’’یہ جو نیوزلیک تھی‘‘
حکومت کے پاس نیوز لیکس کے کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے رکھنے کے مطالبے پر عمل کرنا مشکل مرحلہ ہے
کئی ماہ سے جاری نیوز لیکس کا معاملہ بالآخر طے پا گیا، فوج اور حکومت کی جانب سے کئی گئی پریس کانفرنسوں میں اس کے فریقین نے معاملات طے پانے پر اپنے اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور فوج نے حکومت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کی حمایت کا اعلان کیا ۔ فوجی ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیے کو مسترد کرنے سے متعلق اپنی ٹویٹ کی شکل میں پریس ریلیز بھی واپس لینے کا علان کیاجسے انھوں نے ابلاغ کا تیز ترین ذریعہ قرار دیا ۔
انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت اور فوج کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے نتیجے میں حکومت اور فوج کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا اور ہر بندے نے دو سائیڈ بنا لی تھیں، اب وزرات داخلہ کی جانب سے اس معاملے میں غلط فہمیاں دور کر دی گئی ہیں اور خوش اسلوبی سے تمام معاملات طے پا گئے ہیں، پاکستان کی افواج جمہوریت کی اتنی ہی حمایت کرتی ہیں جتنا کہ ہر ایک پاکستانی اور انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فوج اس ملک کا اہم ترین ادارہ ہے اور وہ ملک کے دوسرے اداروں کے ساتھ ملک کر پاکستان کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
یہ تو تھا وہ بیان جو حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں دور ہونے کے بعد فوجی ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں دیا۔ نیوز لیکس کا معاملہ حکومت کا اپنا پیدا کردہ تھا اور اس کو حل بھی حکومت نے ہی کرنا تھا اور وہ بھی اس خوش اسلوبی سے کہ اس سے نہ تو کسی کی جیت کا تاثر ابھرے اور نہ ہی کسی کی ہار شمار کی جائے۔
اس اہم ترین معاملے میں پہلے پہل تو حکومت نے اس کو اہمیت نہیں دی لیکن جب دباؤ میں اضافہ ہوا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ خاص طور پرحکومتی ایوانوںمیں محسوس کیا گیا جس میں پہلے پہل تو حکومت کو اپنے وزیر اطلاعات پرویز رشید کی قربانی دینی پڑی جس کے بعد حکومتی مشیروں کا خیال تھا کہ اس سے معاملہ ٹل جائے گا لیکن ان کی یہ فوری قر بانی قابل قبول نہ ٹھہری اور اس کی مزید تفتیش کے لیے کہا گیا ۔ قیاس آرائیوں کا ایک طوفان تھا جو اخبارات سے لے کرٹی وی چینلز اور محفلوں میں ہر سو اس کا چرچا رہا اور اپوزیشن نے تو اس سے یہ آس بھی لگا لی تھی کہ شاید مسلم لیگ نواز کی مستقبل کی قیادت بھی اس معاملے کی لپیٹ میں آجائے گی اور ان کی سیات چمک جائے گی لیکن حکومت نے معاملات کو انتہا تک پہنچا کرجس خوبصورتی سے اپنے آپ کو اس مشکل سے نکالا اس کے لیے ان کو دا دینا پڑے گی۔ معاملات کو سدھارنے کے لیے حکومت نے جن بے گناہوں کو بَلی چڑھایا ان میں پرویز رشید کے علاوہ طارق فاطمی اور ایک سرکاری ملازم راؤ تحسین بھی شامل ہیں جنہوں نے اب تک کی اطلاعات کے مطابق صحت جرم سے انکار کر دیا ہے بلکہ فاطمی صاحب نے تو ایک اعلانیہ خط میں اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار دیا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق راؤ تحسین نے اس کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فوج اور حکومت کے درمیان اس تنارع کے حل کے لیے حکومت کے اندرونی و بیرونی دوستوں نے جس طرح حکومت کی مدد کی وہ لائق تحسین ہے اور شاید اس وقت ضرورت بھی اس بات کی تھی کہ ان مشکل حالات میں مزید کوئی نیا محاذ نہ کھولا بلکہ معاملات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کو باہمی رضامندی سے طے کر لیا جائے جس کی ضرورت دونوںفریقین کو ہے۔ اس محاذ سے جو لوگ حکومت کے خاتمے کی راہ کو ہموار سمجھ رہے تھے ان کو تو شاید مایوسی ہوئی ہو گی لیکن پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے اور شاید پہلی بار دونوں طرف سے بات چیت کے ذریعے غلط فہمیوں کو دور کیا گیا جس سے معاملہ کو سدھارنے میں مدد ملی۔یہ ایک اچھی روایت ہے۔
