جمہوریت کو روکنے کے شاخسانے
دنیا کے بہت سے ملک ان منفرد خوبیوں سے محروم ہیں جو پاکستان سمیت کئی ملکوں میں پائی جاتی ہیں
دنیا کے بہت سے ملک ان منفرد خوبیوں سے محروم ہیں جو پاکستان سمیت کئی ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔کرۂ ارض کے بہت سے ملکوں کا موسم عموماً برفانی اور سرد رہتا ہے،کچھ ملک ایسے ہیں جہاں سورج آگ برساتا ہے، کئی ملک خط استوا اور اس کے ارد گرد واقع ہیں جہاں موسم یکساں رہتا ہے۔
کچھ ایسے ہیں جہاں کے رہنے والوں کی اکثریت نے سمندرکا نام صرف کتابوں میں پڑھا ہے اس کا دیدار انھیں کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اس طرح کے ملکوں کی تعداد بھی کافی ہے جو مکمل طور پر صحرائی ہیں جہاں سمندر تو درکنار دریا بھی نظر نہیں آتے، کچھ ملک جنگلوں سے ڈھکے رہتے ہیں اور ایسے ملک بھی ہیں جہاں صرف کیکٹس کا پودا ہی اُگتا ہے۔
پاکستان جیسے ملکوں کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں فطرت کے تمام مظاہر اپنا جلوہ دکھلاتے ہیں۔ دریا زمینوں کو سیراب کرتے ہیں اور ان دریاؤں کے کنارے عظیم تہذیبوں کے آثار دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ یہاں دنیا کی سب سے بلند چوٹیاں ہیں، ایسے دلکش اور حسین علاقے ہیں جن کے آگے سوئٹزر لینڈ بھی شرمائے۔ کہیں زبردست سردی اور برف باری ہوتی ہے، آبشار اور جھرنے بہتے ہیں تو کہیں تپتے ریگستان اور پانی کو ترستی ہوئی زمینیں ہیں۔
دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام یہاں ہے اور ہزار میل طویل ساحلی پٹی بھی موجود ہے۔ یہاں بندرگاہیں ہیں اور گوادر کی شکل میں دنیا کی غالباً تیسری سب سے گہری قدرتی بندرگاہ بھی پاکستان میں ہے۔ قدرتی گیس، کوئلہ اور معدنیات کے ذخائر سے ملک مالا مال ہے۔ لوگوں پر نظر ڈالیں تو تہذیب اور ثقافت کی رنگا رنگی دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیتی ہے۔ ملک میں 80 کے لگ بھگ زبان اوربولیاں ہیں۔
پاکستان، مختلف رنگ، نسل، تہذیب، زبان، مذہب، مسلک سے وابستہ لوگوں کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔ بہت کم ملکوں میں یہ خوبیاں یکجا ملیں گی۔ رقبے کے لحاظ سے ان خوبیوں کا حامل دنیا کا سب سے بڑا ملک امریکا ہے اور آبادی کے لحاظ سے ہمارا پڑوسی ملک ہندوستان ہے۔ یہ دونوں ایسے ملک ہیں جنھوں نے اپنی منفرد خوبیوں کی یکجائی ، تنوع اور رنگارنگی سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔
امریکا دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے اور ہندوستان چین کے بعد دنیا میں سب سے تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے۔ ان غیر معمولی خوبیوں اور ان کا فائدہ اٹھاکر امریکا عالمی طاقت بن گیا، ایشیا کے کئی ملک ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہوگئے اور بعض اگلی چند دہائیوں میں امریکا کی بالادستی کو چیلنج کرنیوالے ہیں لیکن ہم ان مثبت عوامل کا فائدہ اٹھانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے۔
آزادی کے 70 سال گزر جانے کے باوجود ہمارا شمار غریب اور معاشی طور پر پسماندہ ممالک میں کیا جاتا ہے۔ سات دہائیوں پہلے ہم نہ صرف ہندوستان بلکہ متعدد ایشیائی ملکوں سے بہت آگے تھے۔ آج معاشی اور سماجی ترقی کے تمام اشاریوں میں ہم سب سے پیچھے ہیں، حد تو یہ ہے کہ ہمارے خطے کے وہ ملک بھی ہم سے آگے نکل چکے ہیں جو 'سارک' کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
