خون کا عطیہ منشیات کا استعمال
تھیلسمیا مائنر کا ٹیسٹ کسی بھی اسپتال میں باآسانی کروایا جاسکتا ہے
KARACHI:
ڈاکٹرکے کلینک سے نکل کر باہر آرہی تھی، دوپہر کے تقریباً دو بج چکے تھے کہ فٹ پاتھ پہ کھڑے دو لڑکوں پہ پڑی، جو اسکول یونیفارم میں تھے چہرے مہرے سے نویں یا دسویں کے طالب علم لگ رہے تھے۔ دونوں بالکل راستے میں کھڑے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ فٹ پاتھ پہ سے ہٹ کر راستہ دے دیں گے، لیکن ایسا تو نہ ہوا، البتہ یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دونوں طالب علم ایک ہی سگریٹ کو باری باری پی رہے تھے۔
جب ایک سگریٹ کا کش لے لیتا تو دوسرے کو دے دیتا، اس دوران پہلے والا ناک اور منہ سے دھوئیں کے مرغولے نکال رہا تھا، اور نشیلی آنکھوں سے خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ میرے اندر کا استاد جاگ اٹھا، میں نے اس بچے کے ہاتھ سے سگریٹ لی اور زمین پر پھینک کر جوتی سے مسل دی۔ دونوں ہکا بکا رہ گئے، میں نے بیگ سے پچاس روپے نکالے اور ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ یہ لو تمہارے نقصان کا ہرجانہ۔ دونوں شریف گھرانوں کے بچے تھے اور شرمندہ بھی نظر آرہے تھے، تب میں نے ان سے پوچھا کہ اسکول میں بھی وہ لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں؟
جواب میں دونوں نے سر جھکالیا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ ''ہاں'' تب میں نے کہا۔ کہاں پیتے ہو؟ ''ہاف ٹائم میں واش روم میں''۔ دونوں کو جس طرح ممکن تھا سمجھایا کہ مجھے نصیحتیں کرنے کا کوئی شوق نہیں، لیکن تمہارے دبلے پتلے جسم دیکھ کر تمہارے ماں باپ کا خیال آیا، جنھیں علم ہی نہیں کہ ان کے بچوں کی مصروفیات کیا ہیں اور بڑھتی عمرکی صحت مندی ان کے وجود سے ناپید تھی۔ انھیں سگریٹ اور دیگر منشیات کے نقصانات کا احساس دلایا تو ان کے چہروں پہ خفت ضرور تھی۔ لیکن پتا نہیں انھوں نے میری باتوں کو سنجیدگی سے لیا کہ نہیں۔
ذرا غور کیجیے تو قصور وار والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں، کوچنگ سینٹرز میں، یونیورسٹی میں ہر جگہ نوجوان نشہ کرتے نظر آئیں گے۔ پوش علاقوں کے پیزا پوائنٹ، برگر شاپ، سپر مارکیٹیں، ہر جگہ جینز ٹی شرٹ، اسکول اور کالج یونیفارم میں بے دھڑک گروپ کی شکل میں شیشہ پیتے، سگریٹ نوشی کرتے، بے حجابانہ گفتگوکرتے عام دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایک بار یونیورسٹی میں برگر، چپس،کولڈ ڈرنک اور چنوں کی دکان پہ کام کرنے والے لڑکے سے میری ایک دوست نے (جو یونیورسٹی ہی میں رہتی تھیں) کہا ''تم اپنی کینٹین پہ ان جوڑوں کو کیوں بیٹھنے دیتے ہو؟ چار چار بجے تک یہ یہاں بیٹھے رہتے ہیں۔'' اس پر کینٹین کے مالک نے ان سے کہا ''آنٹی! آپ کیوں میری روزی پہ لات مار رہی ہیں؟ میری روزی روٹی تو انھی سے چلتی ہے۔ جتنی زیادہ دیر بیٹھیں گے کچھ نہ کچھ آرڈر دیتے رہیں گے۔'' یہی حال میں نے مختلف شاپنگ مال اور دیگر جگہوں پہ بھی دیکھا ہے۔
