داعش کو مشترکہ شکست دینے پر اتفاق
پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے خدشات پہلے سے زیادہ سنگین ہیں
پاکستان افغانستان اور اتحادی افواج کے مندوبین کا ٹو اسٹار سطح کا سیکیورٹی اجلاس جمعہ کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں ہوا، افغان وفد نے ڈی جی ایم او میجر جنرل حبیب حصاری، اتحادی افواج (آر ایس ایم) کے وفد نے ڈپٹی چیف آف اسٹاف (آپریشنز) میجر جنرل کراسٹو فر ہاس کی قیادت میں شرکت کی جب کہ پاکستان کی نمائندگی ڈی جی ایم او میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کی، آئی ایس پی آر کے مطابق سہ فریقی اجلاس کے دوران شرکاء نے اپنے اپنے علاقوں میں داعش کو اجتماعی کوششوں کے ذریعے شکست دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
ایک معاصر انگریزی اخبار کے مطابق اگرچہ اجلاس کب ہوا اس کا اعلامیہ میں کوئی ذکر نہیں تاہم باور کیا جاتا ہے کہ اجلاس جمعرات کو منعقد ہوا جس میں چمن باڈر پر ہونیوالے ہلاکت خیز واقعات کے تناظر میں خطے کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اس میں داعش و طالبان کے سیاق و سباق میں پاک افغان تعلقات میں تیزی سے آنیوالی بد اعتمادی کے بعد اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ افغانستان سمیت خطے کو اسلحہ کی دوڑ، کشیدگی، دہشتگردی سے پاک جب کہ سرحدوں پر ہونیوالے تناؤ کی شدت کو کم کیا جائے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ سہ فریقی اجلاس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے ٹو اسٹار دو طرفہ اجلاس بھی ہوا جس میں دونوں اطراف نے فوج سے فوج کے تعاون اور روابط پر تبادلہ خیال کیا، اجلاس میں سانحہ چمن، بارڈر کنٹرول، بارڈر مینجمنٹ کے علاوہ سرحد پار فائرنگ کی روک تھام پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، فریقین نے باہمی احترام، اعتماد اور تعاون کی فضا کو فروغ دینے کے لیے کمانڈ اینڈ اسٹاف چینلز کے ذریعے مختلف سطح پر دو طرفہ روابط بڑھانے پر اتفاق کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاک افغان عسکری حکام کو فیس ٹو فیس لانے کا اہم اقدام امریکی قیادت مین نیٹو کے ریزولیوٹ سپورٹ مشن(آر ایس ایم) کا کارنامہ ہے جس نے دوطرفہ اہمیت کی اس میٹنگ میں خود بھی شرکت کی تاکہ خطرات کا سدباب کرنے میں سہ فریقی قوت کا استعمال امن وسلامتی کے اہداف تک رسائی میں مدد دے۔
بلاشبہ جن قوتوں کا مفاد خطے کے امن اور سلامتی سمیت اقتصادیات اور سماجی زندگی کو تباہیوں سے دوچار کرنا ہے ان کے مذموم ایجنڈہ کو ناکام بنانے کے لیے اشتراک عمل عالمی سطح پر ہو یا مقامی اور علاقائی طاقتوں کو آمنے سامنے بٹھا کر ایشوز کا کوئی منصفانہ اور شفاف حل نکالا جائے ، اس لیے ہر قیمت پر خطے کو جنگ سے بچانے کے لیے ٹھوس حکمت عملی اور عالمی و علاقائی مفاہمت ،مصالحت اور تعاون ناگزیر ہے۔
میڈیا کے مطابق افغانستان اور پاکستان کے درمیان دیورنڈ لائن کو افغانستان نے ہمیشہ وجہ تنازع بنایا ہے اور گزشتہ دنوں اس مسئلہ پر چمن میںخونریزی بھی ہوئی تاہم اب احساس زیاں کے باعث متحارب قوتوں کو بے اثر کیا جائے جو علاقائی امن و استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، لہٰذا یہ صائب تجویز دی جاسکتی ہے کہ سہ فریقی اجلاس کو اس سمت بھی اپنی مشاورت جاری رکھنے چاہیے کہ داعش نے افغانستان میں قدم جمانے کی کوششیں تیز کی ہیں، افغان داعش تصادم کی خبریں آئے دن اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ شام کی صورتحال ڈرامائی موڑ کے قریب ہے، اور امریکا ، چین ، روس و دیگر طاقتوں کو اندیشہ ہے کہ کہیں دنیا اجتماعی عاقبت نااندیشی سے کسی ہولناک جنگ کے شعلوں کا نوالہ نہ بن جائے۔
بہر حال یہ خوش آئند اطلاع ہے کہ آر ایس مشن کے حکام نے پاک افغان رہنماؤں تک اپنے عسکری حکام کے ذریعہ یہ صائب پیغام پہنچانے کا تہیہ کیا ہے کہ وہ کشیدگی کا خاتمہ کریں اور وقوع پذیر ہونے والے واقعات و سانحات سے آگے بڑھیں تاکہ علاقائی واقعات کے باعث ہلاکتوں اور بدا منی کی روک تھام پر توجہ کرکوز کی جاسکے۔ یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ پاکستان ایران، افغانستان ٹرائینگل کو مشترکہ خطرہ بھارت سے ہے جو اقتصادی اشتراک ،معاہدوں اور دوستی کی آڑ میں خطے کے امن کے در پے ہے۔
ادھر شام اور عراق و یمن کی سورتحال میں کوئی پیراڈائم تبدیلی آئی تو اس کے نتیجہ میں داعش اور دیگر جہادی عناصر ممکنہ پسپائی کی صورت میں باہم مل کر کوئی نیا میدان جنگ ڈھونڈھنے کی جستجو میں ہونگے، چنانچہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ میدان جنگ ہمارا خطہ نہ بن جائے۔
یہ حقیقت اب کسی راکٹ سائنس کی محتاج نہیں کہ عالمی سامراجی طاقتوں نے برصغیر سمیت پورے پیسفک ، انڈو چائنا، کورین خطہ اور مشرق وسطیٰ سے لے کر افریقہ تک میں گریٹ گیم کی نئی مفاداتی اور جنگی بنیاد رکھنے کی تیاریاں کر لی ہیں، امریکا داخلی انتشار میں ہے ،اس سے فارغ ہوکر کیا کچھ کرنے کی پوزیشن میں آجائیگا اس سے پہلے قوم کو اعتماد میں لے کر ہمیں اپنی سرزمین کو ہر قسم کے خطرات سے محفوط کرنا ہوگا جب کہ ملکی میڈیا نے ان خطرات کی نشاندہی بھی کی ہے جو مشرق وسطیٰ اور پاکستان ، افغانستان اور ایران کے تناظر میں غیر ملکی ریشہ دوانیوں سے منسلک ہیں۔ یوں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے خدشات پہلے سے زیادہ سنگین ہیں ، اسلیے زمینی حقائق اور ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے اب گومگو کی حکمت عملی یا مخمصہ میں گرفتار خارجہ پالیسی کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا ۔