پاکستان کے ابتدائی لوگ
برصغیرکی تقسیم کے موقع پرجونسل موجود تھی، اس میں ہرہنرکمال کی حد تک موجود تھا
برصغیرکی تقسیم کے موقع پرجونسل موجود تھی، اس میں ہرہنرکمال کی حد تک موجود تھا۔ جتنا بھی غورکیا جائے،حیرت ہوتی ہے۔ مبالغہ اورتعصب کے بغیر سوچا جائے توایسا لگتا ہے کہ آج سے ستربرس پہلے کے مرد،خواتین اوربچے آج کل کے لوگوں سے انتہائی مختلف تھے۔ تخلیق،محنت،اچھوتا پن اورتجربے کی مٹی میں گندھے ہوئے انسان۔وہ لوگ جو پاکستان بننے سے پہلے موجود تھے،ہرلحاظ سے میری اورآج کے دورکی نسل سے بہترتھے۔سوال یہ ہے کہ کیوں۔ برسوں سے اس سوال کا جواب تلاش کررہا ہوں مگر مناسب جواب نہیں مل رہا۔ شائدسوال ہی غلط ہے۔مگرمجھے یقین ہے کہ سوال کی بنیاد صائب اورسنجیدہ ہے!
کسی میدان میں دیکھ لیجیے۔سول سروس سے شروع کرتاہوں۔ابتدائی سرکاری ملازم کو پرکھیے۔ ان میں مختارمسعود،قدرت اللہ شہاب،شیخ منظورالہٰی، مسعودکھدرپوش،قاسم رضوی اورطارق صدیقی جیسے لوگ نظرآتے ہیں۔خیریہ تومشہورلوگ ہیں۔ان کے علاوہ بھی باکمال افسرتھے مگرگوشہ گمنامی میں رہے۔ اس لیے کہ شرفاء کا طریق یہی تھا۔یہ نہیں کہ منافقانہ ایمانداری کاڈھول خوداپنے ہاتھوں سے بجاتے رہیں۔آج کا سرکاری چلن یہی ہے۔اس وقت ذہن میں یہی چندنام آرہے ہیں۔
یہ سرکاری افسرتوتھے ہی،مگر سادہ،پُرخلوص اورپُرتاثیرلوگ۔عام لوگوں کی مشکلات حل کرنے والے لوگ ۔نئی بات،نئی جہت اورتازہ خیالات کے مالک ان افسران میں خوبیاں خامیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔سوچیے،اگرمختارمسعود محنت نہ کرتا،توکیامینارپاکستان جیساعظیم نمونہ اس برق رفتاری اورکم پیسوں میں بن سکتا تھا۔قدرت اللہ شہاب بڑے سے بڑے عہدے پررہا۔مگرذاتی جائیداد کیا تھی، محض سفیدپوشی برقراررکھتے رکھتے دنیا سے گزر گیا۔ شہاب نامہ لکھنے کی صلاحیت آج کس افسرمیں ہے۔اب توسرکاری ملازمین میں جعلی دانشوراورادبی قذاق موجود ہیں جو خود اپنی علمی عظمت کا ڈھنڈورا پیٹتے تھکتے نہیں۔سوچیے، کیاآج ایک بھی ایساشخص ہے جوپاکستان کے ہربڑے عہدے پرفائزرہاہو مگر قلاش ہو۔آج کل توکئی افسر،سرکاری نوکری میں آتے ہی لوٹ ماراور دولت کمانے کے لیے ہیں۔ تقسیم ہندسے پہلے کی نسل کے سرکاری ملازمین،آج کی سرکاری پود سے بہت بہتر تھے۔مقابلہ ہی نہیں کیاجاسکتا مگرسوال اپنی جگہ برقرارہے کہ آخرکیوں؟
شاعری کی طرف آئیے۔دیکھیے کیسے کیسے خوبصورت نام نظرآتے ہیں۔فیض احمدفیض، احمدفراز،احسان دانش،حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، منیرنیازی،مصطفی زیدی اورجوش ملیح آبادی جیسے دیو آنکھیں چکاچوندکردیتے ہیں۔ہرشاعرپرکتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ ان شاعروں کے فلسفے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔یہ آپ کاحق ہے مگراس قامت کے شاعر کیا آج کل موجودہیں۔جواب آپ بھی جانتے ہیں۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ یہ تمام شعراء پاکستان کی ابتدائی نسل کے سرخیل تھے۔یہ تمام لوگ برصغیرمیں پیداہوئے۔