تعجب ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ اسکول اور کالج کی نو عمر لڑکیاں بڑی ڈھٹائی سے ہوٹلوں میں لڑکوں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ عام طور پر ان کے ساتھ طالب علم کم اور دیگر لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ موبائل فونز نے ملاقاتوں کے ٹھکانے بتانے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ ان کیفوں اور شیشہ بار میں بھی لڑکے اور لڑکیاں دونوں پائے جاتے ہیں اور یہاں بھی بیرے ان جوڑوں کی خدمت نہایت مستعدی سے کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر پندرہ بیس منٹ بعد وہ آکر پوچھتے ہیں ''کچھ اور لاؤں؟'' مطلب یہ کہ مزید بیٹھنا ہے توکوئی اور آرڈر دیجیے ورنہ دوسرے جوڑے کے لیے جگہ خالی کیجیے۔''
کیوں نہ تھیلسمیا کے حوالے سے آج کچھ اور بات ہوجائے۔ میں نے ایک کالم میں توجہ دلائی تھی کہ رشتہ طے ہونے کے بعد یا پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کا خون ٹیسٹ ہوجائے تو باآسانی تھیلسمیا کے مرض کی تشخیص ہوسکتی ہے۔ زیادہ تر یہ بیماری خاندان میں شادیوں کے سبب ہوتی ہے لیکن اس وقت میں بات عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے روح رواں ڈاکٹر ثاقب انصاری کے حوالے سے کر رہی ہوں۔ ڈاکٹر ثاقب کے علاوہ ان کے ساتھی عبید ہاشمی، ڈاکٹر ذیشان انصاری بھی اس نیک کام میں پیش پیش ہیں۔
اگر یہ قانون پاس ہوجائے تو آیندہ نسلیں صحت مند پیدا ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ہماری قوم میں شعور اورآگہی کی بہت کمی ہے۔ ڈھیروں ڈگریوں کے حامل اور ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کو بھی نئے ماڈل کے موبائل فون اورکار کی معلومات تو ہوگی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ آٹھویں جماعت کے طالب علم کو بھی ہر نئے موبائل فون اور اس کے آپشن معلوم ہیں، لیکن بڑے بڑے پڑھے لکھے پروفیسرز اور صحافیوں کو خون کی بیماریوں کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں۔ اسمبلیوں کا تو کہنا ہی کیا؟
ایسے مضحکہ خیز اور بے حسی کے ماحول میں ہر سال 6 ہزار بچوں کے تھیلسمیا کا شکار ہونے والے بچوں کی پرواہ کون کرے گا۔ ڈاکٹر ثاقب انصاری کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ شادی سے پہلے تھیلسمیا کے ٹیسٹ کی تشخیص اگر لازمی قرار دے دی جائے تو اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے ایران میں یہ ٹیسٹ لازمی ہے۔ یہاں بھی اگر تھیلسمیا کے ٹیسٹ کی کاپی نکاح نامے سے مشروط و منسلک کردی جائے تو یہ ایک بے حس قوم پر احسان ہوگا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے مذہبی علما جو جہاد کے لیے نوجوانوں کوستر حوروںکا لالچ دیتے ہیں۔ وہ تھیلسمیا کے مرض کے انسداد اور علاج کے لیے عمیر ثنا فاؤنڈیشن کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔
ڈاکٹر ثاقب کا کہنا ہے کہ تھیلسمیا مائنر کا ٹیسٹ کسی بھی اسپتال میں باآسانی کروایا جاسکتا ہے۔ تھیلسمیا میں مبتلا بچوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ ماں یا باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کا تھیلسمیا کے مرض میں مبتلا ہونا ہے۔ مرض اور مریضوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں خون کا عطیہ کرنے کے رجحان میں کمی بھی ایک وجہ ہے۔ ایک صحت مند انسان اگر خون کا عطیہ سال میں ایک یا دو مرتبہ کردے تو بہت سی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ لیکن یہ رجحان ہماری قوم میں سرے سے نہیں ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کراچی کالج فار ویمن میں ہمارے کالج میں بھی اور دوسرے کالجوں میں بھی بلڈ بینک کی طرف سے طلبا و طالبات میں لوگ اگر شعور بیدار کرتے تھے کہ انسانی جانوں کو بچانے کے لیے طلبا و طالبات خون کا عطیہ دیں۔ میں نے بھی پہلی بار کراچی کالج کے قریب ہی 1965 میں نرسنگ ہوم میں جاکر خون کا عطیہ دیا تھا۔ نرسنگ ہوم میں 1965 کی جنگ کی وجہ سے کیمپ لگایا گیا تھا۔ وہیں مجھے اپنے بلڈ گروپ کا پتا چلا۔
ایک سبز رنگ کا چھوٹا سا کارڈ دیا گیا جس میں میرا نام، کلاس، کالج کا نام اور بلڈ گروپ کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ اگر مجھے زندگی میں کبھی بلڈ کی ضرورت پڑی تو متعلقہ ادارہ مجھے بلامعاوضہ خون فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔ سبزکارڈ کے اندر گلابی صفحے پر تمام معلومات درج تھیں۔ یہ کارڈ آج بھی میرے پاس ہے۔ اس کے بعد بھی چار مرتبہ میں نے اخبار میں پڑھ کر خود جاکر خون کا عطیہ دیا اور کبھی خون دینے کے بعد کوئی کمزوری یا نقاہت محسوس نہیں کی۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سب سے پہلے تعلیمی اداروں میں بالخصوص کالج اور یونیورسٹیز میں بلڈ بینک کی ٹیمیں جاکر طلبا میں یہ شعور بیدار کریں کہ ہر طالب علم جو صحت مند ہے اور کسی عارضے میں مبتلا نہیں ہے وہ کسی بھی اسپتال یا بلڈ بینک میں جاکر خون عطیہ کرے اور سرٹیفکیٹ حاصل کرے۔ جو طلبا و طالبات اس مہم میں حصہ لیں انھیں فائنل امتحان میں 10 نمبر اضافی دیے جائیں۔
ایک طرف بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سڑکوں پہ لوگ زخمیوں کو دیکھ کرگزر جاتے ہیں، مدد کی زحمت نہیں کرتے بلکہ بعض تو اپنی کار سے کسی بھی انسان کو مار کر یا زخمی کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ وہی یہ بے حس قوم کسی سانحے پر زخمیوں کو خون دینے کے لیے قطار میں لگ جاتے ہیں۔ جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ کہ ہم خون کا عطیہ دینے کے لیے کسی الم ناک سانحے کا انتظار کریں۔ کیوں نہ ہمارے نوجوان طلبا و طالبات کم ازکم ایک بار ضرور خون کا عطیہ دیں۔
کسی حد تک بلکہ بڑی حد تک اس معاملے میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی بھی ہے لیکن اس طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں، سوچتا بھی نہیں۔ اسے مرغے، ریچھ اور بھالو لڑانے سے فرصت نہیں، کبھی بھیڑیوں اور شیروں کا ٹاک شو کرواتا ہے، کبھی گیدڑ، طوطوں اور مرغوں کو ایک صف میں بٹھا کر خود وہ سوال پھینکتا رہتا ہے جو اسے لکھ کر دیے گئے یا کان میں لگے مائیک پر موقع محل کی مناسبت سے بتائے گئے۔ ہر طرف شور و غوغا ۔ گویا ٹی وی اسکرین نہیں بلکہ میدان جنگ ہو۔ بعد میں باہر نکل کر سب اپنی اپنی دیہاڑی لے کر اور گلے مل کر اپنی اپنی قیمتی گاڑیوں میں گھروں کو رخصت۔ ایسے ماحول میں بھلا کون سا چینل عوام میں تھیلسمیا کے بارے میں آگہی اور خون کا عطیہ دینے کی طرف مائل کرے گا؟
