو، کہ جہاں کنری میں ایس ایچ او باجوہ اس وڈیرہ شاہی سسٹم کا دفاع کر رہا تھا، اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا تھا، وہ کندھ کوٹ کی پولیس اس فاقہ کش باپ کو آئین سے ملا تحفظ دے رہی تھی۔
یہ دونوں ہی سسٹم تھے اور دونوں ہی ایک ہی قانون کی چھت تلے پلتے ہیں۔ ایک قانون کو روندتا ہوا کہتا ہے کہ یہ قانون ہے اور دوسرا قانون کی اس طرح کی پاسداری کرتا ہے کہ چاہے کتنی وڈیرہ شاہی روایتیں اس کے سامنے آ جائیں، وہ ان کو روندتا ہوا آئین کی، انسانی حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔ اور اے ڈی خواجہ کنری تک تو نہ پہنچ سکے، مگر یہاں پہنچ گئے اور اس واقعے کا نوٹس لیا۔ مگر کنری کے بھاگ کھلے کہ اس کا نوٹس چیف جسٹس آف پاکستان نے لیا۔ کیا! کندھ کوٹ کی اس ابھاگن لڑکی کے بھی بھاگ کھلیں گے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس واقعے کا بھی نوٹس لیں گے۔
لیکن میں اس لڑکی کو آج اپنی بیٹی کہتا ہوں، کل کندھ کوٹ کا وڈیرہ اس کو کراچی لایا تھا۔ اس بار میں اسے کراچی لاؤں گا۔ اور اسے پڑھاؤں گا ایک آزاد شہری کی طرح۔ اسے سبین محمود بناؤں گا۔ اسے مصوری کے رنگوں سے کھیلنا سکھاؤں گا۔ پیانو پر اس کی انگلیاں رکھواؤں گا۔ وہ چاہے رقص کرے تو رقص کرے، وہ چاہے گائے تو گائے، وہ صحافی بننا چاہے تو صحافی بنے، وہ میری بیٹی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرا ساتھ دیں گے، اس بچی کو Rehabilitate کرنے میں۔
غرض یہ کہ اس مقتل طفلاں میں ابھی اور بازار لگنے ہیں۔ اس ٹوٹتے پھوٹتے سماج میں ابھی بہت سے وڈیو آنے ہیں۔ پاکستان کا آئین محافظ بن کر خود اس وڈیرہ شاہی کو توڑے گا۔ یہ انگریزوں کی غلامی کی باقیات ہیں، یہ ان ہی کی دین ہے، وہ قوموں کو غلام رکھتے تھے اور وڈیرے ان کے آلہ کار تھے۔ جس طرح دہشت گردوں کے سہولت کار۔ دہشت گرد سہولت کار کے بغیر کچھ بھی نہیں اور انگریز سامراج اور اس سامراج کی نو آبادیات میں بیٹھی آمریتیں و نام نہاد جمہوریتیں ان وڈیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
چاک چاک گریباں کی طرح پھٹا جاتا ہے سب کچھ۔ اور اب روئیں گے ہم زار زار، کوئی ہمیں رلائے کیوں۔ کل جو میری تحریر تھی، وہ وڈیرے کے بیٹے کے پس منظر میں تھی اور آج دفتر کھلا ہے، داستاں ہے ایک غریب بیٹی کی، اور وہی سندھ ہے، وہی شہر مقتل ہے، کندھ کوٹ میں ایک غریب کے گھر جب بھوک نے بسیرا کیا۔ گھر کے چولہوں کو جلے دیر ہو جائے تو فاقے جسم میں آگ کی طرح بھڑکنے لگے، یہ وہ وقت ہوتا ہے جب بچوں کی نیلامی ہوتی ہے۔ باپ نے اپنی دس سالہ بیٹی ایک نیم وڈیرے نما شخص کو گھر میں کام کے خاطر، اس بیٹی کی انگلی وڈیرے کے ہاتھ میں دے دی۔
وہ صاحب اپنی کندھ کوٹ کی روایتوں کے ساتھ بستے کراچی میں تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ یہ معاملہ ابھی تفتیش طلب ہے، لیکن یہ سچ بھی ہے کہ اس دس سالہ بیٹی کو نشہ آور چیزیں کھلانے کے بعد سات لوگوں نے زبردستی کی۔ لڑکی جب بہت بیمار ہوئی تو یہ موصوف، جو انگلی باپ نے اسے تھمائی تھی، واپس کندھ کوٹ جا کر اسی فاقہ کش گھر کی دہلیز پر اس بچی کے باپ کو واپس تھما دی۔ باپ کو کچھ سمجھ نہ آئی اور بیٹی کچھ بول نہ پائی کہ اس بیماری کا سبب کیا ہے۔ نہ وہ ہنستی تھی، نہ کھیلتی تھی، نہ بولتی تھی۔ آخر کیوں؟