اس کے بعدپاکستانی کہلائے۔کوہاٹ کے پٹھان گھرانے میں پیداہونے والے احمدفرازکا اردوسے کیا تعلق ہوسکتا تھا۔مگرآپ اس کی شاعری پڑھیے،اردوزبان کوبھی فراز پر فخر ہے۔فیض کے متعلق لکھنے والے درجنوں کی تعداد میں ہیں مگرفیض احمدفیض جیساشعرکہنے والاایک بھی موجود نہیں۔ قطعاً یہ عرض نہیں کررہاکہ آج کے شعراء کرام کسی لحاظ سے ادنیٰ ہیں۔مگرحقیقت یہ ہے کہ اس پائے کے شعرکہنے والے ناپید ہیں۔باقی باتیں ہیں۔صرف باتیں۔ جوش ملیح آبادی کے سامنے اردواورفارسی الفاظ ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوتے تھے۔کیاآج ایک بھی شاعرجوش ملیح آبادی کے قدکاٹھ کاہے۔جوش تووہ شخص تھاجسے وزیراعظم نہرونے ہرطرح سے ہندوستان میں رہنے کی ترغیب دی تھی۔نہرواس عظیم شاعرکا مرید تھا۔تمام رات جوش صاحب کوسنتا تھا مگریہ مردِعجیب دنیاوی فائدے کوٹھوکرمارکرپاکستان چلاآیا۔یہ عجیب لوگ تھے۔صاحب،بہت عجیب لوگ۔مصطفیٰ زیدی کا کلام پڑھیے۔طالبعلم حیران ہوجاتاہے۔کیسے کیسے ہیرے جیسے شعر،کمال فن،کمال فن!
کسی اورغم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
غم دل میرے رفیقو،غم رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے،کوئی رازدان نہیں ہے
فقط ایک دل تھااب تک سووہ مہربان نہیں ہے
یہ شعراء کرام کیاتھے۔یہ کیوں ایسے تھے۔یہ اتنے خوبصورت شعرکیسے کہہ ڈالتے تھے۔اس کا جواب توشائد تلاش کیاجاسکے مگرآج اس طرح کے لوگ ناپیدکیوں ہیں، سمجھ اورفہم سے بالاترہے۔
ادیبوں کی طرف آئیے۔سعادت حسن منٹو، عبداللہ حسین،احمدندیم قاسمی،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر، غلام عباس،وزیرآغااوراسی لڑی کے دیگر ادیب اب کہاں غائب ہوچکے ہیں۔اشفاق احمد جیسا صوفی لکھاری ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ منٹو کو پڑھیے۔انسان حیران ہوجاتاہے کہ کس قیامت کا افسانہ نگارتھا۔کیاکمال کہانیاں لکھتاتھا۔صرف اور صرف43برس زندگی پانے والاادیب،کیاکیاکچھ لکھ گیاہے۔
اسکاتمام ادبی کام سات جلدوں پرمحیط ہے۔خیالات کااچھوتاپن بلکہ حقیقت اورزندگی کے عملی امتزاج کابے مثل سنگم،کسی اور ادیب کے قلم سے روا نہیں ہوا۔پڑھنے والاحیران ہوجاتا ہے کہ یہ شخص کس دورمیں بیٹھ کرکتنے آگے والے دورکی باتیں لکھ رہاتھا۔منٹوکے افسانوں میں سے ہندی نام نکال دیجیے۔ویسے ایساکرنا نہیں چاہیے۔مگرصرف اور صرف مثال کے لیے اگران افسانوں میں سے ہندی نام نکال کرآج کے نام ڈال دیے جائیں،توایسے معلوم ہوتاہے کہ منٹوآج کے پاکستان کے متعلق لکھ رہا تھا۔ ہرطرح سے سچی باتیں۔اسے فحش نگارکہنے والے خود بے نام ہوگئے، مگر منٹو آج بھی ادب کی دنیاکا''اپنی طرز کاواحدمینار''ہے۔