ایسے فلاحی کاموں میں پیسہ نہیں عزت ملتی ہے۔ ڈاکٹر ثاقب آپ اس کام میں اکیلے نہیں ہیں۔ میری طرح اور بھی بہت سے لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کالم کے ذریعے میں اپنے قارئین سے استدعا کرتی ہوں کہ عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے مشن میں ڈاکٹر ثاقب کی ٹیم کا حصہ اس طرح بنیے کہ اپنے اپنے گھروں میں صحت مند افراد کو خصوصاً نوجوان نسل کو خون کا عطیہ دینے کی طرف مائل کریں۔ یہ بھی صدقہ جاریہ ہے۔
ایک زندگی کو بچا کر آپ ایک خاندان کو بچاتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں مجھے کامل یقین ہے کہ اس کالم کی اشاعت کے بعد نوجوان نسل طلبا و طالبات اور دیگر صحت مند افراد ضرور ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری سے رابطہ کریں گے اور تھیلسمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے ساتھ ساتھ حادثات اور دیگر امراض میں مبتلا ہزاروں افراد کو نئی زندگی عطا کریں گے۔
آئیے عہد کریں کہ ایسے بڑے کام ہمیشہ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے انسان ہی کرسکتے ہیں کیونکہ فہم و فراست احساس اور ہمدردی کے معنی سب سے زیادہ متوسط طبقے کے افراد ہی سمجھتے ہیں تو پھر آج سے ہی کیوں نہ خون کا عطیہ دینے کی نیت کرلیں۔
ڈاکٹرکے کلینک سے نکل کر باہر آرہی تھی، دوپہر کے تقریباً دو بج چکے تھے کہ فٹ پاتھ پہ کھڑے دو لڑکوں پہ پڑی، جو اسکول یونیفارم میں تھے چہرے مہرے سے نویں یا دسویں کے طالب علم لگ رہے تھے۔ دونوں بالکل راستے میں کھڑے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ فٹ پاتھ پہ سے ہٹ کر راستہ دے دیں گے، لیکن ایسا تو نہ ہوا، البتہ یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دونوں طالب علم ایک ہی سگریٹ کو باری باری پی رہے تھے۔
جب ایک سگریٹ کا کش لے لیتا تو دوسرے کو دے دیتا، اس دوران پہلے والا ناک اور منہ سے دھوئیں کے مرغولے نکال رہا تھا، اور نشیلی آنکھوں سے خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ میرے اندر کا استاد جاگ اٹھا، میں نے اس بچے کے ہاتھ سے سگریٹ لی اور زمین پر پھینک کر جوتی سے مسل دی۔ دونوں ہکا بکا رہ گئے، میں نے بیگ سے پچاس روپے نکالے اور ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ یہ لو تمہارے نقصان کا ہرجانہ۔ دونوں شریف گھرانوں کے بچے تھے اور شرمندہ بھی نظر آرہے تھے، تب میں نے ان سے پوچھا کہ اسکول میں بھی وہ لوگ سگریٹ نوشی کرتے ہیں؟
