شام عراق یمن اور اب بحرین

کشمیر پالیسی پر بھارت سیاسی طور سے پریشانی کے دلدل میں پھنس گیا ہے


Anis Baqar May 11, 2017
[email protected]

یہ عجب اتفاق ہے کہ جو سیاسی بحران افغان پالیسی کو سربلند کرنے کے لیے پاکستان میں رچایا گیا، نہ ہی اس سے پاکستان کی قومی سلامتی کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی پاک افغان قربت میں اضافہ ہوا، بلکہ چمن بارڈر اور طورخم بارڈر کشیدگی سے پر ہوگئے اور یہ عجیب کہانی ہے کہ افغان بارڈر دونوں جانب سے مخدوش ہوگیا۔ بارہا کوششیں کی گئیں مگر افغان بارڈر غیر محفوظ رہا۔ یہ مانا کہ کشمیر پالیسی پر بھارت سیاسی طور سے پریشانی کے دلدل میں پھنس گیا ہے اور وہ اس دلدل سے باہر آنے کی جو پالیسی اختیار کر رہا ہے وہ اس میں اور دھنستا چلا جارہا ہے مگر عالمی طور پر مغرب نہیں سمجھ سکے اور خاص طور سے بنگلہ دیش کے وجود میں آنے سے اس کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بنگالی مسلمانوں نے سیاسی طور پر کشمیریوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ مگر مسٹر مودی کی گائے پوجا نے یہ نقصان پورا کردیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں حالیہ پولنگ ٹرن آؤٹ کی شرح نے بھارتی پوزیشن کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ موجودہ شرح استصواب کا احوال تو دیکھیے عالمی رائے عامہ تو بھارتی موقف کو لیے بغیر پسندیدہ ہیں، مگر بھارت ایک بڑی جمہوریت ہے جہاں تقریباً 30 فیصد مڈل کلاس سامنے آئی ہے، مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ بھارتی غریب کے باقی ماندہ عوام کا کیا حال ہے۔ بقیہ بھارتی عوام کا 60 فیصد کس حال میں ہے۔ کیونکہ عام دنیا کو بھارت کے 30،35 فیصد لوگ ان کا معاشی ہدف پورا کرتے رہتے ہیں۔ دنیا اب چونکہ روپیہ کا طواف کررہی ہے۔ ان کو عام دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

بھارت کے یہی 35-30 فیصد لوگ تجارتی خوشحالی کا اصل سرمایہ ہیں۔ لہٰذا کسی حد تک چین نے بھی اس اقتصادی عروج سے ہاتھ ملا رکھا ہے۔ بھارتی سرمایہ کار اور دنیا کے دیگر ممالک کے لوگ بھارت کے اس مصنوعی ترقی سے خوش ہیں۔ دنیا اپنے مفادات کے تحت چل رہی ہے، دوستی نام کی کوئی چیز نہیں، روابط کے اصول اور زر کی چاہت ہی دنیا کی نئی سیاست ہے۔ تمام خرابیوں کے باوجود بھارت جمہوریت کے نام پر ہر قسم کی گندگی کو دھو رہا ہے اور رفتہ رفتہ بنگلہ دیش، بھارت سے ہوتی ہوئی میانمار کے راستے سے انڈونیشیا کا راستہ ایک اور سی پیک کی چین کسر پوری کر رہا ہے۔ محنت، عقل اور معاشی توانائی کا کھیل اب چین کو معاشی سربلندیوں تک لے جارہا ہے، اس لیے جنوبی ایشیا میں جنگ کے آثار ختم ہوتے جارہے ہیں۔

شمالی کوریا کو امریکا نے دھمکی تو دے رکھی ہے کہ وہ اگر ایٹمی تجربہ کرے گا تو اس کا مطلب ایٹمی جنگ ہوگی جس پر شمالی کوریا کے صدر نے اس کا امریکا کو جواب یوں دیا کہ اگر جنگ ہوئی تو امریکی بحری بیڑہ جزیرہ نما یا کوریا میں ہی ڈبو دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس بڑھتے ہوئے جنگی حالات میں جنوبی کوریا کے عوام سیؤل میں امریکا کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں جس کا فائدہ روس نے اٹھایا اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ایک امن معاہدہ کر ڈالا، جس میں ترکی، ایران، سعودی عرب اور شام روس سب ہی شامل ہیں۔

ابھی اس ڈیل کو 24 گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ اسکول کے بچے بستہ لیے دمشق کی گلیوں اور شام کے دیگر علاقوں میں نظر آنے لگے۔ عجیب بات یہ ہے کہ شام اور سعودی عرب کے اتحادی بھی اس ڈیل میں پوری طرح شامل ہیں۔ پھر کم جان ان شمالی کوریا کی سخت بیانی نے بھی جزیرہ نما کوریا میں جو جنگ کے بادل منڈلارہے تھے ایک اور ایٹمی جنگ ملتوی ہوگئی کیونکہ مغربی دنیا نے اور امریکا نے شمالی کوریا کے صدر کو (Crazy) کریزی بوائے کے نام سے پکارنا شروع کردیا ہے اور پیانگ پانگ شہر جو شمالی کوریا کا دارالسلطنت ہے اس کو خالی کرانا شروع کردیا ہے اور جاپان کو ایٹمی حملے کی دھمکی دی ہے، اور یہ کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔ غرض آج کل کے زمانے میں ہر ملک دوسرے ملک کی سیاسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے موڈ میں نظر آتا ہے۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملک کے داخلی حالات اور خارجہ حکمت عملی بھی بہت ہوشیاری سے وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے موقع پر اسلامی اتحاد کے نام سے جو گروپ پاکستان کی طرف سے سامنے آیا ہے اس کے فوائد کے ساتھ خطرات بھی نمایاں ہیں۔

