پاکستان میں نظامِ تعلیم خستہ حال نہیں بدترین ہے
ایسے کتنے افراد ہیں جو منظور حسین کی طرح ضدی ہوتے ہیں جو یہ طے کرلیتے ہیں کہ وہ اپنی منزل لے کر رہیں گے۔
KARACHI:
پچھلے دنوں چند پی ایچ ڈی اسکالرز نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہیں نوکری نہ ملی تو وہ خود سوزی کرلیں گے، اور یہ دھمکی اخبارات کی زینت بھی بنی تھی۔ پاکستان میں اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں ہماری پارلیمنٹ سے بھی بڑی سیاست کی بساطیں بچھی ہوئی ہیں، کون وظیفہ حاصل کرے گا یا نوکری پائے گا اِس کا فیصلہ سیٹ اناؤنس ہونے سے پہلے ہی طشت از بام ہوچکا ہوتا ہے۔ یہاں پر انا کی اتنی بڑی جنگیں لڑی جاتی ہیں جیسے کسی قبائلی علاقے میں خون کے پیاسے آپس میں گھتم گتھا ہوں، ایسے میں ڈاکٹر منظور حسین ساہی کی کہانی ایک ہمت، خود اعتمادی اور مسلسل جدوجہد کی کہانی ہے۔
چند ماہ پہلے ڈاکٹر منظور حسین کو پراگ یونیورسٹی کی طرف سے 'بیسٹ ریسرچر آف دی ائیر' کا اعزاز دیا گیا اور اب وہ اُسی یونیورسٹی میں پرنسپل انوسٹیگیٹر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ دو سالوں کے دوران اپنی یونیورسٹی میں سب سے زیادہ بین الاقوامی سائنسی جرنلز میں مقالے چھاپنے والے منظور حسین کی پی ایچ ڈی کرنے کی کہانی کم و بیش دس سال پر محیط ہے۔
جامعہ زرعیہ فیصل آباد سے 2007ء میں وہ فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت پی ایچ ڈی کرنے کے لئے پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ گئے۔ ریسرچ کا کافی حصہ مکمل کرنے اور بہت کورس پاس کرنے کے باوجود، سپروائزر سے چند نجی اختلافات کی بناء پر وہ یونیورسٹی کا کینڈیسی امتحان پاس نہ کرسکے۔ اِن کو 2011ء میں واپس پاکستان آنا پڑا۔ یہاں آکر فیصل آباد زرعی یونیورسٹی نے اِن اخراجات کا مطالبہ کیا جو اُن پر کئے گئے تھے، جو وہ اقساط میں ادا کرنے پر رضا مند بھی تھے لیکن یونیورسٹی سینڈیکیٹ اِن کو یہ رقم یکمشت ادا کرنے پر راضی کرنا چاہتی تھی۔ منظور حسین نے اِس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا اور جس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے یونیورسٹی کو کہا گیا کہ اِس معاملہ میں وہ ادارے کو رقم لوٹانے کے مجاز نہیں ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول میں اتنی بڑی ناکامی کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اور سبجیکٹ جی آر ای کا امتحان پاس کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کیلئے جامعہ پنجاب میں داخلہ لے لیا۔ یہاں انہوں نے کمپری ہینسو کا امتحان بھی پاس کرلیا اور پی ایچ ڈی کا سائنوپسز بھی تیار کرلیا لیکن اُن کا یہ سائنوپسز منظور نہ ہوا کیونکہ اُن کے کاغذات میں جامعہ زرعیہ فیصل آباد سے مائیگریشن سرٹیفکیٹ کم تھا۔ اب انہوں نے اِس مائیگریشن سرٹیفکیٹ کے لئے کوشش شروع کی لیکن جامعہ کے ذمہ داران نے انہیں یہ سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کردیا۔ وہ اپنی درخواست گورنر پنجاب تک لے گئے لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد بھی انہیں یہ سرٹیفکیٹ نہیں مل پایا۔ درمیان میں ہی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں پی ایچ ڈی نہیں کرنے دیا جائے گا اِس لئے انہوں نے پراگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ایک ریکارڈ ٹائم میں ریکارڈ پبلیکشنز کے ساتھ 'بیسٹ ریسرچر آف دی ائیر' کے ایوارڈ کے ساتھ پی ایچ ڈی مکمل کرلی۔ لیکن جہاں انہوں نے اتنا بڑا کام کرلیا، وہیں آج کی تاریخ تک اُن کو پاکستان میں مائیگریشن سرٹیفکیٹ نہیں مل پایا۔