ہمیں خود سے یہ سوال تو کرنا چاہیے کہ اس قدر مایوس کن صورتحال کی کوئی بنیادی وجہ یقینا ہوگی۔ کیا ہم نے کبھی اس وجہ کو معلوم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے؟ ہم اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئے کہ تمام تر معاشی وسائل، جغرافیائی محل وقوع، ثقافتی و تہذیبی تنوع ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی منازل ان ملکوں کی نسبت زیادہ برق رفتاری سے طے کی جاسکتی ہیں جنھیں یہ نعمت اور سبقت حاصل نہیں ہے۔ ہم اس کلیے کو جان لیتے تو ہماری دوسری جستجو یہ ہوتی کہ ان مثبت عوامل سے بھرپور استفادے کا فطری طریقہ کیا ہے؟
امریکا کا ذکر اوپر ہوا ہے، جس نے تنوع کو قوت میں بدل کر عالمی بالادستی حاصل کرلی۔ یہی روش ہندوستان نے اختیار کی جو اگلے چند برسوں میں جرمنی کو پیچھے چھوڑکر دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت بننے والا ہے۔ امریکا سے ہم 'محبت اور نفرت' کا رشتہ رکھتے ہیں جب کہ ہندوستان سے ہمارے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے۔ دانش کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان ملکوں کے تجربوں سے بھی فائدہ اٹھائیں جن کو ہم پسند نہیں کرتے۔ ان ملکوں نے جمہوریت کے ذریعے تنوع (Diversity) کو اپنے لیے نعمت اور رحمت میں تبدیل کرلیا اور ہم نے جمہوریت سے گریز کر کے تنوع کو ایک مصیبت اور عذاب بنالیا۔
امریکا نے 1776ء میں اعلان آزادی کیا، 1778ء میں آئین بنایا اور 1791ء میں حقوق کا بل منظورکرکے جمہوریت کے سفر کا آغازکردیا۔ جمہوریت انقلاب نہیں ارتقاء کا نام ہے۔ جمہوری ارتقاء سے لوگوں کو اظہار رائے کی آزادی ملتی ہے اور وہ اپنے حقوق حاصل کرتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی معجزہ راتوں رات رونما نہیں ہوتا۔ ایسا ہی امریکا نے بھی کیا۔ جمہوری سفر کا جب آغاز ہوا تو تمام امریکیوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں تھا۔ سیاہ فام امریکیوں نے یہ حق 1870ء میں حاصل کیا جب امریکی آئین میں 15 ویں ترمیم کے ذریعے انھیں بھی مساوی حقوق دیے گئے۔
امریکا میں 20 ویں صدی کے آغاز تک خواتین کو ووٹ دینے کا حق نہیں ملا تھا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد آئین میں 19 ویں ترمیم کرکے انھیں بھی رائے دہی کے استعمال کا حق دے دیا گیا۔ ہندوستان نے بھی جمہوری راہ اپنائی۔ 1947ء سے پہلے ہی آئین کی تشکیل کے لیے کمیٹی بنادی گئی تھی، آزادی کے چند برسوں کے اندر آئین تیار ہوا اور عام انتخابات کے ذریعے اس پر عمل درآمد کا آغاز بھی ہوگیا۔
کیا اسے محض اتفاق کہا جائے کہ دنیا کا ہر وہ ملک تباہ و برباد ہوگیا جس پر عرصے تک آمرانہ اور شخصی حکومتیں قابض رہیں۔ ریاستی اقتدار پر جب کوئی آمر قبضہ کرتا ہے تو لوگوں کو یہ خوش خبری سنائی جاتی ہے کہ ملک اور قوم کو جس عظیم مسیحا کی تلاش تھی بالآخر اس کا ظہور ہوگیا۔ اب تمام مسائل پلک جھپکتے حل ہوجائیں گے۔
یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ مسائل فرد نہیں ادارے حل کرتے ہیں۔ آمریت میں ہر ادارہ اپنے آمر کی خوشنودی کے لیے کام کرتا ہے اور اس کی تعریف و توصیف میں مصروف رہتا ہے۔ کسی بھی نوعیت کی تنقید اور اختلاف ناقابل قبول ہوتا ہے لہٰذا اصل حقیقت کبھی سامنے نہیں آتی۔ کیا یہ غور طلب بات نہیں کہ قحط ہمیشہ ان ملکوں میں آتے ہیں جہاں اقتدار پر فرد واحد قابض ہوتا ہے۔
آمریت میں تمام حقوق اور اختیار کا مالک آمر ہوتا ہے اور عوام کے صرف فرائض ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا فرض یہ ہوتا ہے کہ ہر قیمت پر حاکم کی اطاعت کی جائے۔ اس کے برعکس جمہوریت ریاست کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دیتی ہے، حکومت پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے اور عوام اپنے ووٹوں سے پارلیمنٹ منتخب کرتے ہیں۔ گویا ہر منتخب حکومت عوام اور پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے۔ گرفت کے لیے حزب اختلاف اور عدالتیں موجود ہوتی ہیں۔ اقتدار میں آنے اور جانے دونوں کا طریقہ کار طے ہوتا ہے اور اس پر عمل ہوتا ہے۔
اس صورتحال سے ملک میں رواداری اور تحمل کو فروغ ملتا ہے ، سیاسی استحکام پیدا ہوتا ہے اور ترقی کا پائیدار عمل جاری رہتا ہے۔ یہ وہ بنیادی حقائق ہیں جنھیں ہم نے نظر انداز رکھا اور جمہوریت کی نفی کرکے اپنے سماجی و معاشی تنوع کو ایک عذاب میں تبدیل کرلیا۔ پاکستان بنتا ہے، آئین کا کہیں نام و نشان نہیں، قائد اعظم قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے خواہاں اور ان کے قریبی رفقاء ملک میں ایک نظریاتی ریاست کے لیے غیر جمہوری نظام نافذ کرنے پر بضد۔
اس تضاد کا نتیجہ وفاق کی اکائیوں میں تصادم کی صورت میں نکلا۔ پہلی مزاحمت مشرقی پاکستان کی طرف سے ہوئی۔ انھوں نے پوچھا کہ ہم نے پاکستان کیا اس لیے بنایا تھا کہ یہاں عوام کے نمائندوں کے بجائے ایک سول اور فوجی اشرافیہ حکومت کرے۔ اس جائز شکایت کے جواب میں ظلم و جبر کیا گیا اور بالآخر مارشل لاء نافذ کردیا گیا۔ مارشل لاء، یعنی جمہوری اور آئینی قانون کی جگہ فوجی آمر کا قانون اور حکم مطلق۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان نے اپنی راہ جدا کرلی۔ سبق پھر بھی نہ سیکھا گیا۔
مارشل لاء لگتے رہے، تنوع کو منفی انداز میں استعمال کرکے لوگوں کو قوم ، نسل، مذہب اور مسلک کے نام پر باہم لڑایا گیا۔ دہشت گردی نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا اور پاکستان کے معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے چند ہفتے کا وقت رہ گیا۔ ضد صرف ایک تھی۔ پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی قبول نہیں کی جائے گی۔ وزیراعظم پارلیمنٹ کو نہیں بلکہ کہیں اور جواب دہ ہوگا اور فائنل اتھارٹی اور حکم وزیراعظم کا نہیں کسی اور کا ہوگا۔
یہ نیگ شگون ہے کہ اس صورتحال کے بدلنے کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ ٹویٹ کی واپسی سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اب اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر غور کیا جارہا ہے کہ جمہوریت کی نفی کرکے ہم کہیں کے نہیں رہے اور دوسرے ملک ہم سے کہیں آگے نکل چکے ہیں لہٰذا جمہوری ارتقاء کو روکنے کے کسی بھی عمل کی حمایت نہ کی جائے۔ اب اس اصول کو ہم سب مان لیں کہ جمہوریت پر عمل کرکے ہم بہت جلد بہت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ جمہوریت کو آگے بڑھنے تو دیں۔