جواب میں دونوں نے سر جھکالیا۔ اس کا مطلب واضح تھا کہ ''ہاں'' تب میں نے کہا۔ کہاں پیتے ہو؟ ''ہاف ٹائم میں واش روم میں''۔ دونوں کو جس طرح ممکن تھا سمجھایا کہ مجھے نصیحتیں کرنے کا کوئی شوق نہیں، لیکن تمہارے دبلے پتلے جسم دیکھ کر تمہارے ماں باپ کا خیال آیا، جنھیں علم ہی نہیں کہ ان کے بچوں کی مصروفیات کیا ہیں اور بڑھتی عمرکی صحت مندی ان کے وجود سے ناپید تھی۔ انھیں سگریٹ اور دیگر منشیات کے نقصانات کا احساس دلایا تو ان کے چہروں پہ خفت ضرور تھی۔ لیکن پتا نہیں انھوں نے میری باتوں کو سنجیدگی سے لیا کہ نہیں۔
ذرا غور کیجیے تو قصور وار والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ بھی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں، کوچنگ سینٹرز میں، یونیورسٹی میں ہر جگہ نوجوان نشہ کرتے نظر آئیں گے۔ پوش علاقوں کے پیزا پوائنٹ، برگر شاپ، سپر مارکیٹیں، ہر جگہ جینز ٹی شرٹ، اسکول اور کالج یونیفارم میں بے دھڑک گروپ کی شکل میں شیشہ پیتے، سگریٹ نوشی کرتے، بے حجابانہ گفتگوکرتے عام دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایک بار یونیورسٹی میں برگر، چپس،کولڈ ڈرنک اور چنوں کی دکان پہ کام کرنے والے لڑکے سے میری ایک دوست نے (جو یونیورسٹی ہی میں رہتی تھیں) کہا ''تم اپنی کینٹین پہ ان جوڑوں کو کیوں بیٹھنے دیتے ہو؟ چار چار بجے تک یہ یہاں بیٹھے رہتے ہیں۔'' اس پر کینٹین کے مالک نے ان سے کہا ''آنٹی! آپ کیوں میری روزی پہ لات مار رہی ہیں؟ میری روزی روٹی تو انھی سے چلتی ہے۔ جتنی زیادہ دیر بیٹھیں گے کچھ نہ کچھ آرڈر دیتے رہیں گے۔'' یہی حال میں نے مختلف شاپنگ مال اور دیگر جگہوں پہ بھی دیکھا ہے۔
تعجب ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ اسکول اور کالج کی نو عمر لڑکیاں بڑی ڈھٹائی سے ہوٹلوں میں لڑکوں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ عام طور پر ان کے ساتھ طالب علم کم اور دیگر لوگ زیادہ ہوتے ہیں۔ موبائل فونز نے ملاقاتوں کے ٹھکانے بتانے میں آسانی پیدا کردی ہے۔ ان کیفوں اور شیشہ بار میں بھی لڑکے اور لڑکیاں دونوں پائے جاتے ہیں اور یہاں بھی بیرے ان جوڑوں کی خدمت نہایت مستعدی سے کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر پندرہ بیس منٹ بعد وہ آکر پوچھتے ہیں ''کچھ اور لاؤں؟'' مطلب یہ کہ مزید بیٹھنا ہے توکوئی اور آرڈر دیجیے ورنہ دوسرے جوڑے کے لیے جگہ خالی کیجیے۔''
کیوں نہ تھیلسمیا کے حوالے سے آج کچھ اور بات ہوجائے۔ میں نے ایک کالم میں توجہ دلائی تھی کہ رشتہ طے ہونے کے بعد یا پہلے لڑکا اور لڑکی دونوں کا خون ٹیسٹ ہوجائے تو باآسانی تھیلسمیا کے مرض کی تشخیص ہوسکتی ہے۔ زیادہ تر یہ بیماری خاندان میں شادیوں کے سبب ہوتی ہے لیکن اس وقت میں بات عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے روح رواں ڈاکٹر ثاقب انصاری کے حوالے سے کر رہی ہوں۔ ڈاکٹر ثاقب کے علاوہ ان کے ساتھی عبید ہاشمی، ڈاکٹر ذیشان انصاری بھی اس نیک کام میں پیش پیش ہیں۔