ایسے کتنے افراد ہیں جو منظور حسین کی طرح ضدی ہوتے ہیں جو یہ طے کرلیتے ہیں کہ وہ اپنی منزل لے کر رہیں گے۔ حالات خواہ جو بھی ہوں لیکن پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جب منظور حسین واپس لوٹے تو کوئی ادارہ بھی انہیں قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ انتظامیہ کے اطوار تو اپنی جگہ کلرک اور چھوٹا طبقہ بھی جس طرح اِن ملک پلٹ اسکالرز کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے الگ باب کا متقاضی ہے۔
کئی ماہ دھکے کھانے کے بعد بھی اُس کی درخواستیں ایک میز سے دوسری میز تک سفر کرتی رہیں۔ بالآخر پراگ یونیورسٹی میں اُس کے سپروائزر نے کہا کہ منظور واپس آجاؤ۔ منظور نے کہا کہ اُس کے پاس وہاں آنے کے لئے پیسے نہیں جس پر سپروائزر نے اپنی جیب سے ٹکٹ اور اخراجات کے پیسے روانہ کئے اور منظور حسین کو پراگ یونیورسٹی میں نوکری مل گئی۔
ڈاکٹر منظور حسین کسی بائنڈنگ کے بغیر بھی پاکستان میں ہی کام کرنے کا خواہشمند ہے لیکن بیرونِ ملک اعزاز سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی اگر نوکری نہ ملے تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا تو نہیں جاسکتا۔ یہ صرف منظور کی کہانی نہیں ہے بلکہ اِس جیسے بہت سے نوجوان آج بھی اعلیٰ ترین ڈگری رکھنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ ایسے قابل افراد کی بیروزگاری ہمارے ملک کے نظامِ تعلیم کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کیا ایسا نظام وضع نہیں کیا جاسکتا کہ پی ایچ ڈی مکمل ہونے کے ساتھ ہی اِن کو کسی ادارے کے ساتھ منسلک کیا جاسکے۔ ہمارے ہونہار طالب علم جن کو غیر ملکی یونیورسٹیاں ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں، اور بہت سے کیسز میں اُن کے وہ ادارے جن سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی، اُن کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تلوار اُن کے سر لٹک رہی ہوتی ہے کہ ملک واپس آؤ، ورنہ تمہارے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔
جب یہ واپس پلٹتے ہیں تو اِن کی جو درگت بنتی ہے اُس پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارے، اعلیٰ انتظامات کے مالک نہیں ہیں۔ یہاں جو بھی اقتدار سے چمٹ جاتا ہے اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے علاوہ کوئی بھی وائس چانسلر کے مقام تک نہ پہنچ پائے، جس کی وجہ سے بہت سے قابل پروفیسرز کی حق تلفی ہوتی ہے۔