اشفاق احمدجیساسادہ اوردل آویزصوفیانہ باتیں کہنے اورلکھنے والااورکوئی دوسرا نہیں ہے۔یہ بھی تقسیم ہندسے پہلے کی پود ہے۔ان کی کتابیں پڑھتے پڑھتے انسان کسی اوردنیامیں سفرکرنا شروع کردیتا ہے۔ان بڑے لوگوں کے متعلق بھرپوراندازسے ایک کالم میں کچھ بھی نہیں لکھاجا سکتا۔ان عظیم لوگوں کے لیے توکتابیں درکار ہیں۔شائدسینکڑوں کتابیں۔مگرسوال وہیں کاوہیں موجود ہے۔برصغیرکی اس نسل کے بعد، پاکستان میں دوسری، تیسری اورآج کی نسل اتنی بنجر کیسے ہوگئی۔بنجرلفظ بھی اس قحط رجال کااحاطہ نہیں کر سکتا۔
موسیقی کی طرف آئیے۔گلوکاروں میں بڑے غلام علی خان،مہدی حسن،غلام علی،نورجہاں،ملکہ پکھراج، فریدہ خانم،امانت علی خان جیسے گائیک اب کیوں موجود نہیں ہیں۔ان جیسی ملکوتی آوازیں اب صرف اورصرف خواب کیوں بن چکی ہیں۔ان میں ہرگائیک اورگائیکہ اپنی مثال آپ ہے۔کسی کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔امانت علی خان کی گائی ہوئی غزلیں سنیں۔آوازمیں اتنی شائستگی اور لوچ ہے،کہ ذہن حیرت میں گم ساہوجاتاہے۔مہدی حسن جیسی صدابہارآوازاس درجہ خاص ہے کہ اسے نقل تک نہیں کیاجاسکتا۔
جی چاہتاہے کہ آپ اسے سنتے ہی جائیں۔سُراورلَے پریہ گرفت فقیدالمثال ہے۔ مہدی حسن کی گائی ہوئی غزلوں کوآج کاکوئی بھی گلوکارویسی پختگی سے نہیں گاسکتا،جواس کااصل خاصہ ہے۔ نور جہاں کے متعلق کیا بات کی جائے۔اس کی آوازکی خوبصورتی کے متعلق کیالکھاجائے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیونکرلکھاجائے۔نورجہاں کی گائی ہوئی غزلیں اور گانے آج بھی اَمرہیں۔یہی حال فریدہ خانم کا ہے۔کس کس کاذکرکروں۔مگرحیرت انگیزبات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ تقسیم ہند سے پہلے پیداہوئے۔ان میں سے ایک بھی پاکستان کاپیدائشی شہری نہیں تھا۔ ایک بھی ایسا قدآورگلوکارنہیں جو1947کے بعد اس مٹی میں پیداہواہو،جسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔
موسیقاروں کابھی یہی حال ہے۔حال کالفظ شائدصورتحال کی صحیح غمازی نہیں کرتا۔دراصل یہ ایک عجیب سانامعلوم المیہ ہے۔ خواجہ خورشیدانور،غلام احمدچشتی جوباباچشتی کے نام سے جانے جاتے تھے،فیروزنظامی اورسلیم اقبال بے مثال موسیقار تھے۔ان کی ترتیب دی گئی دھنیں سدابہارہیں۔آج ایک بھی ان کے پائے کا موجود نہیں ہے۔آج کل کے موسیقار،انھیں کی پرانی دھنوں کونیارنگ دیکراپنی دکان چمکاتے ہیں۔یہ لوگ بھی برصغیرکے باسی تھے۔ ان کے بعد اس سطح کے موسیقارکیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے، یہ اپنی جگہ سنجیدہ بحث ہے۔
