جمہوریت کے نام پر۔۔۔
اے ڈی خواجہ جیسے دیانت دار افسر کے لیے بھی سندھ میں سیاسی دباؤ کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں ہے
MANSEHRA:
اے ڈی خواجہ جیسے دیانت دار افسر کے لیے بھی سندھ میں سیاسی دباؤ کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے سندھ کی حکمراں جماعت کے بعض ارکان کے احکامات کو نظر انداز کیا، وہ ارکان صوبائی پولیس کے سربراہ کی تابعداری کے خواہاں تھے۔سندھ کابینہ کی جانب سے اے ڈی خواجہ کی برطرفی کو سندھ ہائی کورٹ نے تاحال روک رکھا ہے۔
پاکستان کے دیگر اہل اقتدار کی طرح آصف زرداری بھی فوج کے خلاف بے جاتنقید پر جنرل قمر باجوہ کے ردّعمل کا جائزہ لے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ ان کا ''جمہوریت کے تحفظ'' پر یقین کتنا پختہ ہے؟ سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے ریاستی اداروں اور اختیارات کا استعمال پاکستان میں طرز حکمرانی کا جز ہے۔ ''جمہوریت'' کی آڑ میں مخصوص طبقہ جو اقلیت میں ہونے کے باوجود اس ملک کے عوام پر اپنی مرضی نافذ کرتا ہے اور ریاستی اداروں کا جبری استعمال کرکے جمہور کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کررہا ہے۔
جب قانون کے نفاذ کے ذمے دار خود اس سے بالاتر ہوجائیں تو ''قانون کی حکمرانی'' کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ آئین اس مسئلے کا کیا حل تجویز کرتا ہے ، ماسوائے ایسا کوئی اقدام ہو کہ پاناما گیٹ پر ایک جے آئی ٹی بنادی جائے، وہ بھی ایسی صورت حال میں جب سپریم کورٹ خود کہہ چکی ہو کہ متعلقہ ادارے حکمرانوں کا احتساب کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ ''نیوز لیکس'' کے معاملے سے عیاں ہوگیا کہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر فوج کو بھی پیچھے ہٹانا پڑے لیکن اس اقدام کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا، بہر حال یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ معاملہ ختم ہوچکا!
جے آئی ٹی جرائم کی تفتیش کرتی ہے، اعترافی بیانات کی ویڈیوز نشر(اور تفصیلات شایع) ہونی چاہییں، تاکہ سبھی کو معلوم ہو کہ حقائق کیا ہیں۔ عدالتی نظام کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ثبوت اور شواہد سے متعلقہ قوانین کو مؤثر بنایا جائے اور جے آئی ٹی انصاف کے لیے عدالتی نظام کا کارگر دست وبازو بنے۔
دستور پاکستان کو کسی کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننے دیا جاسکتا، کرپشن نے اداروں کو مفلوج بنا رکھا ہے۔ عوام کی نظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اعتبار اس وقت تک بحال نہیں کیا جاسکتا جب تک ان اداروں کو دیے گئے اختیارات، ان پر صرف ہونے والے وسائل اور انصاف کی فراہمی کے مابین مطابقت پیدا نہیں ہوتی۔ ایک دوست نے فرانسیسی معیشت داں فریڈرک باستیا کا قول بھیجا:''جب لوٹ مار سماج کے کسی گروہ کا طرز حیات بن جائے تو رفتہ رفتہ اس گروہ میں شامل افراد ایک ایسا نظامِ قانون تشکیل دیتے ہیں جو انھیں بااختیار بناتا ہے اور ایسی اخلاقیات ترتیب دیتے ہیں جو انھیں معاشرے کی نظروں میں قابل تعظیم بناتی ہے۔''
