انٹرنیشنل میڈیا اور دنیا

آج دنیا کے ہر ائیر پورٹ پر ڈیوٹی فری لفافے میں ایمپورٹڈ شراب پکڑا شخص آزادی سے بورڈ ہوجاتا ہے

www.facebook.com/draffanqaiser

ہٹلر بڑا دانا تھا، وہ جس ملک پر حملہ کرنے کی ٹھان لیتا، کسی طور اس ملک کا میڈیا یا تو خرید لیتا،یا پھر پہلے ہی حملے میں نیست و نابود کر کے قبضہ کرلیتا، پھر جو وہ چاہتا،وہی اس ملک کے لوگوں تک پہنچتا، اور ہٹلر اصل جنگ جیتنے سے پہلے ہی خبروں کی جنگ میں جیت جاتا، قوم حوصلہ ہار جاتی اور ہٹلر کے آگے جھک جاتی۔ میں نے بچپن سے اپنے اشتہارات پر گہری نظر رکھی ہے، چھوٹا تھا،تو تمام اشیا کے اشتہارات دیکھ کر بڑا ہوا،یہی سب سڑک پر لگے بل بورڈز پر بھی نظر آتا۔ مگر اب سب بدل گیا۔

شروع سے ایک ہی تجزیہ رہا ہے ،آپ کے اشتہارات قومی میلان کی ترجمانی کرتے ہیں۔ بس Interest پیدا ہونے کی دیر ہوتی ہے، اور مارکیٹ میں دوڑ لگ جاتی ہے اور وہی سب آپ کے بل بورڈز اور ٹی وی پر نظر آنے لگتا ہے۔ جیسے ہی اسمارٹ فون نے پاکستان میں قدم رکھا، ہر جگہ اشتہارات کی بھرمار نظر آنے لگی۔ اس میں Interest کے ساتھ ساتھ ، جوش بھی ابھارا جارہا تھا اور یوں ہر کسی کے ہاتھ میں اسمارٹ فون نظر آنے لگا،اور یہ اشتہاری میلان آج بھی جاری ہے۔

اسی سے بس اتنا سا اندازہ ہوا کہ اشتہارات کا ہماری ذاتی زندگی میں بہت عمل دخل ہے، جب اس سب کو بڑے Canvas پر دیکھا اور تحقیق کی تو ہٹلر کا لگایا اشتہاری فارمولہ ہر سطح پر نظر آنے لگا اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اشتہارات سے شروع ہوئی کہانی انٹرنیشنل سیاست ،ایجنسیوں کے کھیل اور جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔

آج دنیا کے ہر ائیر پورٹ پر ڈیوٹی فری لفافے میں ایمپورٹڈ شراب پکڑا شخص آزادی سے بورڈ ہوجاتا ہے ،جب کہ پانچ وقت کا نمازی، باریش جوان ،جگہ جگہ تلاشیاں دے رہا ہوتا ہے۔ یہ خاکہ کس کا تشکیل کردہ ہے؟ اور اگر یہ بند کمروں کی پیداوار ہے تو پھر اسے پوری دنیا پر مسلط کیوں اور کیسے کیا گیا؟

مدتوں حقیقت نگاری اور انسانی زندگی کے اصل روپ کو کہانیوں، افسانوں، کہاوتوں اور ناولوں میں بیان کرنے کی رسم جاری رہی۔ہر معاشرے نے اپنے مصلح اور نامور ادیب پیدا کیے جو ایک طویل مدت تک ایسے کردار تخلیق کرتے رہے جو انسانی زندگی کے قریب تھے،یہ کردار ہمارے اشتہار بھی تھے اور اصل ہیرو بھی۔

قونیہ کے مولانا روم سے، شیراز کے سعدی تک،پٹنہ کے کالی داس سے بنارس کے پریم چند تک،پیرس کے موپساں سے لاہور کے منٹو تک، جو لکھا گیا،وہ معاشرے کے خون میں اتر گیا اور معاشرہ اسی میں ڈھل سا گیا اور یہی تحریریں میڈیا کی طاقت کا کام کرتی نظر آئیں۔ مگران تحریروں سے امڈآنے والے سلسلے، پھر اخبارات،ریڈیو ، ٹی وی،الیکٹرانک میڈیا اور اب سوشل میڈیا تک چل نکلے، یہ سب تو گیم چینجر جیسا ہے۔

1983ء میں دنیا کے اسٹریم لائن انٹرنیشنل میڈیا کل 50 کارپوریشن کے ہاتھ میں تھا اور 2002ء تک اسی انٹرنیشنل میڈیا کو خریدا گیا اوریہ 9 کارپوریشن کی ملکیت میں چلا گیا اور 2007 ء نوے فیصد انٹرنیشنل میڈیا پانچ کارپوریشن نے خرید لیا۔ ان کارپوریشن میں سب سے بڑی والٹ ڈزنی ہے،جس کا مالک مائیکل ایزنر ایک یہودی ہے،اس کی فلموں کا انچارج جوروتھ بھی یہودی ہے۔


