نیوز لیکس ایشو پر پیدا ہونیوالے بحران کا اختتام
دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے جہاں ہتھیاروں اور اداروں کی ضرورت ہے وہاں متبادل نظریے یا بیانیے کی بھی ضرورت ہے
RAHIM YAR KHAN/
MULTAN/
FAISALABAD/
لاہور:
ملک کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت کے درمیان بدھ کو ہونے والی طویل ملاقات میں نیوز لیکس سے متعلق تمام معاملات طے پا گئے ہیں جس کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنا ٹویٹ واپس لے لیا ہے۔یوںفوج اور حکومت کے درمیان ایک تناؤ کی جو کیفیت تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق بدھ کو وزیر اعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، ڈی جی آئی آیس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی،وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان طویل تبادلہ خیال کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی ملاقات میں شریک ہو گئے۔وزیراعظم ہاؤس کے ترجمان کے مطابق ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس میں نہ صرف ڈان لیکس سے متعلق معاملے پر تفصیلی بات کی گئی بلکہ اس معاملے پر میڈیا پر آنے والی خبروں کے بعد ریاستی اداروں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمی کو بھی زیر بحث لایا گیا۔
بعد ازاں پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے 29اپریل کو جاری اپنا ٹویٹ واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے انکوائری کمیٹی رپورٹ کے پیرا نمبر18میں کی گئی سفارشات کی منظوری کے بعد ان پر عملدر آمد ہو چکا ہے اس سے ڈان لیکس کا معاملہ حل ہوگیا ہے اور وہ ٹویٹ بے معنی اور غیرموثر ہو گیا ہے، ایک بیان میں آئی ایس پی آر نے کہا مذکورہ ٹویٹ کسی حکومتی ادارے یا شخصیت کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں تھا، پاک فوج جمہوری عمل کی حمایت کرتی ہے اور آئین پاکستان کی بالادستی کے لیے پرعزم ہے۔
نیوز لیکس کے ایشو پر جو صورت حال پیدا ہوئی تھی وہ کسی بھی لحاظ سے خوشگوار نہیں کہی جا سکتی تھی' بہرحال فریقین نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے تناؤ کی کیفیت کا خاتمہ ہوا 'اس سارے ایشو کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر نیوز لیک ایشو پر وزیراعظم سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن میں کمی نہ رکھی جاتی اور جو کچھ اب ہوا ہے یہی جاری کیا جاتا تو شاید آئی ایس پی آر کو شدید ردعمل جاری نہ کرنا پڑتا۔ اسی طرح ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر آئی ایس پی آر اپنے ردعمل میں زیادہ آگے نہ جاتا تو بھی معاملات اس نہج تک نہ پہنچتے کہ ٹویٹ واپس لینا پڑتا۔ بہرحال جو کچھ ہوا 'اسے بھلا کر آگے کی سمت دیکھنا ضروری ہو گیا ہے۔ حکومت اور فوج دونوں کو پاکستان کو درپیش حالات کی سنگینی اور سنجیدگی کا احساس ہے۔
شاید اسی وجہ سے گزشتہ روز سول اور فوجی قیادت کے اجلاس میں صورت حال کو نارمل کیا گیا ہے کیونکہ پاکستان کے اندر بعض قوتیں چاہتی تھیں کہ یہ تناؤ مزید بڑھے تاکہ ان کے عزائم پورے ہو سکیں۔ فوج اور حکومت دونوں نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے' اسی دانش کا تقاضا ہے کہ حالات نارمل ہو گئے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت ادارہ جاتی استحکام کی سخت ضرورت ہے۔ سی پیک کے معاملات سے لے کر دہشت گردی کے ایشو تک سے نمٹنے کے لیے فوج اور سول حکومت کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے۔ پچھلے دنوں چمن کے مقام پرپاک افغان سرحد پر افغانستان نے جو کچھ کیا 'وہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے بعد ایران کے فوجی سربراہ نے ایک اشتعال انگیز بیان جاری کیا' ادھر بھارت کنٹرول لائن کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے جب کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار الگ گھات لگائے ہوئے بیٹھے ہیں۔
ایسے ماحول اور صورت حال میں پاکستان کی جمہوری قوتوں اور فوج کے درمیان ہم آہنگی ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جمہوریت کی دعوے دار قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ملک کو درپیش چیلنجز کے معاملات پر ذومعنی گفتگو اور بیانات سے گریز کریں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں کی ذہنی تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ دہشت گردوں کے خلاف نظریاتی محاذ پر جنگ کر سکیں۔
دہشت گردوں کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے جہاں ہتھیاروں اور اداروں کی ضرورت ہے وہاں متبادل نظریے یا بیانیے کی بھی ضرورت ہے۔ جمہوری قوتیں اندرون ملک دہشت گردوں کے نظریے کو شکست دے سکتی ہیں' ایسے حالات میں پاکستان کے اداروں کو بھی خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے۔ بہرحال نیوز لیکس کے ایشو پر وزیراعظم ہاؤس سے جو نوٹیفکیشن جاری ہوا اور اس کے ردعمل میں آئی ایس پی آر نے جو ٹویٹ جاری کیا اور اس کے نتیجے میں جو کنفیوژن اور تناؤ کی کیفیت پیدا ہوئی ' وہ دور ہو گئی ہے' ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں غلطیوں سے بچا جائے تاکہ کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا نہ ہو۔یہی جمہوریت کے استحکام کی ضمانت ہے۔