ملکی سیکیورٹی کے اس اہم ترین معاملے کے حل کے بعد اپوزیشن کی جماعتوں نے اس کے بارے میں کمیشن کی جانب سے کی گئی تفتیش سے عوام کو آگاہ کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کو بھی اس معاملے پر اعتماد میں لیا جائے تا کہ وہ بھی اس ملکی سیکیورٹی کے اہم معاملے کے لیے کی جانے والی تحقیقات سے آگاہ ہو سکیں۔ حکومت پر پریشر بڑھانے کے لیے اپوزیشن نے پہلی دفعہ کھل کر محترمہ مریم نواز اور وزیر اعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد کا نام بھی اس معاملے میں لیا ہے ۔ اس بارے میں صورتحال تب ہی واضح ہو پائے گی جب اس کے متعلق کمیشن کی رپورٹ سامنے آئے گی لیکن ملکی سیکیورٹی کے حوالے سے لیک کی جانے والی خبر کی ذمے داری تو حکومت نے اس وقت ہی قبول کر لی تھی جب پرویز رشید کو وزارت سے الگ کیا گیا تھا لیکن بعد میں دو اور لوگوں کی قربانی اور ان دونوں کی جانب سے اس میں ملوث ہونے سے انکار نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے ۔
جس پر اپوزیشن نے بجا طور پر تحقیقات کو عوام کے سامنے رکھنے کا مطالبہ کر دیا ہے، اب جب کہ حکومت اور فوج کے درمیان اس معاملے پر اتفاقِ رائے طے پا چکا ہے تو حکومت کے پاس نیوز لیکس کے کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے رکھنے کے مطالبے پر عمل کرنا مشکل مرحلہ ہے اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اصل حقائق وہی ہیںجن کی بنا پر تین لوگوں کی قربانی دی گئی ہے توفوری طور پر اس رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کر دینا چاہیے کیونکہ اس ملک میں کبھی کسی کمیشن کی رپورٹ کو عوام تک نہیں پہنچایا گیا اور راز راز ہی رہے ہیں، اب وقت ہے کہ ان رازوں پر مزید پردہ ڈالے بغیر حکومت کو اپنی ساکھ کو بچا کر عوام کے سامنے سرخرو ہو جانا چاہیے جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور اس سے حکومت کو اپنی پوزیشن مزید واضح کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت اور فوج کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے نتیجے میں حکومت اور فوج کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا اور ہر بندے نے دو سائیڈ بنا لی تھیں، اب وزرات داخلہ کی جانب سے اس معاملے میں غلط فہمیاں دور کر دی گئی ہیں اور خوش اسلوبی سے تمام معاملات طے پا گئے ہیں، پاکستان کی افواج جمہوریت کی اتنی ہی حمایت کرتی ہیں جتنا کہ ہر ایک پاکستانی اور انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ فوج اس ملک کا اہم ترین ادارہ ہے اور وہ ملک کے دوسرے اداروں کے ساتھ ملک کر پاکستان کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
یہ تو تھا وہ بیان جو حکومت اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں دور ہونے کے بعد فوجی ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں دیا۔ نیوز لیکس کا معاملہ حکومت کا اپنا پیدا کردہ تھا اور اس کو حل بھی حکومت نے ہی کرنا تھا اور وہ بھی اس خوش اسلوبی سے کہ اس سے نہ تو کسی کی جیت کا تاثر ابھرے اور نہ ہی کسی کی ہار شمار کی جائے۔
