انسانیت کا بلند ترین اعزاز ’ماں‘

سوشل میڈیا پر ماں کی محبت کی پوسٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے ایک بار ضرور سوچئے کہ کہیں آپ کی ماں تو آپ کی راہ نہیں تک رہی؟


رضوانہ قائد May 14, 2017
ایک ماں کی اولاد کے لئے دوڑ کو ’’سعی‘‘ کی شکل میں حج جیسی عظیم عبادت کا رکن بناکر تا قیامت امر کردیا گیا۔ فوٹو: فائل

ایک کمزور ہستی جب اِس اعزاز سے نوازی جاتی ہے تو اول تا آخر، وہ اُسی کی نگہبانی میں غرق رہتی ہے۔ دنیا کا واحد اعزاز ہے کہ جس کی تابناکی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماند پڑنے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی ہے۔ اپنے وجود میں موجود ننھی سی جان کی ابتداء کے ساتھ ہی زندگی کے پچھلے معمولات جس طرح یکسر بدل جاتے ہیں، اُس کا احساس ماں ہی کرسکتی ہے۔ اِس تبدیلی کے ساتھ زندگی کے دیگر معمولات کا نبھانا مستقبل کی خوشگوار اُمیدوں کے سہارے پر موقوف رہتا ہے۔

پھر اِس ننھے وجود کی آمد اور پرورش کا مرحلہ ماں کے لئے مزید نئی تکالیف، مشکلات اور قربانیوں کا تقاضا لئے آتا ہے۔ پہلے کا میسر کچھ آرام کا وقت اب مُٹھی کی ریت کی مانند ہوجاتا ہے۔ ننھی جان کے سامنے اپنی بقاء کا آسرا ہے تو بس یہی ماں کا وجود۔ اِس ننھی سی جان کے ساتھ بلاتعطل مصروفیات، نہ دن کے چین کی فکر، نہ رات کے آرام کا خیال، بچے کی ہر آواز، ہر آہٹ، ہر ضرورت پر بار بار دیوانہ وار لپک کر دوڑ پڑنا اِسے انفرادی مقام عطا کرتا ہے۔ اولاد کی آواز پر ماں کی دوڑ کا حُسن و دل ربائی اللہ تعالیٰ کو بھی اتنی پسند آئی کہ ایک ماں کی اولاد کے لئے دوڑ کو ''سعی'' کی شکل میں حج جیسی عظیم عبادت کا رکن بناکر تا قیامت امر کردیا گیا۔ کتنے ہی اللہ کے بندے اِس ''سعی'' کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

پھر اِس ذمہ داری کی دوڑ دھوپ میں کہیں کوئی وقفہ نہیں۔ گود اور دودھ چھوٹنے کی عمر آتی ہے تو ماں آسانی کی کچھ نئی اُمید باندھتی ہے مگر اُمید کے اُس پار بھی اِس کی ذمہ داری مزید کچھ بڑھے ہوئے مطالبات لئے منتظر ہے۔ جب ننھی جان پاؤں پاؤں چلنا شروع کرتی ہے تو اُس کی دنیا کو تسخیر کرنے کی مہم ماں کی دوڑ کو نئے مرحلے میں داخل کردیتی ہے۔ بھاگ بھاگ کر بچے کو کبھی اونچائیوں پر چڑھنے سے روکنا، کبھی یکلخت نیچے گرنے پر سنبھالنے کیلئے دوڑنا، کبھی نقصان پہنچانے والی چیزوں کو لپک کر اُس ننھے ہاتھوں سے لے لینا۔ کیا اولاد کو اپنی زندگی کی بھاگ دوڑ میں ماں کی یہ حسین دوڑ یاد رہتی ہے؟

ماں کی اُمید پھر بھی قائم ہے مگر آسودگی کی اُمید کی دوسری جانب اُس کی سعی کے نئے انداز منتظر ہیں۔ ننھی جان کی پڑھائی کی عمر، ذمہ داری کا دائرہ کچھ وسیع ہوتا ہے تو ہمتیں بھی مزید درکار ہوتی ہیں۔ اچھے اسکول کا انتخاب، بھاری فیسیں، بھاری بستہ، اسکول روانگی، آزاد معمولات کی پابندی گویا دوڑ کا بامشقت دور شروع ہوگیا۔ کیا اولاد کو اپنی مشقتوں کے دوران اِس خوبصورت مشقت کا کوئی پل یاد رہتا ہے؟

اولاد پڑھ لکھ کر جوان ہوتی ہے تو اُس کی میدانِ عمل میں کامیابی کے لئے ماں کی جدوجہد پھر اہم موڑ پر آتی ہے۔ اولاد کے گھر بسانے کی فکر میں وہ ایک نئے انداز میں کمر کس لیتی ہے۔ معاشرتی چلن کو نظر انداز کیا جائے تو وہ بیٹے کی شادی کی بھاگ دوڑ سے تو کسی حد تک محفوظ ہوسکتی ہے مگر بیٹی کی شادی کسی صبر آزما جسمانی و ذہنی مہم سے کم نہیں۔