جہاں اساتذہ کی انا اتنی زیادہ ہو کہ ایک طالب علم کے مائیگریشن سرٹیفکیٹ کے راستے میں پانچ سال جتنی اونچی دیواریں کھڑی کر دیتے ہوں، جہاں سپروائزر طلبا و طالبات کے مقالات اُٹھا کر فرش پر پٹخ دیتے ہوں اور کہتے ہوں جا لے کر دکھا مجھے ڈگری، وہاں طاقت اور اختیار کے لئے وہ کیا کیا نہ کرنے پر تیار ہوجاتے ہوں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پچھلے دنوں چند پی ایچ ڈی اسکالرز نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہیں نوکری نہ ملی تو وہ خود سوزی کرلیں گے، اور یہ دھمکی اخبارات کی زینت بھی بنی تھی۔ پاکستان میں اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں ہماری پارلیمنٹ سے بھی بڑی سیاست کی بساطیں بچھی ہوئی ہیں، کون وظیفہ حاصل کرے گا یا نوکری پائے گا اِس کا فیصلہ سیٹ اناؤنس ہونے سے پہلے ہی طشت از بام ہوچکا ہوتا ہے۔ یہاں پر انا کی اتنی بڑی جنگیں لڑی جاتی ہیں جیسے کسی قبائلی علاقے میں خون کے پیاسے آپس میں گھتم گتھا ہوں، ایسے میں ڈاکٹر منظور حسین ساہی کی کہانی ایک ہمت، خود اعتمادی اور مسلسل جدوجہد کی کہانی ہے۔
چند ماہ پہلے ڈاکٹر منظور حسین کو پراگ یونیورسٹی کی طرف سے 'بیسٹ ریسرچر آف دی ائیر' کا اعزاز دیا گیا اور اب وہ اُسی یونیورسٹی میں پرنسپل انوسٹیگیٹر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ دو سالوں کے دوران اپنی یونیورسٹی میں سب سے زیادہ بین الاقوامی سائنسی جرنلز میں مقالے چھاپنے والے منظور حسین کی پی ایچ ڈی کرنے کی کہانی کم و بیش دس سال پر محیط ہے۔
جامعہ زرعیہ فیصل آباد سے 2007ء میں وہ فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت پی ایچ ڈی کرنے کے لئے پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ گئے۔ ریسرچ کا کافی حصہ مکمل کرنے اور بہت کورس پاس کرنے کے باوجود، سپروائزر سے چند نجی اختلافات کی بناء پر وہ یونیورسٹی کا کینڈیسی امتحان پاس نہ کرسکے۔ اِن کو 2011ء میں واپس پاکستان آنا پڑا۔ یہاں آکر فیصل آباد زرعی یونیورسٹی نے اِن اخراجات کا مطالبہ کیا جو اُن پر کئے گئے تھے، جو وہ اقساط میں ادا کرنے پر رضا مند بھی تھے لیکن یونیورسٹی سینڈیکیٹ اِن کو یہ رقم یکمشت ادا کرنے پر راضی کرنا چاہتی تھی۔ منظور حسین نے اِس فیصلہ کو عدالت میں چیلنج کیا اور جس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے یونیورسٹی کو کہا گیا کہ اِس معاملہ میں وہ ادارے کو رقم لوٹانے کے مجاز نہیں ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول میں اتنی بڑی ناکامی کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری اور سبجیکٹ جی آر ای کا امتحان پاس کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کیلئے جامعہ پنجاب میں داخلہ لے لیا۔ یہاں انہوں نے کمپری ہینسو کا امتحان بھی پاس کرلیا اور پی ایچ ڈی کا سائنوپسز بھی تیار کرلیا لیکن اُن کا یہ سائنوپسز منظور نہ ہوا کیونکہ اُن کے کاغذات میں جامعہ زرعیہ فیصل آباد سے مائیگریشن سرٹیفکیٹ کم تھا۔ اب انہوں نے اِس مائیگریشن سرٹیفکیٹ کے لئے کوشش شروع کی لیکن جامعہ کے ذمہ داران نے انہیں یہ سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کردیا۔ وہ اپنی درخواست گورنر پنجاب تک لے گئے لیکن پانچ سال گزرنے کے بعد بھی انہیں یہ سرٹیفکیٹ نہیں مل پایا۔ درمیان میں ہی انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں پی ایچ ڈی نہیں کرنے دیا جائے گا اِس لئے انہوں نے پراگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ایک ریکارڈ ٹائم میں ریکارڈ پبلیکشنز کے ساتھ 'بیسٹ ریسرچر آف دی ائیر' کے ایوارڈ کے ساتھ پی ایچ ڈی مکمل کرلی۔ لیکن جہاں انہوں نے اتنا بڑا کام کرلیا، وہیں آج کی تاریخ تک اُن کو پاکستان میں مائیگریشن سرٹیفکیٹ نہیں مل پایا۔