کسی بھی شعبہ کوپرکھیے۔آپکوحیرت انگیزیکساں مفلسی نظرآئے گی۔سیاستدانوں میں ذوالفقارعلی بھٹو،نواب زادہ نصراللہ خان،مفتی محمود،جی ایم سید اورولی خان جیسے سیاسی جن نظرآتے تھے۔اس سطح کے سیاستدان اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ دوبارہ گزارش کروںگا۔کسی بھی شعبہ ِزندگی میں اس صلاحیت کے افرادموجود نہیں ہیں جوبرصغیرکی پہلی یا ابتدائی نسل تھی۔شائدآج کل ہرسہولت موجودہے مگر ذہنوں میں وہ روشنی نہیں رہی جوآنے والی نسلوں کے لیے مثال بن سکے۔قحط الرجال کامطلب اب سمجھ آتاہے مگرابتدائی سوال ابھی تک موجودہے۔ہم اتنے بنجر کیوں ہوچکے ہیں؟
کسی میدان میں دیکھ لیجیے۔سول سروس سے شروع کرتاہوں۔ابتدائی سرکاری ملازم کو پرکھیے۔ ان میں مختارمسعود،قدرت اللہ شہاب،شیخ منظورالہٰی، مسعودکھدرپوش،قاسم رضوی اورطارق صدیقی جیسے لوگ نظرآتے ہیں۔خیریہ تومشہورلوگ ہیں۔ان کے علاوہ بھی باکمال افسرتھے مگرگوشہ گمنامی میں رہے۔ اس لیے کہ شرفاء کا طریق یہی تھا۔یہ نہیں کہ منافقانہ ایمانداری کاڈھول خوداپنے ہاتھوں سے بجاتے رہیں۔آج کا سرکاری چلن یہی ہے۔اس وقت ذہن میں یہی چندنام آرہے ہیں۔
یہ سرکاری افسرتوتھے ہی،مگر سادہ،پُرخلوص اورپُرتاثیرلوگ۔عام لوگوں کی مشکلات حل کرنے والے لوگ ۔نئی بات،نئی جہت اورتازہ خیالات کے مالک ان افسران میں خوبیاں خامیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔سوچیے،اگرمختارمسعود محنت نہ کرتا،توکیامینارپاکستان جیساعظیم نمونہ اس برق رفتاری اورکم پیسوں میں بن سکتا تھا۔قدرت اللہ شہاب بڑے سے بڑے عہدے پررہا۔مگرذاتی جائیداد کیا تھی، محض سفیدپوشی برقراررکھتے رکھتے دنیا سے گزر گیا۔ شہاب نامہ لکھنے کی صلاحیت آج کس افسرمیں ہے۔اب توسرکاری ملازمین میں جعلی دانشوراورادبی قذاق موجود ہیں جو خود اپنی علمی عظمت کا ڈھنڈورا پیٹتے تھکتے نہیں۔سوچیے، کیاآج ایک بھی ایساشخص ہے جوپاکستان کے ہربڑے عہدے پرفائزرہاہو مگر قلاش ہو۔آج کل توکئی افسر،سرکاری نوکری میں آتے ہی لوٹ ماراور دولت کمانے کے لیے ہیں۔ تقسیم ہندسے پہلے کی نسل کے سرکاری ملازمین،آج کی سرکاری پود سے بہت بہتر تھے۔مقابلہ ہی نہیں کیاجاسکتا مگرسوال اپنی جگہ برقرارہے کہ آخرکیوں؟
شاعری کی طرف آئیے۔دیکھیے کیسے کیسے خوبصورت نام نظرآتے ہیں۔فیض احمدفیض، احمدفراز،احسان دانش،حفیظ جالندھری، اختر شیرانی، منیرنیازی،مصطفی زیدی اورجوش ملیح آبادی جیسے دیو آنکھیں چکاچوندکردیتے ہیں۔ہرشاعرپرکتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ ان شاعروں کے فلسفے سے اختلاف کر سکتے ہیں۔یہ آپ کاحق ہے مگراس قامت کے شاعر کیا آج کل موجودہیں۔جواب آپ بھی جانتے ہیں۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ یہ تمام شعراء پاکستان کی ابتدائی نسل کے سرخیل تھے۔یہ تمام لوگ برصغیرمیں پیداہوئے۔