ماہ و سال کی گردشوں کے ساتھ اولاد کو اپنے قدموں پر کھڑا کرتے کرتے خود اُس کے قدم کمزوری کی جانب بڑھتے ہیں۔ اِس کمزوری و آہستگی کا ساتھ جسم کے اعضاء بھی دینا شروع کردیتے ہیں۔ سفرِ حیات کے اختتام کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی اِس حساس ترین مرحلے کا آغاز ہے کہ جس کی کامیابی، ناکامی پر اولاد کی دنیا و آخرت کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ منحصر ہے۔ بھاگ دوڑ کر ادا کئے جانے والے فرائض کی واپسی والدین کے حقوق کی ادائیگی کی صورت میں اولاد کے سامنے ہے۔

حقوق بھی کیسے کہ جن کے خیال سے ہی انسان لرز جائے۔ 'ماں' جیسا اعزاز ویسا ہی اکرام، اِس اکرام کا آغاز بھی اُس کا خالق اپنی جانب سے ہی کرتا ہے۔ اُس نے والدین کے حقوق میں بھی ماں کے حقوق کو باپ کے حقوق سے تین گنا زیادہ قرار دیا۔ اُن کی فرماںبرداری کی صورت میں جنت کی خوشخبری اور نافرمانی کی صورت میں جہنم کی وعید۔
'اللہ تعالیٰ نے ماؤں کی نافرمانی تم پر حرام کردی ہے'

(صحیح بخاری، کتاب الادب، حقوق الوالدین من الکبائر)
'ہر گناہ کے بدلے میں عذاب اور ہر جرم پر گرفت کو مؤخر کیا جاسکتا ہے لیکن ماں باپ کی نافرمانی کا گناہ ایسا سخت ہے کہ اِس کا مواخذہ مرنے سے قبل بھی کیا جاتا ہے'

(سنن ابو داؤد، کتاب الادب)

یعنی ماں کی نافرمانی کی سزا کا حصہ دنیا میں بھی لازم ہے اور سب سے زیادہ لطیف، حساس اور ہیبت ناک حکم کہ،
''انہیں نہ جھڑکو اور اُف تک نہ کہو''

کیا آپ اِس 'اُف' کی حقیقت جانتے ہیں؟ وہ کم سے کم تکلیف جو اولاد کی طرف سے بڑھاپے میں ماں یا باپ کو پہنچے۔ اِس اُف کی گہرائی اور باریک بینی کا اندازہ صرف دردمند دل رکھنے والی اولاد ہی کرسکتی ہے۔ معلوم ہے اِس احساس کی کب کب ضرورت ہوتی ہے؟

  • جب راہ چلتے آپ کے لئے دوڑنے والے قدم کمزوری کے باعث آپ کی تیزی کا ساتھ نہ دے سکیں۔

  • جب آپ کے منہ میں گھنٹوں صبر و پیار سے نوالے ڈالنے والے ہاتھ اپنے منہ تک جانے کے لئے تھرتھرائیں۔

  • جب اُن لرزتے ہاتھوں سے آپ کے لائے گئے برانڈڈ قیمتی سوٹ پر کھانا چھلک جائے۔

  • جب آپ کو بھاگ بھاگ کر پکڑ پکڑ کر نہلانے والے ہاتھ خود اپنے غسل پر قادر نہ ہوں اور آپ کو اُن کے پاس سے بُو آئے۔

  • جب آپ کی توتلی زبان سے گھنٹوں باتیں سننے والی زبان لڑکھڑاہٹ اور بھول کا شکار ہو اور آپ جلدی میں ہوں۔

  • جب زبان کے ذائقے ساتھ چھوڑنے لگیں اور آپ کے قیمتی کھانے پسند نہ آئیں۔

  • جب ڈھیروں دوائیں نگلنا مشکل ہوجائے اور اُن کی بیماریاں اور مہنگے علاج آپ کو گراں گزریں۔

  • اور جب اُن کی آنکھیں آپ کو دیکھنے کو ترسیں مگر آپ کا وقت زیادہ قیمتی ہو اور ایسے ہی دیگر بے شمار مواقع جہاں اُف کا احساس ہر دم مجسم موجود ہے مگر کہاں ہیں دیکھنے والی نگاہیں؟ کہاں ہیں محسوس کرنے والے دل؟


ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے رب کو اپنے بندوں کی بھول کا علم بھی خوب ہے۔ اِسی لئے قرآن میں اُن کے لئے دعا کرنے کا حکم ہے۔
'کہو، میرے رب اُن پر رحم فرما جس طرح اُنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا'

(سورۂ بنی اسرائیل)

اُن کے لئے دعا، نماز کا حصہ بن کر زندگی اور بعد از مرگ اولاد کی جانب سے دعائے مغفرت کا مستقل ذریعہ بھی ہے۔ آج گلوبلائزیشن کا حصہ بن کر ایک دن کا 'مدرزڈے' مناتے ہوئے سوشل میڈیا پر ماں کی محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار ضرور سوچئے گا کہ
کہیں آپ کی ماں تو ساتھ والے کمرے میں آپ کا انتظار نہیں کررہی؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں