36 ہزار این جی اوز سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام
حکومتی اداروں کیساتھ این جی اوز بھی ناکام رہیں،90 فیصد این جی اوز پر کارپوریٹ کلچر غالب آ گیا۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں رجسٹرڈ 36 ہزار نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز (این جی اوز) سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوگئیں۔
صوبہ سندھ میں عوامی فلاح بہبود کو یقینی بنانے میں جہاں حکومتی ادارے ناکام ہیں وہیں کراچی سمیت سندھ بھر میں رجسٹرڈ 36 ہزار این جی اوز بھی سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں بیشتر این جی اوز ملٹی ملین ڈالر کے منصوبوں میں کارپوریٹ ادارے کی طرزکا کردار ادا کر رہی ہیں۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں 36 ہزار این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جن میں کراچی کی 12 ہزار اور اندرون سندھ کی 24 ہزار این جی اوز شامل ہیں ان میں سے 90 فیصد این جی اوز کارپوریٹ کلچر کا شکار ہوچکی ہیں این جی اوز کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور انگریزی بولنے والے چاہئیں این جی اوز کا تعلق لوگوں سے کمزور ہوتا جارہا ہے این جی اوز چلانے والے ٹیکنوکریٹس اور کنسلٹنٹس کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں کے ہالوں اور بورڈز روم میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں یہ معاشرے کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔
بیشتر این جی اوز معاشرے کے مظلوم طبقات کے حقوق کی بحالی کے لیے منصوبے تیار کرتی ہیں اور بیرونی ممالک میں ڈونرز سے فنڈز وصول کرتی ہیں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں منصوبوں کی افتتاحی تقریب میں خواتین، بچے، معذور افراد اور نوجوان طبقے کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے تمام کام کاغذی دستاویزات اور صرف تصاویر میں نظر آتا ہے جبکہ مقامی سطح پر پسماندہ طبقات پر اثرات نظر نہیں آتے این جی اوز فنڈز ٹھکانے لگانے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں سیمنارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہیں جس میں متعلقہ طبقے سے وابستہ افراد شامل نہیں ہوتے بلکہ تقریبات میں سیاسی شخصیات کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا ہے اور دیگر شرکا میں این جی اوز کا مافیا تشریف فرما ہوتا ہے اس کے علاوہ فوٹو سیشن کے لیے مقامی سطح پر این جی اوز دورے کرتی ہیں اور متعقلہ حکومتی اراکین سے اجلاسوں کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں منصوبے کے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے بغیر ہی مختص فنڈز ختم یوتے ہی این جی اوز کام بھی بند کردیتی ہیں۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے باعث حکومت اور این جی اوزسماجی مسائل حل نہ ہونے پر ایک دوسرے کو مورودالزام ٹہراتے ہیں حکومت کی ناراضگی اور این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ ہونے کا خوف طاری ہوتا ہے، حقیقت میں این جی اوز کا کام حکومتی پالیسیوں کی مانیٹرنگ کرنا، معاشرے میں درپیش مسائل کو اجاگر کرنا اور اس کو حل کرنے کیلیے حکومت کی مدد کرنا ہوتا ہے اور مقامی سطح پر جاکر آگاہی فراہم کرنا شامل ہیں لیکن بیشتر این جی اوز پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے سروس ڈیلیوری پر مامور ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے این جی اوز سیکٹر کمرشل بن چکا ہے۔
یہ حکومتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لینے کیلیے سرگرم رہتا ہے اور جیسے ہی فنڈز ختم ہوتا ہے ان اداروں کو لاوارث چھوڑ دیتا ہے اور حکومتی ادارے این جی اوز پر الزام تراشی کرتی ہیں جبکہ این جی اوز فنڈز کی کمی کا مسئلہ بتاتی ہیں کچی آبادیوں میں غربت، جہالت اور بیروزگاری کے باعث خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ان علاقوں میں این جی اوز جانا پسند نہیں کرتی۔
صوبہ سندھ میں عوامی فلاح بہبود کو یقینی بنانے میں جہاں حکومتی ادارے ناکام ہیں وہیں کراچی سمیت سندھ بھر میں رجسٹرڈ 36 ہزار این جی اوز بھی سماجی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہیں بیشتر این جی اوز ملٹی ملین ڈالر کے منصوبوں میں کارپوریٹ ادارے کی طرزکا کردار ادا کر رہی ہیں۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں 36 ہزار این جی اوز رجسٹرڈ ہیں جن میں کراچی کی 12 ہزار اور اندرون سندھ کی 24 ہزار این جی اوز شامل ہیں ان میں سے 90 فیصد این جی اوز کارپوریٹ کلچر کا شکار ہوچکی ہیں این جی اوز کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ اور انگریزی بولنے والے چاہئیں این جی اوز کا تعلق لوگوں سے کمزور ہوتا جارہا ہے این جی اوز چلانے والے ٹیکنوکریٹس اور کنسلٹنٹس کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں کے ہالوں اور بورڈز روم میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں یہ معاشرے کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔
بیشتر این جی اوز معاشرے کے مظلوم طبقات کے حقوق کی بحالی کے لیے منصوبے تیار کرتی ہیں اور بیرونی ممالک میں ڈونرز سے فنڈز وصول کرتی ہیں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں منصوبوں کی افتتاحی تقریب میں خواتین، بچے، معذور افراد اور نوجوان طبقے کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے۔
اس حوالے سے تمام کام کاغذی دستاویزات اور صرف تصاویر میں نظر آتا ہے جبکہ مقامی سطح پر پسماندہ طبقات پر اثرات نظر نہیں آتے این جی اوز فنڈز ٹھکانے لگانے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں سیمنارز اور ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہیں جس میں متعلقہ طبقے سے وابستہ افراد شامل نہیں ہوتے بلکہ تقریبات میں سیاسی شخصیات کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا ہے اور دیگر شرکا میں این جی اوز کا مافیا تشریف فرما ہوتا ہے اس کے علاوہ فوٹو سیشن کے لیے مقامی سطح پر این جی اوز دورے کرتی ہیں اور متعقلہ حکومتی اراکین سے اجلاسوں کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں منصوبے کے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے بغیر ہی مختص فنڈز ختم یوتے ہی این جی اوز کام بھی بند کردیتی ہیں۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے باعث حکومت اور این جی اوزسماجی مسائل حل نہ ہونے پر ایک دوسرے کو مورودالزام ٹہراتے ہیں حکومت کی ناراضگی اور این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ ہونے کا خوف طاری ہوتا ہے، حقیقت میں این جی اوز کا کام حکومتی پالیسیوں کی مانیٹرنگ کرنا، معاشرے میں درپیش مسائل کو اجاگر کرنا اور اس کو حل کرنے کیلیے حکومت کی مدد کرنا ہوتا ہے اور مقامی سطح پر جاکر آگاہی فراہم کرنا شامل ہیں لیکن بیشتر این جی اوز پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے سروس ڈیلیوری پر مامور ہوچکی ہیں جس کی وجہ سے این جی اوز سیکٹر کمرشل بن چکا ہے۔
یہ حکومتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لینے کیلیے سرگرم رہتا ہے اور جیسے ہی فنڈز ختم ہوتا ہے ان اداروں کو لاوارث چھوڑ دیتا ہے اور حکومتی ادارے این جی اوز پر الزام تراشی کرتی ہیں جبکہ این جی اوز فنڈز کی کمی کا مسئلہ بتاتی ہیں کچی آبادیوں میں غربت، جہالت اور بیروزگاری کے باعث خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ان علاقوں میں این جی اوز جانا پسند نہیں کرتی۔