وکی پیڈیا کے مطابق '' جب کوئی قانون کے لفظوں کے بجائے اس کی روح کی پاس داری کرے تو دراصل وہ اسے بنانے والوں کے مقاصد کے مطابق کام کررہا ہوتا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ لکھے ہوئے لفظوں کا بھی تابع ہو۔'' قانون کی روح پر عمل کرنے کے بجائے اس کی ''لفظی'' پاس داری عموماً مجرموں اور دہشت گردوں کو تکنیکی بنیادوں پر بریت کا راستہ فراہم کرتی ہے۔
ہمارے کمزور ''قانون شہادت'' کی وجہ سے کئی ملزمان اپنے مجرمانہ افعال کی شہرت کے باوجود احتساب سے بچ نکلتے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر عہدے حاصل کرنے والے اپنے ''محسنوں'' کے زیر بار ہوتے ہیں، ان سے بنیادی اخلاقی تقاضوں کی بجا آوری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تو فرض شناسی، ریاست اور اس کے شہریوں سے وفا داری کا تو ذکر ہی کیا۔ الیکٹرانک میڈیا جب کسی اشارے پر بدعنوانی کو زیر بحث لاتا ہے تو جانتے بوجھتے قانون کی مسخ شدہ تشریحات اور حقائق پیش کیے جاتے ہیں، جس سے صورت حال مزید دھندلاجاتی ہے۔
جاگیردارانہ سماج میں اکثر اہلیت ہی سب سے بڑی نااہلی تصور کی جاتی ہے۔ افواج پاکستان کو سول اداروں میں تعینات افسران کے سلسلے میں ایسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
نچلی سطح تک عوامی شمولیت جمہوریت کی بنیادی شرط ہے۔ انتہائی ناقص انتخابی نظام جاگیرداری کی جڑیں مضبوط کرتا ہے، پاکستان میں جس طرح اس کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ جاگیردار مقامی حکومتوں کو اپنی سلطنت میں دخل انداز نہیں ہونے دیتے، اگر ان کا قیام ہو بھی جائے تو انھیں با اختیار نہیں ہونے دیتے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو یہ بھی سوچناچاہیے کہ شہریوں کو مسلسل اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے۔
سابق فوجی ادوار میں اقربا پروری کے رجحان پر تنقید بجا مگر فوجی فرماں رواؤں کی خامیاں نااہل افراد کو ''جمہوریت'' کے نام پر حقِ حکم رانی دینے کے منافقانہ رویے کا جواز نہیں بن سکتیں۔ یہ عناصر اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے من مانی''قانون کی حکمرانی'' کے لیے ریاستی اداروں اور وسائل کے استعمال کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔
پاناما گیٹ مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے عوامی منصب پر فائز مقدمے کے ایک فریق پر بارِ ثبوت رکھا ہے، یہ ذمے داری استغاثہ کے بجائے خود ملزم پر عاید کردی گئی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار حضرت عمرؓ مثال دیتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ ''حکمران کا احتساب دوسروں سے مختلف معاملہ ہ ہے۔'' مناصب پر فائز افراد کی دیانت اور امانت داری شک و شبہ سے بالاتر ہونی چاہیے۔ انھیں کسی بھی ایسے کاروبار یا مالی سرگرمی سے دور رہنا چاہے جس کا سرکاری شعبے سے کوئی بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ہو۔ ریاستی اداروں کا غلط مقاصد کے لیے استعمال قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نظرانداز۔ ''نظریۂ ضرورت'' کے ایک اور گھاؤ سے قوم کو بچانے اور احتساب کے لیے سپریم کورٹ ہی آخری امید ہے۔
گذشتہ دنوں رضا ربّانی نے ''اصولوں'' کی بنیاد پر سینیٹ آنے سے انکار کردیا۔ امید ہے کہ عذیر بلوچ کے اعترافی بیان میں سیاست اور جُرم کے جن رشتوں کی نشان دہی کی گئی، جناب چیئرمین سینیٹ اس پر بھی ایسی ہی باضمیری کا ثبوت دیں گے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ وہ سیاسی منافقین ہیں جو جمہوریت کے بہروپ میں کیے گئے اپنے ساتھیوں کے ہر جرم پر آنکھیں، کان اور زبان بند کرلیتے ہیں۔