اگر یہ قانون پاس ہوجائے تو آیندہ نسلیں صحت مند پیدا ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ہماری قوم میں شعور اورآگہی کی بہت کمی ہے۔ ڈھیروں ڈگریوں کے حامل اور ماسٹرز ڈگری ہولڈرز کو بھی نئے ماڈل کے موبائل فون اورکار کی معلومات تو ہوگی بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ آٹھویں جماعت کے طالب علم کو بھی ہر نئے موبائل فون اور اس کے آپشن معلوم ہیں، لیکن بڑے بڑے پڑھے لکھے پروفیسرز اور صحافیوں کو خون کی بیماریوں کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں۔ اسمبلیوں کا تو کہنا ہی کیا؟
ایسے مضحکہ خیز اور بے حسی کے ماحول میں ہر سال 6 ہزار بچوں کے تھیلسمیا کا شکار ہونے والے بچوں کی پرواہ کون کرے گا۔ ڈاکٹر ثاقب انصاری کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ شادی سے پہلے تھیلسمیا کے ٹیسٹ کی تشخیص اگر لازمی قرار دے دی جائے تو اس بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مجھے علم ہے ایران میں یہ ٹیسٹ لازمی ہے۔ یہاں بھی اگر تھیلسمیا کے ٹیسٹ کی کاپی نکاح نامے سے مشروط و منسلک کردی جائے تو یہ ایک بے حس قوم پر احسان ہوگا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے مذہبی علما جو جہاد کے لیے نوجوانوں کوستر حوروںکا لالچ دیتے ہیں۔ وہ تھیلسمیا کے مرض کے انسداد اور علاج کے لیے عمیر ثنا فاؤنڈیشن کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔
ڈاکٹر ثاقب کا کہنا ہے کہ تھیلسمیا مائنر کا ٹیسٹ کسی بھی اسپتال میں باآسانی کروایا جاسکتا ہے۔ تھیلسمیا میں مبتلا بچوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ ماں یا باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کا تھیلسمیا کے مرض میں مبتلا ہونا ہے۔ مرض اور مریضوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں خون کا عطیہ کرنے کے رجحان میں کمی بھی ایک وجہ ہے۔ ایک صحت مند انسان اگر خون کا عطیہ سال میں ایک یا دو مرتبہ کردے تو بہت سی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔ لیکن یہ رجحان ہماری قوم میں سرے سے نہیں ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کراچی کالج فار ویمن میں ہمارے کالج میں بھی اور دوسرے کالجوں میں بھی بلڈ بینک کی طرف سے طلبا و طالبات میں لوگ اگر شعور بیدار کرتے تھے کہ انسانی جانوں کو بچانے کے لیے طلبا و طالبات خون کا عطیہ دیں۔ میں نے بھی پہلی بار کراچی کالج کے قریب ہی 1965 میں نرسنگ ہوم میں جاکر خون کا عطیہ دیا تھا۔ نرسنگ ہوم میں 1965 کی جنگ کی وجہ سے کیمپ لگایا گیا تھا۔ وہیں مجھے اپنے بلڈ گروپ کا پتا چلا۔
ایک سبز رنگ کا چھوٹا سا کارڈ دیا گیا جس میں میرا نام، کلاس، کالج کا نام اور بلڈ گروپ کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ اگر مجھے زندگی میں کبھی بلڈ کی ضرورت پڑی تو متعلقہ ادارہ مجھے بلامعاوضہ خون فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔ سبزکارڈ کے اندر گلابی صفحے پر تمام معلومات درج تھیں۔ یہ کارڈ آج بھی میرے پاس ہے۔ اس کے بعد بھی چار مرتبہ میں نے اخبار میں پڑھ کر خود جاکر خون کا عطیہ دیا اور کبھی خون دینے کے بعد کوئی کمزوری یا نقاہت محسوس نہیں کی۔
ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سب سے پہلے تعلیمی اداروں میں بالخصوص کالج اور یونیورسٹیز میں بلڈ بینک کی ٹیمیں جاکر طلبا میں یہ شعور بیدار کریں کہ ہر طالب علم جو صحت مند ہے اور کسی عارضے میں مبتلا نہیں ہے وہ کسی بھی اسپتال یا بلڈ بینک میں جاکر خون عطیہ کرے اور سرٹیفکیٹ حاصل کرے۔ جو طلبا و طالبات اس مہم میں حصہ لیں انھیں فائنل امتحان میں 10 نمبر اضافی دیے جائیں۔
ایک طرف بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سڑکوں پہ لوگ زخمیوں کو دیکھ کرگزر جاتے ہیں، مدد کی زحمت نہیں کرتے بلکہ بعض تو اپنی کار سے کسی بھی انسان کو مار کر یا زخمی کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔ وہی یہ بے حس قوم کسی سانحے پر زخمیوں کو خون دینے کے لیے قطار میں لگ جاتے ہیں۔ جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ کہ ہم خون کا عطیہ دینے کے لیے کسی الم ناک سانحے کا انتظار کریں۔ کیوں نہ ہمارے نوجوان طلبا و طالبات کم ازکم ایک بار ضرور خون کا عطیہ دیں۔
کسی حد تک بلکہ بڑی حد تک اس معاملے میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی بھی ہے لیکن اس طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں، سوچتا بھی نہیں۔ اسے مرغے، ریچھ اور بھالو لڑانے سے فرصت نہیں، کبھی بھیڑیوں اور شیروں کا ٹاک شو کرواتا ہے، کبھی گیدڑ، طوطوں اور مرغوں کو ایک صف میں بٹھا کر خود وہ سوال پھینکتا رہتا ہے جو اسے لکھ کر دیے گئے یا کان میں لگے مائیک پر موقع محل کی مناسبت سے بتائے گئے۔ ہر طرف شور و غوغا ۔ گویا ٹی وی اسکرین نہیں بلکہ میدان جنگ ہو۔ بعد میں باہر نکل کر سب اپنی اپنی دیہاڑی لے کر اور گلے مل کر اپنی اپنی قیمتی گاڑیوں میں گھروں کو رخصت۔ ایسے ماحول میں بھلا کون سا چینل عوام میں تھیلسمیا کے بارے میں آگہی اور خون کا عطیہ دینے کی طرف مائل کرے گا؟
ایسے فلاحی کاموں میں پیسہ نہیں عزت ملتی ہے۔ ڈاکٹر ثاقب آپ اس کام میں اکیلے نہیں ہیں۔ میری طرح اور بھی بہت سے لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔ اس کالم کے ذریعے میں اپنے قارئین سے استدعا کرتی ہوں کہ عمیر ثنا فاؤنڈیشن کے مشن میں ڈاکٹر ثاقب کی ٹیم کا حصہ اس طرح بنیے کہ اپنے اپنے گھروں میں صحت مند افراد کو خصوصاً نوجوان نسل کو خون کا عطیہ دینے کی طرف مائل کریں۔ یہ بھی صدقہ جاریہ ہے۔
ایک زندگی کو بچا کر آپ ایک خاندان کو بچاتے ہیں۔ پتا نہیں کیوں مجھے کامل یقین ہے کہ اس کالم کی اشاعت کے بعد نوجوان نسل طلبا و طالبات اور دیگر صحت مند افراد ضرور ڈاکٹر ثاقب حسین انصاری سے رابطہ کریں گے اور تھیلسمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے ساتھ ساتھ حادثات اور دیگر امراض میں مبتلا ہزاروں افراد کو نئی زندگی عطا کریں گے۔
آئیے عہد کریں کہ ایسے بڑے کام ہمیشہ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے انسان ہی کرسکتے ہیں کیونکہ فہم و فراست احساس اور ہمدردی کے معنی سب سے زیادہ متوسط طبقے کے افراد ہی سمجھتے ہیں تو پھر آج سے ہی کیوں نہ خون کا عطیہ دینے کی نیت کرلیں۔