اس کے بعدپاکستانی کہلائے۔کوہاٹ کے پٹھان گھرانے میں پیداہونے والے احمدفرازکا اردوسے کیا تعلق ہوسکتا تھا۔مگرآپ اس کی شاعری پڑھیے،اردوزبان کوبھی فراز پر فخر ہے۔فیض کے متعلق لکھنے والے درجنوں کی تعداد میں ہیں مگرفیض احمدفیض جیساشعرکہنے والاایک بھی موجود نہیں۔ قطعاً یہ عرض نہیں کررہاکہ آج کے شعراء کرام کسی لحاظ سے ادنیٰ ہیں۔مگرحقیقت یہ ہے کہ اس پائے کے شعرکہنے والے ناپید ہیں۔باقی باتیں ہیں۔صرف باتیں۔ جوش ملیح آبادی کے سامنے اردواورفارسی الفاظ ہاتھ باندھ کرکھڑے ہوتے تھے۔کیاآج ایک بھی شاعرجوش ملیح آبادی کے قدکاٹھ کاہے۔جوش تووہ شخص تھاجسے وزیراعظم نہرونے ہرطرح سے ہندوستان میں رہنے کی ترغیب دی تھی۔نہرواس عظیم شاعرکا مرید تھا۔تمام رات جوش صاحب کوسنتا تھا مگریہ مردِعجیب دنیاوی فائدے کوٹھوکرمارکرپاکستان چلاآیا۔یہ عجیب لوگ تھے۔صاحب،بہت عجیب لوگ۔مصطفیٰ زیدی کا کلام پڑھیے۔طالبعلم حیران ہوجاتاہے۔کیسے کیسے ہیرے جیسے شعر،کمال فن،کمال فن!
کسی اورغم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے
غم دل میرے رفیقو،غم رائیگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے،کوئی رازدان نہیں ہے
فقط ایک دل تھااب تک سووہ مہربان نہیں ہے
یہ شعراء کرام کیاتھے۔یہ کیوں ایسے تھے۔یہ اتنے خوبصورت شعرکیسے کہہ ڈالتے تھے۔اس کا جواب توشائد تلاش کیاجاسکے مگرآج اس طرح کے لوگ ناپیدکیوں ہیں، سمجھ اورفہم سے بالاترہے۔
ادیبوں کی طرف آئیے۔سعادت حسن منٹو، عبداللہ حسین،احمدندیم قاسمی،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر، غلام عباس،وزیرآغااوراسی لڑی کے دیگر ادیب اب کہاں غائب ہوچکے ہیں۔اشفاق احمد جیسا صوفی لکھاری ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ منٹو کو پڑھیے۔انسان حیران ہوجاتاہے کہ کس قیامت کا افسانہ نگارتھا۔کیاکمال کہانیاں لکھتاتھا۔صرف اور صرف43برس زندگی پانے والاادیب،کیاکیاکچھ لکھ گیاہے۔
اسکاتمام ادبی کام سات جلدوں پرمحیط ہے۔خیالات کااچھوتاپن بلکہ حقیقت اورزندگی کے عملی امتزاج کابے مثل سنگم،کسی اور ادیب کے قلم سے روا نہیں ہوا۔پڑھنے والاحیران ہوجاتا ہے کہ یہ شخص کس دورمیں بیٹھ کرکتنے آگے والے دورکی باتیں لکھ رہاتھا۔منٹوکے افسانوں میں سے ہندی نام نکال دیجیے۔ویسے ایساکرنا نہیں چاہیے۔مگرصرف اور صرف مثال کے لیے اگران افسانوں میں سے ہندی نام نکال کرآج کے نام ڈال دیے جائیں،توایسے معلوم ہوتاہے کہ منٹوآج کے پاکستان کے متعلق لکھ رہا تھا۔ ہرطرح سے سچی باتیں۔اسے فحش نگارکہنے والے خود بے نام ہوگئے، مگر منٹو آج بھی ادب کی دنیاکا''اپنی طرز کاواحدمینار''ہے۔
اشفاق احمدجیساسادہ اوردل آویزصوفیانہ باتیں کہنے اورلکھنے والااورکوئی دوسرا نہیں ہے۔یہ بھی تقسیم ہندسے پہلے کی پود ہے۔ان کی کتابیں پڑھتے پڑھتے انسان کسی اوردنیامیں سفرکرنا شروع کردیتا ہے۔ان بڑے لوگوں کے متعلق بھرپوراندازسے ایک کالم میں کچھ بھی نہیں لکھاجا سکتا۔ان عظیم لوگوں کے لیے توکتابیں درکار ہیں۔شائدسینکڑوں کتابیں۔مگرسوال وہیں کاوہیں موجود ہے۔برصغیرکی اس نسل کے بعد، پاکستان میں دوسری، تیسری اورآج کی نسل اتنی بنجر کیسے ہوگئی۔بنجرلفظ بھی اس قحط رجال کااحاطہ نہیں کر سکتا۔