اے ڈی خواجہ جیسے دیانت دار افسر کے لیے بھی سندھ میں سیاسی دباؤ کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے سندھ کی حکمراں جماعت کے بعض ارکان کے احکامات کو نظر انداز کیا، وہ ارکان صوبائی پولیس کے سربراہ کی تابعداری کے خواہاں تھے۔سندھ کابینہ کی جانب سے اے ڈی خواجہ کی برطرفی کو سندھ ہائی کورٹ نے تاحال روک رکھا ہے۔
پاکستان کے دیگر اہل اقتدار کی طرح آصف زرداری بھی فوج کے خلاف بے جاتنقید پر جنرل قمر باجوہ کے ردّعمل کا جائزہ لے رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ ان کا ''جمہوریت کے تحفظ'' پر یقین کتنا پختہ ہے؟ سیاسی اور ذاتی مفادات کے لیے ریاستی اداروں اور اختیارات کا استعمال پاکستان میں طرز حکمرانی کا جز ہے۔ ''جمہوریت'' کی آڑ میں مخصوص طبقہ جو اقلیت میں ہونے کے باوجود اس ملک کے عوام پر اپنی مرضی نافذ کرتا ہے اور ریاستی اداروں کا جبری استعمال کرکے جمہور کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کررہا ہے۔
جب قانون کے نفاذ کے ذمے دار خود اس سے بالاتر ہوجائیں تو ''قانون کی حکمرانی'' کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ آئین اس مسئلے کا کیا حل تجویز کرتا ہے ، ماسوائے ایسا کوئی اقدام ہو کہ پاناما گیٹ پر ایک جے آئی ٹی بنادی جائے، وہ بھی ایسی صورت حال میں جب سپریم کورٹ خود کہہ چکی ہو کہ متعلقہ ادارے حکمرانوں کا احتساب کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ ''نیوز لیکس'' کے معاملے سے عیاں ہوگیا کہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر فوج کو بھی پیچھے ہٹانا پڑے لیکن اس اقدام کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا، بہر حال یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ معاملہ ختم ہوچکا!
جے آئی ٹی جرائم کی تفتیش کرتی ہے، اعترافی بیانات کی ویڈیوز نشر(اور تفصیلات شایع) ہونی چاہییں، تاکہ سبھی کو معلوم ہو کہ حقائق کیا ہیں۔ عدالتی نظام کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ ثبوت اور شواہد سے متعلقہ قوانین کو مؤثر بنایا جائے اور جے آئی ٹی انصاف کے لیے عدالتی نظام کا کارگر دست وبازو بنے۔
دستور پاکستان کو کسی کے ہاتھوں کا کھلونا نہیں بننے دیا جاسکتا، کرپشن نے اداروں کو مفلوج بنا رکھا ہے۔ عوام کی نظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا اعتبار اس وقت تک بحال نہیں کیا جاسکتا جب تک ان اداروں کو دیے گئے اختیارات، ان پر صرف ہونے والے وسائل اور انصاف کی فراہمی کے مابین مطابقت پیدا نہیں ہوتی۔ ایک دوست نے فرانسیسی معیشت داں فریڈرک باستیا کا قول بھیجا:''جب لوٹ مار سماج کے کسی گروہ کا طرز حیات بن جائے تو رفتہ رفتہ اس گروہ میں شامل افراد ایک ایسا نظامِ قانون تشکیل دیتے ہیں جو انھیں بااختیار بناتا ہے اور ایسی اخلاقیات ترتیب دیتے ہیں جو انھیں معاشرے کی نظروں میں قابل تعظیم بناتی ہے۔''
وکی پیڈیا کے مطابق '' جب کوئی قانون کے لفظوں کے بجائے اس کی روح کی پاس داری کرے تو دراصل وہ اسے بنانے والوں کے مقاصد کے مطابق کام کررہا ہوتا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ لکھے ہوئے لفظوں کا بھی تابع ہو۔'' قانون کی روح پر عمل کرنے کے بجائے اس کی ''لفظی'' پاس داری عموماً مجرموں اور دہشت گردوں کو تکنیکی بنیادوں پر بریت کا راستہ فراہم کرتی ہے۔
ہمارے کمزور ''قانون شہادت'' کی وجہ سے کئی ملزمان اپنے مجرمانہ افعال کی شہرت کے باوجود احتساب سے بچ نکلتے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر عہدے حاصل کرنے والے اپنے ''محسنوں'' کے زیر بار ہوتے ہیں، ان سے بنیادی اخلاقی تقاضوں کی بجا آوری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تو فرض شناسی، ریاست اور اس کے شہریوں سے وفا داری کا تو ذکر ہی کیا۔ الیکٹرانک میڈیا جب کسی اشارے پر بدعنوانی کو زیر بحث لاتا ہے تو جانتے بوجھتے قانون کی مسخ شدہ تشریحات اور حقائق پیش کیے جاتے ہیں، جس سے صورت حال مزید دھندلاجاتی ہے۔
جاگیردارانہ سماج میں اکثر اہلیت ہی سب سے بڑی نااہلی تصور کی جاتی ہے۔ افواج پاکستان کو سول اداروں میں تعینات افسران کے سلسلے میں ایسے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
نچلی سطح تک عوامی شمولیت جمہوریت کی بنیادی شرط ہے۔ انتہائی ناقص انتخابی نظام جاگیرداری کی جڑیں مضبوط کرتا ہے، پاکستان میں جس طرح اس کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ جاگیردار مقامی حکومتوں کو اپنی سلطنت میں دخل انداز نہیں ہونے دیتے، اگر ان کا قیام ہو بھی جائے تو انھیں با اختیار نہیں ہونے دیتے۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو یہ بھی سوچناچاہیے کہ شہریوں کو مسلسل اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے۔
سابق فوجی ادوار میں اقربا پروری کے رجحان پر تنقید بجا مگر فوجی فرماں رواؤں کی خامیاں نااہل افراد کو ''جمہوریت'' کے نام پر حقِ حکم رانی دینے کے منافقانہ رویے کا جواز نہیں بن سکتیں۔ یہ عناصر اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لیے من مانی''قانون کی حکمرانی'' کے لیے ریاستی اداروں اور وسائل کے استعمال کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔
پاناما گیٹ مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے عوامی منصب پر فائز مقدمے کے ایک فریق پر بارِ ثبوت رکھا ہے، یہ ذمے داری استغاثہ کے بجائے خود ملزم پر عاید کردی گئی ہے۔ عزت مآب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار حضرت عمرؓ مثال دیتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ ''حکمران کا احتساب دوسروں سے مختلف معاملہ ہ ہے۔'' مناصب پر فائز افراد کی دیانت اور امانت داری شک و شبہ سے بالاتر ہونی چاہیے۔ انھیں کسی بھی ایسے کاروبار یا مالی سرگرمی سے دور رہنا چاہے جس کا سرکاری شعبے سے کوئی بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ہو۔ ریاستی اداروں کا غلط مقاصد کے لیے استعمال قبول کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نظرانداز۔ ''نظریۂ ضرورت'' کے ایک اور گھاؤ سے قوم کو بچانے اور احتساب کے لیے سپریم کورٹ ہی آخری امید ہے۔
گذشتہ دنوں رضا ربّانی نے ''اصولوں'' کی بنیاد پر سینیٹ آنے سے انکار کردیا۔ امید ہے کہ عذیر بلوچ کے اعترافی بیان میں سیاست اور جُرم کے جن رشتوں کی نشان دہی کی گئی، جناب چیئرمین سینیٹ اس پر بھی ایسی ہی باضمیری کا ثبوت دیں گے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ وہ سیاسی منافقین ہیں جو جمہوریت کے بہروپ میں کیے گئے اپنے ساتھیوں کے ہر جرم پر آنکھیں، کان اور زبان بند کرلیتے ہیں۔