اس اہم ترین معاملے میں پہلے پہل تو حکومت نے اس کو اہمیت نہیں دی لیکن جب دباؤ میں اضافہ ہوا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ خاص طور پرحکومتی ایوانوںمیں محسوس کیا گیا جس میں پہلے پہل تو حکومت کو اپنے وزیر اطلاعات پرویز رشید کی قربانی دینی پڑی جس کے بعد حکومتی مشیروں کا خیال تھا کہ اس سے معاملہ ٹل جائے گا لیکن ان کی یہ فوری قر بانی قابل قبول نہ ٹھہری اور اس کی مزید تفتیش کے لیے کہا گیا ۔ قیاس آرائیوں کا ایک طوفان تھا جو اخبارات سے لے کرٹی وی چینلز اور محفلوں میں ہر سو اس کا چرچا رہا اور اپوزیشن نے تو اس سے یہ آس بھی لگا لی تھی کہ شاید مسلم لیگ نواز کی مستقبل کی قیادت بھی اس معاملے کی لپیٹ میں آجائے گی اور ان کی سیات چمک جائے گی لیکن حکومت نے معاملات کو انتہا تک پہنچا کرجس خوبصورتی سے اپنے آپ کو اس مشکل سے نکالا اس کے لیے ان کو دا دینا پڑے گی۔ معاملات کو سدھارنے کے لیے حکومت نے جن بے گناہوں کو بَلی چڑھایا ان میں پرویز رشید کے علاوہ طارق فاطمی اور ایک سرکاری ملازم راؤ تحسین بھی شامل ہیں جنہوں نے اب تک کی اطلاعات کے مطابق صحت جرم سے انکار کر دیا ہے بلکہ فاطمی صاحب نے تو ایک اعلانیہ خط میں اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار دیا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق راؤ تحسین نے اس کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فوج اور حکومت کے درمیان اس تنارع کے حل کے لیے حکومت کے اندرونی و بیرونی دوستوں نے جس طرح حکومت کی مدد کی وہ لائق تحسین ہے اور شاید اس وقت ضرورت بھی اس بات کی تھی کہ ان مشکل حالات میں مزید کوئی نیا محاذ نہ کھولا بلکہ معاملات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس کو باہمی رضامندی سے طے کر لیا جائے جس کی ضرورت دونوںفریقین کو ہے۔ اس محاذ سے جو لوگ حکومت کے خاتمے کی راہ کو ہموار سمجھ رہے تھے ان کو تو شاید مایوسی ہوئی ہو گی لیکن پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں پاکستان کی جیت ہوئی ہے اور شاید پہلی بار دونوں طرف سے بات چیت کے ذریعے غلط فہمیوں کو دور کیا گیا جس سے معاملہ کو سدھارنے میں مدد ملی۔یہ ایک اچھی روایت ہے۔
ملکی سیکیورٹی کے اس اہم ترین معاملے کے حل کے بعد اپوزیشن کی جماعتوں نے اس کے بارے میں کمیشن کی جانب سے کی گئی تفتیش سے عوام کو آگاہ کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ عوام کو بھی اس معاملے پر اعتماد میں لیا جائے تا کہ وہ بھی اس ملکی سیکیورٹی کے اہم معاملے کے لیے کی جانے والی تحقیقات سے آگاہ ہو سکیں۔ حکومت پر پریشر بڑھانے کے لیے اپوزیشن نے پہلی دفعہ کھل کر محترمہ مریم نواز اور وزیر اعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد کا نام بھی اس معاملے میں لیا ہے ۔ اس بارے میں صورتحال تب ہی واضح ہو پائے گی جب اس کے متعلق کمیشن کی رپورٹ سامنے آئے گی لیکن ملکی سیکیورٹی کے حوالے سے لیک کی جانے والی خبر کی ذمے داری تو حکومت نے اس وقت ہی قبول کر لی تھی جب پرویز رشید کو وزارت سے الگ کیا گیا تھا لیکن بعد میں دو اور لوگوں کی قربانی اور ان دونوں کی جانب سے اس میں ملوث ہونے سے انکار نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے ۔
جس پر اپوزیشن نے بجا طور پر تحقیقات کو عوام کے سامنے رکھنے کا مطالبہ کر دیا ہے، اب جب کہ حکومت اور فوج کے درمیان اس معاملے پر اتفاقِ رائے طے پا چکا ہے تو حکومت کے پاس نیوز لیکس کے کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے رکھنے کے مطالبے پر عمل کرنا مشکل مرحلہ ہے اور اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اصل حقائق وہی ہیںجن کی بنا پر تین لوگوں کی قربانی دی گئی ہے توفوری طور پر اس رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کر دینا چاہیے کیونکہ اس ملک میں کبھی کسی کمیشن کی رپورٹ کو عوام تک نہیں پہنچایا گیا اور راز راز ہی رہے ہیں، اب وقت ہے کہ ان رازوں پر مزید پردہ ڈالے بغیر حکومت کو اپنی ساکھ کو بچا کر عوام کے سامنے سرخرو ہو جانا چاہیے جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور اس سے حکومت کو اپنی پوزیشن مزید واضح کرنے میں بھی مدد ملے گی۔