دوسری کارپوریشن ٹائم وارنر ہے،اس کا مالک جیرالڈ الیون بھی یہودی ہے۔ اسی طرح CBS اور CNN کا مالک بھی یہودی ہے۔فوکس ٹی وی کا مالک پیٹر چیرنن بھی یہودی ہے اور جاپان کی سونی کارپوریشن کے مغربی حصے کا مالک مائیکل شل ہوف بھی یہودی ہے۔یہ سب اکٹھے ہیں۔ اخباری دنیا میں ایسوسی ایٹڈ پریس کا مالک مائیکل سلور نیویارک ٹائمز کا اڈولف اوچز ،واشنگٹن پوسٹ کی ماسٹر گراہم،وال اسٹریٹ جنرل کا رابرٹ میکسویل سب یہودی ہیں۔

اب یہ سب یہودی ،1948 ء میں ہٹلر کی موت کے بعد مسلمانوں پر مسلط کی گئی ہولو کاسٹ سے نمودار ریاست اسرائیل کی حمایت کرتی انٹرنیشنل سیاست کے سپورٹر ہیں۔دنیا کی پانچ فیصد آبادی ، مگر ستر فیصد اکانومی کے مالک یہی یہودی، سرد جنگ کے بانی بھی کہلاتے ہیں اور بظاہر اپنی حمایت والی امریکی طاقت کا پلڑا بھاری رکھے ہوئے ہیں۔ یوں آنے والے وقتوں میں اپنی اکانومی کے ساتھ ، میڈیا کو بھی اپنے کنٹرول میں کرچکے ہیں۔

یوں اپنے ہی سب سے بڑے قاتل ہٹلر کے میڈیا فارمولے کا سب سے زیادہ استعمال یہی کررہے ہیں۔ سرد جنگ کے لیے تخلیق کردہ طالبان، داعش کو یہ جب چاہیں،جس روپ میں چاہیں دکھا سکتے ہیں اور شہری آبادی پر بم برساتے طیارے، جب چاہیں، امن پھیلاتے دکھا سکتے ہیں۔ یہ اسی میڈیا کا استعمال کرکے ،ہمارے معاشرے میں صدیوں سے چلی اسلامی روایات کا بھی جنازہ نکال سکتے اور جب چاہیں ہمیں اپنی اشیا بیچ کر ،وہی پیسہ ہم پر بم کی صورت میں بھی برسا سکتے ہیں۔

یہ ایک ایسی خفیہ طاقت سے ہم پر حملہ آور ہیں،جو بظاہر گلیمر کا لبادہ لیے،بے لباسی میں بھی، حسین نظر آرہی ہے۔ مگر حقیقت میں وہ جلی ،دھواں ہوئی وہ لاشیں ہیں کہ جن کی چیخوں کی گونج بھی سنائی نہیں دیتی۔ان کی کہانی منٹو کے کوٹھے پر بیٹھی طوائف، کی طرح بولڈ نہیں ہے۔ یہ بہت پیار سے سب لوٹ رہے ہیں۔ یہ اصل حقیقت بھی ہیں اور Fake بھی ہیں،اور ہم صرف اندھے ہیں۔ یہ کس طرح ہماری سوچ کو اغوا کیے ہیں،اس کا اندازہ ہمیں خود بھی نہیں، ہم صرف سوچوں کے اغوا کے کھیل کا حصہ ہیں۔

ہماری نیشنل سیاست، ہماری معاشرتی زندگی،ہماری روز مرہ کی ضروریات، ہماری اولاد کا ذہنی میلان، ہماری تعلیم، ہمارا بین الاقوامی امیج سب ان کی اکانومی اور ان کے میڈیا کے تابع ہے۔یہ کب ،پوری دنیا کوکس طرف ہانک دیں، اس کا فیصلہ یہ چند بند کمروں میں بیٹھ کر کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور ان کی یہی طاقت آج ہمیں اس دوراہے پر لے آئی ہے کہ ہماری پڑھی لکھی نسلیں ان کے ملکوں میں جانے کو سر دھڑ کی بازی لگائے ہیں۔ ہماری نسلوں کے ہیرو ان کے دیے ہیرو ہیں، ان کی فلمیں، ان کے سیزن، ان کے ڈرامے اور ان کی سوچ۔ جو ہے بس ان ہی کا ہے۔

بطور مسلم امہ دنیا کی نصف آبادی ہوتے ہوئے بھی، کچھ ہمارے بس میں نہیں رہا اور افسوس صرف اتنا ہے کہ ہم اس خفیہ طاقت کے ہر وار کوجاننے سے آج بھی قاصر ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب فلپائن سے لے کر عراق اور افغانستان تک، ویت نام سے جنوبی امریکا تک کروڑوں لوگوں کو مارنے کے بعد انسانی حقوق اور انسانی دوستی کا ہیرو ایک مغربی، سفید رنگ، رومانی مزاج والا شخص ہوگا۔

یہ وہ طاقت ہے کہ جس کے بل بوتے پر آپ معصوم بچیوں کے اسکول پر بم گرانے کے باوجود امن کے پجاری کہلائیں گے۔ایک دن ایسا آئے گا کہ سچ لکھنے والے،سچ بولنے والے،سچ کا ساتھ دینے والے،اپنی تحریروں،اپنی آوازیں اور اپنے خیالات لیے موت کی آغوش میں چلے جائیں گے اور دنیا وہی دیکھتی رہ جائے ،جو یہ یہودی انھیں دکھا رہے ہیں۔
Load Next Story