چلیے شام کے معاملے میں تو روس اور امریکا قریب آئے، ترکی بھی اس معاہدے میں سامنے آیا اور سعودی عرب بھی مشکلات سے باہر آیا، مگر مشرق وسطیٰ کے مخصوص جنگی حالات ابھی بھی اختلافات سے پر ہیں۔ ترکی کو ان دنوں آزاد کردستان کی اہمیت کی پڑی ہوئی ہے۔ خصوصاً (PKK) پی کے کے، کی طرف سے بڑھتے ہوئے حالات جس میں ایک نئی جنگ کی تیاری ہے اور اس جنگ کی خاص بات یہ ہے کہ ترکی کے ذہن میں یہ خواب حقیقت بن کر ابھر رہا ہے کہ امریکا نے آزاد ترکستان کی فوج کو لیس کیا ہے، جب کہ اس کے امکانات بہت کم ہیں، کیونکہ کردوں کی فوج ایک عوامی فوج ہے اور وہ مارکسی نظریات رکھتی ہے، لہٰذا اس کو امریکا کیونکر لیس کرسکتا ہے۔

مگر میرا جواب طیب اردوان کو کیونکر مطمئن کرسکتا ہے۔ بقول ترکی کے لیڈران کے، داعش نے شمالی علاقے کے شمالی حصے سے جو پسپائی اٹھائی ہے اس پر پی کے کے نے قبضہ کرلیا ہے اور چونکہ کردوں کے بڑے گروپ ترکی میں آباد ہیں اس لیے ترک قیادت کے خدشات بجا ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا ایک نئی جنگ کی تیاری ہورہی ہے۔ اب حقیقت کیا ہے، یہ نئی جنگ کس کے بل بوتے پر لڑی جائے گی۔ کیونکہ اس وقت جو بھی جنگیں ہورہی ہیں، ان کے ڈانڈے روس یا امریکا سے مل رہے ہیں، بقیہ تو غیر معروف ہیں۔ پراکسی (Proxy) وار کے زمرے میں نہیں آتے۔ یمن کی جنگ اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بن رہی ہے، کیونکہ یمن پر جو فضائی حملہ ہورہا ہے اس سے وہاں بچوں اور عورتوں کے حالات زندگی اندوہناک ہیں اور وہاں اب کالرا کی وبا آلودگی کی وجہ سے پھیلنے کے قریب ہے۔

اس جنگ کو مسلمانوں کی خانہ جنگی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جس کو بعض اعتبار سے فقہی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں اور اب اس جنگ میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی تو یمن کے خلاف جنگ میں شامل ہیں لیکن یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا کہ ایران روس حزب اﷲ دوسری جانب سے شامل ہونے جارہا ہے۔ اگر صورت حال یوں ہوئی تو یہ ہمارے لیے تشویشناک ہوجائے گی، مگر یمن کی صورتحال ایران کو اس جنگ میں کسی حد تک شامل ہونے کی طرف لے جارہی ہے۔ ایرانی خبر رساں ادارے یمن کی موجودہ صورتحال سے پریشان ہیں اور وہ سعودی حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ ادھر ایک دوسری خطرناک صورتحال پیدا ہورہی ہے کہ یمن کے ساتھ بحرین میں بھی سیاسی انتشار پیدا ہوچلا ہے۔

بحرین کے ایک روحانی عالم شیخ قاسم پر مقدمہ چلنے کو ہے جس سے وہاں کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے اور ایران اس علاقے کی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے، خاص طور سے سعودی ڈپٹی کراؤن پرنس کے بیان کے بعد جو انھوں نے 8 مئی کو دیا تھا، اس پر ایران کے پریس ٹی وی کے مطابق جو ایران کے وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل حسین دیگان نے دیا ہے، وہ تشویشناک ہے۔ بقول ان کے اگر سعودیوں نے مزید کچھ اس خطے میں کیا تو وہ شاہی سلطنت کو نیست و نابود کردیںگے، محض مکہ اور مدینہ کو وہ ہاتھ نہیں لگائیں۔ یہ بیان ایک عربی ٹی وی چینل المنار پر نشر ہوا۔ بقول ان کے یہ کراؤن پرنس کو جواب تھا۔

گویا ایران اور سعودی تعلقات خراب ہورہے ہیں جس کے اثرات ہمارے علاقے پر بھی پڑسکتے ہیں اور اس صورتحال کے پیش نظر پاکستان کی وزارت خارجہ کو اپنا مثبت خارجی کردار ادا کرنا ہوگا۔ کیونکہ پاکستان نئے بارڈر پر کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے میں گزشتہ ہفتے سے خارجہ پالیسی پر گفتگو کررہا ہوں کہ امن سرگرم عمل ہو مگر آج خبریں آنے تک ایک انگریزی اخبار نے بھی ایران پاکستان کشیدگی کی خبر نمایاں طور پر لگائی ہے۔ اس لیے پاکستانی لیڈروں کو یہ محاذ سرد کرنا ہوگا۔ خدا پاکستان کے حق میں اس کا نگہبان رہے اور ہمارے لیڈر امن کے لیے کوشاں رہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں