عدالتی احترام ترجیح کیوں نہیں
پیپلزپارٹی ملک کی واحد پارٹی ہے جس نے سب سے پہلے عدالتی فیصلوں کو متنازعہ بنایا
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے تمام سیاست دانوں سے کہا ہے کہ وہ عدالتوں کا احترام یقینی بنائیں کیونکہ قوم کا رہنما ہونے کے ناتے تمام سیاست دانوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عدالتوں کا احترام کریں، عدالتوں کا احترام برقرار رکھاجانا چاہیے۔ فاضل چیف جسٹس نے ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ پوری دنیا کی عدالتوں میں جج حضرات اختلافی نوٹ دیتے آئے ہیں مگر ایسا شور کہیں نہیں ہورہا جیسا پاناما لیکس کے فیصلے میں دیے گئے اختلافی نوٹ پر ہوا اور جس کو قانون کا کچھ بھی پتا نہیں وہ بھی میڈیا میں تبصرے کرنے میں مصروف ہے، جب کہ غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے تو اس میں بدنیتی شامل نہیں ہوگی۔
اس لیے عدالتوں سے متعلق بداعتمادی ختم کرنا ہوگی۔ چیف جسٹس نے یہ بالکل درست کہاکہ سیاست دانوں کا کہا گیا ایک جملہ بہتری بھی لاسکتا ہے اور خرابی بھی پیدا کرسکتا ہے۔ عدالتیں قانون کے مطابق کام کرتی ہیں، جج قاضی نہیں ہوتے اس لیے تعمیری کردار ادا کیا جانا ضروری ہے اس لیے عدالتوں سے متعلق بد اعتمادی کو ختم کرنا ہوگا۔
عمران خان نے بھی چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد کہاکہ ہمیں سپریم کورٹ پر مکمل اعتماد ہے اور ہمیشہ پاناما کیس شاندار طور پر سنے جانے پر ججوں کا دفاع کریںگے، میں ججوں کو خراج تحسین پیش کرتاہوں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس سے قبل بھی کہہ چکے ہیں کہ عوام کا ملک کی عدالتوں پر اعتماد ہونا چاہیے اور عدالتیں قانون کے مطابق جو فیصلے کرتی ہیں ان پر سیاست دانوں سمیت تمام فریقین کو اعتماد کرنا چاہیے کیونکہ نظام اور عدلیہ بہت ضروری ہیں مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہورہا اور سیاسی حلقوں میں صرف من پسند فیصلے قبول کرنے کا فیشن عروج پر ہے۔ بے نظیر بھٹو ناپسندیدہ عدالتی فیصلوں کو کھلے عام چمک کا فیصلہ قرار دیا کرتی تھیں اور اپنے خلاف مقدمات میں فیصلہ اپنے حق میں آنے کو حق و سچ کا فیصلہ کہا جاتا تھا۔
پیپلزپارٹی ملک کی واحد پارٹی ہے جس نے سب سے پہلے عدالتی فیصلوں کو متنازعہ بنایا اور عدالتی فیصلوں کے بعد اپنی پسند کے فیصلوں کو حق اور سچ کی فتح کہا اور اپنے خلاف آنے والے فیصلوں کو صوبائی رنگ دیا اور یہاں تک کہا گیا کہ سپریم کورٹ سے آج تک پیپلزپارٹی کو انصاف نہیں ملا۔ اس سلسلے میں یہاں تک کہا گیا کہ عدالتیں صوبائی امتیاز برتتی ہیں۔
پنجاب کے وزیراعظم برطرفی کے بعد بحال کیے گئے مگر سندھ سے تعلق رکھنے والی وزیراعظم کی برطرف دو حکومتیں بحال نہیں کی گئیں۔ پیپلزپارٹی یہ بھول جاتی ہے کہ سابق مسلم لیگی وزیراعظم محمد خان جونیجو کا تعلق بھی سندھ سے تھا جنھیں جنرل صدر ضیا الحق نے برطرف کیا تھا جس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا اور ملک میں انتخابات کا اعلان کردیاگیا تھا۔ سپریم کورٹ میں سماعت جاری تھی اور فضائی حادثے میں صدر جنرل ضیا اور دیگر فوجی افسر بھی شہید ہوئے تھے اور انتخابات کی تیاریاں عروج پر تھیں اور سپریم کورٹ نے محمد خان جونیجو کی برطرفی غیر قانونی قرار دی تھی مگر انتخابات سر پر آجانے اور جماعتی بنیاد پر ہونے کی وجہ سے انتخابات کا انعقاد نہیں روکا تھا اور 1988 کے الیکشن میں پیپلزپارٹی نے ملک میں حکومت بنائی تھی۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کے نوجوان صاحبزادے بلاول زرداری مسلسل شکایات کررہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے خلاف مسلسل عدالتی فیصلے آتے رہے مگر مسلم لیگ ن اور پنجاب کے وزیراعظم کے خلاف عدالتی فیصلے نہیں آتے۔ عدالتی معاملات میں صوبائیت کو شامل کرنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ صوبے نہیں دیکھتیں بلکہ قوانین اور ثبوت دیکھتی ہیں جس کے مطابق ججوں کو فیصلے اور اختلافات کا قانونی حق حاصل ہے مگر دنیا بھر میں عدالتی فیصلہ اکثریتی رائے کے ججوں کا تسلیم کیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھٹو صاحب کے کیس میں بھی اکثریتی فیصلہ ہوا تھا اور اب موجودہ وزیراعظم سے متعلق جو اکثریتی فیصلہ آیا ہے وہ حتمی نہیں ہے بلکہ مکمل تحقیقات ہونا باقی ہے۔
ملک میں عدالتی فیصلے سیاسی اور عوامی سطح پر حیرت کا باعث بھی بنتے رہے ہیں جن پر قانون کے مطابق اپیل اور نظر ثانی کا حق بھی ملتا رہا ہے جس سے اعلیٰ عدالتی فیصلے تبدیل بھی ہوئے ہیں۔ سیشن کورٹوں کے فیصلے ہائی کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے سپریم کورٹ میں چیلنج ہوکر تبدیل بھی ہوتے رہے ہیں جس سے یہ تاثر بھی ابھرتا ہے کہ جو فیصلے اوپر جاکر تبدیل ہوجاتے ہیں وہ نچلی عدالتوں میں کیے ہی کیوں جاتے ہیں۔ نیچے اور اوپر حقائق اور قانون یکساں ہے مگر فیصلے مختلف ہونے پر سوال اٹھتے ہیں تو ایسے فیصلے کرنے والوں سے بھی باز پرس ہونی چاہیے۔
جس سے عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ گزشتہ دنوں حج اسکینڈل کیس کے تمام ہی ملزمان کا باعزت بری کیا جانا ڈاکٹر عاصم پر کرپشن کے سنگین الزامات کے مقدمات میں طویل اسیری کے بعد ضمانت ہوجانا اور پھر سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل میمن کی سندھ ہائی کورٹ سے ضمانت کی درخواست مسترد ہوکر اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منظور ہوجانے کے بعد ایف آئی اے کا انھیں گرفتار کرنا توہین عدالت تھا تو ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ ہونا بھی شکوک و شبہات کا موجب بنتا ہے۔
کسی کو طویل عرصہ حراست میں رہنے کے بعد سزا اور پھر باعزت رہائی کو کیا کہا جائے۔ راولپنڈی کے میئر کی نا اہلی کے فیصلے کے بعد اگلے روز ہی حکم امتناعی کے ذریعے بحالی اور پھر کراچی کی ڈی ایم سی ویسٹ کے نو منتخب چیئرمین کو کام سے روکے جانے اور پھر آٹھ مہینے گزر جانے کے بعد بھی کوئی فیصلہ نہ ہونے عوامی عہدہ خالی رہنے پر تو عوام کا مضطرب ہونا لازمی ہے۔
ان ہی معاملات کی وجہ سے بد اعتمادی بڑھتی ہے تو عوامی سطح اور سوشل میڈیا پر اعتراضات ہوتے ہیں۔ فاضل ججوں کے فیصلوں پر سیاسی تنقید اور افواہیں فیشن بن گئی ہیں۔ عدالتی فیصلوں سے قبل فیصلہ قبول کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے اور بعد میں تنقید پر عوام بھی حیران ہوتے ہیں۔ عدالتی فیصلوں کے ہر کوئی اپنے مطلب کے معنی نکال لیتا ہے اور چیف جسٹس پاکستان کے بقول قانون سے ناواقف لوگوں کے عجیب و غریب تبصرے مناسب نہیں بلکہ لوگ اپنی اپنی عدالت لگالیتے ہیں مگر عدلیہ خاموش رہنے پر مجبور ہے۔ عدلیہ اپنے فیصلوں پر تنقید کا جواب نہ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ جس سے لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع مل رہا ہے۔ عدلیہ پر بد اعتمادی کہیں بھی درست قرار نہیں دی جاتی مگر بعض اہم معاملات مثلاً کے الیکٹرک کے مسئلے پر خاموشی عوام کو بے چین ضرور کرتی ہے ، عوام کے مجموعی مفاد اور بعض اداروں کی ہٹ دھرمی پر توجہ دی جانی چاہیے۔