بالآخر باپ اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا اور ڈاکٹر نے اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تصدیق کر دی۔ لڑکی بول اٹھی، چِلا اٹھی، بَین کرتے ہوئے سب کچھ بتانے لگی کہ کس طرح وہ وڈیرہ، اس کا بھتیجا اور اس کے بیٹوں نے اس کو برہنہ کیا اور اس کے جسم کے ساتھ کھیلا۔ وہ باپ فاقہ کش تو تھا مگر بھوک میں بھی اتنا شعور رکھتا تھا کہ اسے آیندہ نسلوں میں آنے والی بچیوںکو بچانا تھا، اس مقتل طفلاں سے۔ اس بھرے دستور سے، اس صبح بے نور سے، اس وڈیروں کی سندھ سے۔ کتنے باشعور ہیں اس کے والد، غیرتوں اور عزتوں کے کھوکھلے، تیوروں و روایتوں سے اور سلام ہو اس پولیس کو جس نے ایف آئی آر درج کی۔ کل کسی طرح وڈیرے کے بیٹے کی وڈیو وائرل ہوئی تھی۔
آج اس غریب کی بیٹی کی، اس کے فاقہ کش باپ کی وڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے۔ اتنی تیزی سے وڈیروں کا سندھ ٹوٹتے، پھوٹتے نظر آ رہا ہے، ایک فاقہ کش باپ کی فقط ایک دلیری کی وجہ سے، جس نے روند ڈالا اس ڈر کو کہ اس کو چھپا دوں اور میری عزت بچ جائے۔ ایسے کئی باپ ہوں گے، کئی مائیں ہوں گی جو بھوک کی ماری اپنی بیٹیوں کو وڈیرے کے گھر بھیجتی ہوں گی کام کی خاطر، بیٹوں کو مدرسوں میں بھیجتی ہوں گی ایک چھت اور چارپائی کی خاطر، بھوک کے مارے، ذلتوں کے مارے، ان گھروں سے بیٹے مدرسے کو جاتے ہیں اور بیٹیاں وڈیروں کے گھر کو جاتی ہیں۔ کسی بچی کے جسم کے ساتھ کھیلنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں، یہ نہیں کہ صرف زبردستی ہو۔
اس بھوک کی ماری بچی کے لیے کچھ پیسے اور کھلونے ہی بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ اور وہ کیا جانے کہ ہاں اور نہ کرنے کے معنی کیا ہیں۔ وہ کیا جانے کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے۔ کنری سے جو کل وڈیرے کے بیٹے کے حوالے سے جو بند دریچے کھلے تھے، وہ سلسلہ کندھ کوٹ تک چلا ہے۔ اور دیکھیں کندھ کوٹ کے ایس ایس پی سومرو کو، کہ جہاں کنری میں ایس ایچ او باجوہ اس وڈیرہ شاہی سسٹم کا دفاع کر رہا تھا، اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا تھا، وہ کندھ کوٹ کی پولیس اس فاقہ کش باپ کو آئین سے ملا تحفظ دے رہی تھی۔
یہ دونوں ہی سسٹم تھے اور دونوں ہی ایک ہی قانون کی چھت تلے پلتے ہیں۔ ایک قانون کو روندتا ہوا کہتا ہے کہ یہ قانون ہے اور دوسرا قانون کی اس طرح کی پاسداری کرتا ہے کہ چاہے کتنی وڈیرہ شاہی روایتیں اس کے سامنے آ جائیں، وہ ان کو روندتا ہوا آئین کی، انسانی حقوق کی پاسداری کرتا ہے۔ اور اے ڈی خواجہ کنری تک تو نہ پہنچ سکے، مگر یہاں پہنچ گئے اور اس واقعے کا نوٹس لیا۔ مگر کنری کے بھاگ کھلے کہ اس کا نوٹس چیف جسٹس آف پاکستان نے لیا۔ کیا! کندھ کوٹ کی اس ابھاگن لڑکی کے بھی بھاگ کھلیں گے کہ چیف جسٹس آف پاکستان اس واقعے کا بھی نوٹس لیں گے۔
لیکن میں اس لڑکی کو آج اپنی بیٹی کہتا ہوں، کل کندھ کوٹ کا وڈیرہ اس کو کراچی لایا تھا۔ اس بار میں اسے کراچی لاؤں گا۔ اور اسے پڑھاؤں گا ایک آزاد شہری کی طرح۔ اسے سبین محمود بناؤں گا۔ اسے مصوری کے رنگوں سے کھیلنا سکھاؤں گا۔ پیانو پر اس کی انگلیاں رکھواؤں گا۔ وہ چاہے رقص کرے تو رقص کرے، وہ چاہے گائے تو گائے، وہ صحافی بننا چاہے تو صحافی بنے، وہ میری بیٹی ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ سب میرا ساتھ دیں گے، اس بچی کو Rehabilitate کرنے میں۔
غرض یہ کہ اس مقتل طفلاں میں ابھی اور بازار لگنے ہیں۔ اس ٹوٹتے پھوٹتے سماج میں ابھی بہت سے وڈیو آنے ہیں۔ پاکستان کا آئین محافظ بن کر خود اس وڈیرہ شاہی کو توڑے گا۔ یہ انگریزوں کی غلامی کی باقیات ہیں، یہ ان ہی کی دین ہے، وہ قوموں کو غلام رکھتے تھے اور وڈیرے ان کے آلہ کار تھے۔ جس طرح دہشت گردوں کے سہولت کار۔ دہشت گرد سہولت کار کے بغیر کچھ بھی نہیں اور انگریز سامراج اور اس سامراج کی نو آبادیات میں بیٹھی آمریتیں و نام نہاد جمہوریتیں ان وڈیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