ایسے کتنے افراد ہیں جو منظور حسین کی طرح ضدی ہوتے ہیں جو یہ طے کرلیتے ہیں کہ وہ اپنی منزل لے کر رہیں گے۔ حالات خواہ جو بھی ہوں لیکن پی ایچ ڈی کرنے کے بعد جب منظور حسین واپس لوٹے تو کوئی ادارہ بھی انہیں قبول کرنے کو تیار نہ تھا۔ انتظامیہ کے اطوار تو اپنی جگہ کلرک اور چھوٹا طبقہ بھی جس طرح اِن ملک پلٹ اسکالرز کے ساتھ برتاؤ کرتا ہے الگ باب کا متقاضی ہے۔
کئی ماہ دھکے کھانے کے بعد بھی اُس کی درخواستیں ایک میز سے دوسری میز تک سفر کرتی رہیں۔ بالآخر پراگ یونیورسٹی میں اُس کے سپروائزر نے کہا کہ منظور واپس آجاؤ۔ منظور نے کہا کہ اُس کے پاس وہاں آنے کے لئے پیسے نہیں جس پر سپروائزر نے اپنی جیب سے ٹکٹ اور اخراجات کے پیسے روانہ کئے اور منظور حسین کو پراگ یونیورسٹی میں نوکری مل گئی۔
ڈاکٹر منظور حسین کسی بائنڈنگ کے بغیر بھی پاکستان میں ہی کام کرنے کا خواہشمند ہے لیکن بیرونِ ملک اعزاز سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بھی اگر نوکری نہ ملے تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھا تو نہیں جاسکتا۔ یہ صرف منظور کی کہانی نہیں ہے بلکہ اِس جیسے بہت سے نوجوان آج بھی اعلیٰ ترین ڈگری رکھنے کے باوجود بے روزگار ہیں۔ ایسے قابل افراد کی بیروزگاری ہمارے ملک کے نظامِ تعلیم کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کیا ایسا نظام وضع نہیں کیا جاسکتا کہ پی ایچ ڈی مکمل ہونے کے ساتھ ہی اِن کو کسی ادارے کے ساتھ منسلک کیا جاسکے۔ ہمارے ہونہار طالب علم جن کو غیر ملکی یونیورسٹیاں ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں، اور بہت سے کیسز میں اُن کے وہ ادارے جن سے انہوں نے پی ایچ ڈی کی، اُن کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں لیکن ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تلوار اُن کے سر لٹک رہی ہوتی ہے کہ ملک واپس آؤ، ورنہ تمہارے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔
جب یہ واپس پلٹتے ہیں تو اِن کی جو درگت بنتی ہے اُس پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیمی ادارے، اعلیٰ انتظامات کے مالک نہیں ہیں۔ یہاں جو بھی اقتدار سے چمٹ جاتا ہے اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے علاوہ کوئی بھی وائس چانسلر کے مقام تک نہ پہنچ پائے، جس کی وجہ سے بہت سے قابل پروفیسرز کی حق تلفی ہوتی ہے۔
جہاں اساتذہ کی انا اتنی زیادہ ہو کہ ایک طالب علم کے مائیگریشن سرٹیفکیٹ کے راستے میں پانچ سال جتنی اونچی دیواریں کھڑی کر دیتے ہوں، جہاں سپروائزر طلبا و طالبات کے مقالات اُٹھا کر فرش پر پٹخ دیتے ہوں اور کہتے ہوں جا لے کر دکھا مجھے ڈگری، وہاں طاقت اور اختیار کے لئے وہ کیا کیا نہ کرنے پر تیار ہوجاتے ہوں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس