گندم ہی اصل فصل ہے
’’ جنہاں دے گھر دانے انہاں دے کملے وی سیانے‘‘
گندم کی فصل کی کٹائی زوروشور سے جاری ہے اور اس کا افتتاح حسب سابق ہمارے وزیر اعظم نے اس بار اوکاڑہ میں گندم کاٹ کر کیا ہے۔گندم کی فصل کسانوں کی سال بھر کی کمائی پر مشتمل ہوتی ہے اور اس سے وہ اپنا سال بھر کا رزق اکٹھا کرتے ہیں۔
پنجابی کی ایک مشہور کہاوت ہے کہ '' جنہاں دے گھر دانے انہاں دے کملے وی سیانے'' آسان لفظوں میں جن کے گھر سال بھر کی گندم کا ذخیرہ موجود ہو تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ زندگی کے باقی معاملات تو چلتے رہیں گے لیکن چونکہ سال بھر کی روٹی کا بندوبست ہو چکا ہے اس لیے اب اطمینان سے سال گزر جائے گا اور اگر کوئی کم عقلمند فرد بھی گھر میں موجود ہے تو اس مناسبت سے اس کو بھی عقلمندوں کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا ہے کہ صاحب خانہ نے عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کنبے کے لیے سال بھر کی خوراک کا بندوبست کر دیا ہے۔
گندم کی فصل میں کسانوں کے لیے ایک صبر آزما مرحلہ آتا ہے چونکہ ایک تو اس کی بوائی سے لے کر کٹائی تک چھ مہینے لگ جاتے ہیں اور اس دوران ہر طرح کے موسمی حالات سے اس فصل کے ساتھ ساتھ کسان کو بھی گزرنا پڑتا ہے کیو نکہ وہ اپنا سب کچھ مٹی میں ملا کر اﷲکی رحمت کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے اور آج کل کی اس بے رحم دنیا میں اگر کوئی اﷲ کی ذات پر سب سے زیادہ توکل کرتا ہے تو وہ یہی کسان ہے جو اپنی جمع پونجی مٹی کے سپر دکر کے اچھے دنوں کی آس لگا لیتا ہے اور اپنے آئندہ کے پروگرام اس فصل کی کٹائی سے مشروط کر دیتا ہے۔
امیدوں کا ایک سمندر ہوتا ہے جو اس کے اندر موجزن ہوتا ہے اور جب فصل بوائی کے بعد زمین سے اپنی کونپلیں نکالنا شروع کرتی ہے تو اس وقت کسانوں کے چہروں کی رونق یکھنے والی ہوتی ہے کیو نکہ انھوں نے جو بیجا ہوتا ہے وہ ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جب فصل پر گندم کے سٹے نکلنا شروع ہوتے ہیں تو ان کی امیدوں کا محور ایک بار پھر انگڑائی لیتا ہے اور روز صبح ان کونپلوں پر سٹوں میں لگنے والے دانوں کی تعدا د میں ہونے والا اضافہ اس کے لیے ایک ناقابل بیان خوشی کا موقع ہوتا ہے اور اس کا انتظار اور شدت اختیار کر لیتا ہے کہ کب فصل کے دن پورے ہوں گے اور وہ اپنے دل میں سجائے گئے ارمانوں کی تکمیل کر سکے گاجو کہ اس فصل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے پورے ہونے کی امید ہوتی ہے۔
قدرت کا بھی اپنا ایک منفرد نظام ہے جس کے تحت انسانی زندگی رواں دواں ہے اور اس میں کوئی بھی رکاوٹ ہم انسانوں کی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے ۔ بات کسانوں کے توکل کے بارے میں ہو رہی تھی جب گندم کی فصل کی بوائی مکمل ہو جاتی ہے تو کسان اس انتظارمیں ہوتا ہے کہ کب اللہ کی رحمت برسے گی ۔
بارش جو کہ ہر فصل کی طرح گندم کی فصل کے لیے بھی زندگی کی نوید ہوتی ہے اور اس کے برسنے سے گندم کے خوشے نکلتے ہیں لیکن جب یہی فصل تیار ہو جاتی ہے تو کسان کے لیے یہی بارش زحمت بن جاتی ہے اور اگر گندم کی تیار فصل پر کٹائی کے موقع پر بارش ہو جائے تو کسان کی سال بھر کی کمائی ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اسی لیے کسان کہتے ہیں کہ اس موقع پر ہمیں سونے کی بارش کی بھی قبول نہیں۔
میں خود چونکہ ایک بارانی علاقے کا رہنے ولا ہوں وہاں پر تو گندم کی فصل کا تما تر دارومداربارش پر ہی ہوتا ہے کیونکہ بارانی زمینوں پر اگر فصل کی بیجائی سے پہلے بارش نہ ہو تو ان زمینوں میں گندم کاشت نہیں ہو سکتی اور وہ سال جس سال بارش نہ ہو کسانوں کی زندگیوں کا مایوس اور مشکل ترین سال گنا جاتا ہے چونکہ اس سال ان کے پا س سال بھر کے دانوں کا بندو بست ممکن نہیں ہو پاتا۔
گاؤں میں گندم کی کٹائی کے موقع پر کسان ایک دوسرے کی مدد کر کے اور مل جل کر ہی یہ مشکل کام کر پاتے ہیں کیونکہ گرم موسم میں سورج کی تمازت اپنے جوبن پر ہوتی ہے تو کسان اس کی جسم کو پگھلاتی شعاعوں سے بچنے کے لیے کھیتوں میں صبح سویرے کٹائی کاعمل شروع کر دیتے ہیں جس میں شروع میں جذبوں کی شدت ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے پر کٹائی کی جاتی ہے لیکن موسم کی حدت بڑھنے کے ساتھ ساتھ جذبوں کی شدت میں بھی کمی آجاتی ہے اور پھر ان جذبوں کو ٹھنڈک لسی ہی پہنچاتی ہے جو کہ آج کل کے کئی خوش ذائقہ مشروبات سے درجہ ہا بہتر ہے۔
شہری زندگی کی جدید سہولتوں نے ہمیںاپنے حصار میں جکڑ کر اپنا محتاج بنا دیا ہے اور شہروں کے رہنے والے اپنے لیے اناج کی پیداوار کرنے والے کسانوں کی مشکلات کے متعلق کیا جانیں وہ تو بازار جا کر اپنی پسند کی اشیاء خرید لاتے ہیں لیکن جو کسان یہ اجناس اُگا رہے ہیں ان کو ان کی محنت کا عشر عشیر بھی انھیںوصول نہیں ہوتا چونکہ ہمارے ملک کا کسان اپنی اجناس کی فروخت کے لیے ملک بھر کی منڈیوں میں موجود آڑھتیوں کے استحصال کا شکار رہتا ہے اور اپنی اجناس ان مفاد پرست آڑھتیوں کی من پسند قیمتوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے کیونکہ جدید زمانے کی تجارت ان ہی کے مرہون منت ہے اور اس کے یہی ضابطے ہیں۔
بات گندم کی کٹائی سے شروع ہوئی تھی ہمارے محترم وزیر اعظم نے اپنے نرم ہاتھوں میں درانتی لے کر گندم کے چند خوشوں پر طبع آزمائی کی جو کہ اس بات کااشارہ تھا کہ اب ملک بھر کے کسان اپنی فصل کی برداشت شروع کر دیں لیکن ہمارے کسان کہاں اتنے خوش قسمت کہ ان کو سونے کی درانتی میسر ہو ان کے کھردرے ہاتھوں کو تو گندم کی کٹائی کے لیے روایتی لوہے کی بنی درانتی کاسہارا ہی میسر ہوتا ہے جس کو وہ ہر سال فصل کی کٹائی سے پہلے تیز کراتے ہیں تا کہ گرم دوپہروں میں وہ آسانی کے ساتھ اپنی فصل کی کٹائی کر سکیں اور اپنے لیے سونے کی درانتی نہ سہی آسان زندگی گزارنے کا سامان ہی پیدا کر سکیں۔
نہ جانے کیوں ہمارے وزیر اعظم نے سونے کی درانتی کو ہی ترجیح دی حالانکہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی لوہے سے وابستہ ہے جس پر وہ فخر کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن شاید ہمارے حکمران اپنے اقتدار میں اس قدر ڈوب چکے ہیں کہ وہ اپنی ان روایات کو بھول گئے جن سے ان کا دال دلیہ چلتا ہے۔