موسیقی کی طرف آئیے۔گلوکاروں میں بڑے غلام علی خان،مہدی حسن،غلام علی،نورجہاں،ملکہ پکھراج، فریدہ خانم،امانت علی خان جیسے گائیک اب کیوں موجود نہیں ہیں۔ان جیسی ملکوتی آوازیں اب صرف اورصرف خواب کیوں بن چکی ہیں۔ان میں ہرگائیک اورگائیکہ اپنی مثال آپ ہے۔کسی کا کسی سے کوئی مقابلہ نہیں۔امانت علی خان کی گائی ہوئی غزلیں سنیں۔آوازمیں اتنی شائستگی اور لوچ ہے،کہ ذہن حیرت میں گم ساہوجاتاہے۔مہدی حسن جیسی صدابہارآوازاس درجہ خاص ہے کہ اسے نقل تک نہیں کیاجاسکتا۔
جی چاہتاہے کہ آپ اسے سنتے ہی جائیں۔سُراورلَے پریہ گرفت فقیدالمثال ہے۔ مہدی حسن کی گائی ہوئی غزلوں کوآج کاکوئی بھی گلوکارویسی پختگی سے نہیں گاسکتا،جواس کااصل خاصہ ہے۔ نور جہاں کے متعلق کیا بات کی جائے۔اس کی آوازکی خوبصورتی کے متعلق کیالکھاجائے بلکہ سوال یہ ہے کہ کیونکرلکھاجائے۔نورجہاں کی گائی ہوئی غزلیں اور گانے آج بھی اَمرہیں۔یہی حال فریدہ خانم کا ہے۔کس کس کاذکرکروں۔مگرحیرت انگیزبات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ تقسیم ہند سے پہلے پیداہوئے۔ان میں سے ایک بھی پاکستان کاپیدائشی شہری نہیں تھا۔ ایک بھی ایسا قدآورگلوکارنہیں جو1947کے بعد اس مٹی میں پیداہواہو،جسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔
موسیقاروں کابھی یہی حال ہے۔حال کالفظ شائدصورتحال کی صحیح غمازی نہیں کرتا۔دراصل یہ ایک عجیب سانامعلوم المیہ ہے۔ خواجہ خورشیدانور،غلام احمدچشتی جوباباچشتی کے نام سے جانے جاتے تھے،فیروزنظامی اورسلیم اقبال بے مثال موسیقار تھے۔ان کی ترتیب دی گئی دھنیں سدابہارہیں۔آج ایک بھی ان کے پائے کا موجود نہیں ہے۔آج کل کے موسیقار،انھیں کی پرانی دھنوں کونیارنگ دیکراپنی دکان چمکاتے ہیں۔یہ لوگ بھی برصغیرکے باسی تھے۔ ان کے بعد اس سطح کے موسیقارکیوں نہیں پیدا نہیں ہوئے، یہ اپنی جگہ سنجیدہ بحث ہے۔
کسی بھی شعبہ کوپرکھیے۔آپکوحیرت انگیزیکساں مفلسی نظرآئے گی۔سیاستدانوں میں ذوالفقارعلی بھٹو،نواب زادہ نصراللہ خان،مفتی محمود،جی ایم سید اورولی خان جیسے سیاسی جن نظرآتے تھے۔اس سطح کے سیاستدان اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ دوبارہ گزارش کروںگا۔کسی بھی شعبہ ِزندگی میں اس صلاحیت کے افرادموجود نہیں ہیں جوبرصغیرکی پہلی یا ابتدائی نسل تھی۔شائدآج کل ہرسہولت موجودہے مگر ذہنوں میں وہ روشنی نہیں رہی جوآنے والی نسلوں کے لیے مثال بن سکے۔قحط الرجال کامطلب اب سمجھ آتاہے مگرابتدائی سوال ابھی تک موجودہے۔ہم اتنے بنجر کیوں ہوچکے ہیں؟