کامران فیصل کے بعد کس کی باری ہے
یہ الیکشن سے قبل اس کیس کا فیصلہ نہیں ہونے دیں گے‘ خواہ انھیں کچھ بھی کرنا پڑے‘ جی ہاں ’’ کچھ بھی‘‘۔
LAHORE:
کامران فیصل 34 سال کے ایک نوجوان افسر تھے' یہ میاں چنوں سے تعلق رکھتے تھے' یہ 2006 ء میں نیب میں بھرتی ہوئے اورنیب کوئٹہ اور ایف آئی اے سے ہوتے ہوئے مئی 2012ء میں نیب اسلام آباد آگئے' یہ ایماندار' بے لچک اور سیدھے سادے افسر تھے' یہ مئی 2012ء میں رینٹل پاور کرپشن کیس کی تین رکنی تفتیشی ٹیم کے رکن بنے' ٹیم نے 15 جنوری کو رینٹل پاور کرپشن کی تفتیشی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی' اس رپورٹ کا اسی فیصد حصہ کامران فیصل نے لکھا تھا' یہ چشم کشا رپورٹ تھی جس میں انکشاف ہوا رینٹل پاور پلانٹس کے ذریعے20 لوگ قوم کے اربوں روپے کھا گئے' یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل تھا اور اس اسکینڈل میں شامل ملزموں میں پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر اور موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی شامل تھے' سپریم کورٹ نیب کو ملزمان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرتی آ رہی تھی لیکن ایک درجن سے زائد سماعتوں کے باوجود مقدمے پر پیش رفت نہ ہوئی' 15 جنوری کو کامران فیصل رپورٹ عدالت میں آئی اور عدالت نے اس دن راجہ پرویز اشرف سمیت 19 ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔
یہ حکم بم کی طرح پھٹا کیونکہ علامہ طاہر القادری اس وقت ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے اور عین اس نازک وقت پر وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آ گیا جس کے بعد راجہ پرویز اشرف اور حکومت دونوں فارغ ہوتے دکھائی دیے' اس نازک وقت میں میاں نواز شریف نے حکومت کو سہارا دیا' انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا اور دس اپوزیشن جماعتوں نے علامہ طاہر القادری کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں فیصلہ دے دیا' اس اعلان سے راجہ پرویز اشرف کو اپنے پائوں زمین پر ٹکانے کا موقع مل گیا' سپریم کورٹ نے بھی 17 جنوری کی شام رینٹل پاور پلانٹس کیس کی سماعت 23 جنوری تک مؤخر کر دی' اس التواء کی وجہ سے حکومت اور علامہ طاہر القادری کے مذاکرات کامیاب ہو گئے' اگر سپریم کورٹ اس وقت وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دے دیتی یا چیئرمین نیب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتی تو علامہ طاہر القادری نے مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دینا تھا اور یوں اسلام آباد کی صورتحال مزید خراب ہو جاتی چنانچہ اگر دیکھا جائے تو 17 جنوری کو راجہ پرویز اشرف کی حکومت پر سپریم کورٹ اور میاں نواز شریف دونوں نے احسان کیا اور یہ اس خوفناک بحران سے نکل آئے جسے رحمن ملک ہوا دے رہے تھے۔
یہ حقائق اب سامنے آ چکے ہیں' رحمن ملک 16 اور 17 جنوری کی رات علامہ طاہر القادری کے خلاف آپریشن لانچ کرنا چاہتے تھے مگر چیف کمشنر اسلام آباد اور بعد ازاں فوج نے اس کی اجازت نہیں دی' ملک ریاض کو متحرک کیا گیا' ملک ریاض نے چوہدری شجاعت حسین کی مدد لی' چوہدری شجاعت حسین نے صدر آصف علی زرداری کو فون کیا اور یوں یہ آپریشن رک گیا' اگر یہ آپریشن ہو جاتا' پولیس' ایف آئی اے' آئی بی اور رینجرز علامہ طاہر القادری کو گرفتار کر لیتے تو علامہ صاحب کے زائرین بلیو ایریا کو آگ لگا دیتے اور اس کے بعد کیا ہوتا؟ یہ پوری دنیا جانتی ہے لیکن بہرحال میاں نواز شریف' سپریم کورٹ اور چوہدری شجاعت حسین نے راجہ پرویز اشرف پر مہربانی کی' انھوں نے حکومت کو سپورٹ دی اور یوں اسلام آباد اور راجہ پرویز اشرف دونوں بچ گئے لیکن پھر 18 جنوری کی صبح10 اور 11 بجے کے درمیان کامران فیصل فیڈرل لاجز میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے' ان کی نعش پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی' نیب نے پولیس کی مدد سے اس ہلاکت کو خودکشی ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن کامران فیصل مرنے سے قبل چند ایسے سوال چھوڑ گئے جنہوں نے کیس کو الجھا دیا او یہ کیس اب چیئرمین نیب فصیح بخاری سمیت بے شمار لوگوں کے گلے کا پھندا بنتا جا رہا ہے' کامران فیصل کے ساتھیوں کے بقول کامران پر ڈی جی ایچ آر کوثراقبال ملک سمیت بعض افسروں کا بے تحاشا دبائو تھا' یہ لوگ ان سے پچھلی تاریخوں میں بیان حلفی لینا چاہتے تھے' یہ انھیں کیس سے دستبردار ہونے کا حکم بھی دے رہے تھے' کامران فیصل کی آخری اور طویل ملاقات انھی لوگوں کے ساتھ ہوئی تھی' کامران فیصل کے موبائل کا ڈیٹا بھی نکال لیا گیا ہے اور یہ ڈیٹا بھی ایشو کو گھمبیر بنا رہا ہے' کامران فیصل کی موت کے بعد سب سے پہلے نیب کے حکام ان کے کمرے میں پہنچے' یہ لوگ ان کے کمرے سے فائلیں اور لیپ ٹاپ لے گئے اور پولیس کو اس کے بعد بلوایا گیا' کامران فیصل کا وزن اسی کلو گرام سے زیادہ تھا' آج کے پنکھے اتنا وزن نہیں سہار سکتے اور اگر پھندا بھی آزار بند کا ہو تو یہ ممکن نہیں۔
خودکشی کرنے والا شخص آخری وقت بری طرح تڑپتا ہے' اس تڑپ کی وجہ سے اس کے پائوں کرسی یا میز سے لگ جاتے ہیں یا پھر پنکھا ٹوٹ کر گر جاتا ہے یا اس کے پر ٹیڑھے ہو جاتے ہیں' کامران فیصل کے معاملے میں پنکھا سلامت رہا' یہ ممکن نہیں' ہمارے پنکھے چالیس پچاس کلو سے زیادہ وزن نہیں سہار سکتے'پولیس کمرے میں پہنچی تو کامران کے پائوں میز پر تھے' یہ بھی غیر معمولی صورتحال ہے اور اس کے موبائل پر رات دس بجے کے بعد کوئی کال آئی اور نہ ہی ایس ایم ایس' یہ بات بھی غیر معمولی تھی' کامران فیصل کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے اور اس کی کلائیوں پر بھی بندش کے نشان تھے' کوئی شخص اپنے ہاتھ باندھ کر خودکشی کیسے کر سکتا ہے؟کامران فیصل ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا' یہ خودکشی کے ایسے درجنوں طریقے نکال سکتا تھا جن کے ذریعے یہ آسانی سے جان دے سکتا تھا لہٰذا پھر اسے پھندے کا اذیت ناک طریقہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی اور سب سے بڑھ کر حکومت نے کامران فیصل کی موت کا تعین کرنے کے لیے فوری طور پر اپنی مرضی کا کمیشن بنا دیا' حکومت کو کمیشن بنانے کی جلدی کیا تھی؟ اور اس کے لیے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال ہی کیوں؟ یہ تمام حقائق یہ ثابت کر رہے ہیں دال اتنی بھی صاف نہیں جتنی حکومت اور نیب ثابت کرنا چاہ رہی ہے ۔
ہم اب آتے ہیں کامران فیصل کیوں مارے گئے؟ وجہ بہت سیدھی ہے'رینٹل پاور پلانٹس میں اربوں روپے دائیں بائیں ہوئے' سپریم کورٹ کی کارروائیوں کی وجہ سے ان درجن بھر لوگوں کو شدید مالیاتی نقصان ہوا جو رینٹل پاور پلانٹس سے کروڑ روپے روزانہ کما رہے تھے' یہ لوگ اس وقت زخمی سانپ کی طرح لوٹ رہے ہیں چنانچہ یہ ہر اس شخص کو ڈسنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا قدم ان کے مفادات کی دم پر آیا' یہ لوگ کون ہیں اور ان کے ساتھ کون کون ملا ہوا ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں گھڑی کی سوئیوں پر نظریں جما کر بیٹھنا ہو گا لیکن یہ طے ہے یہ لوگ اپنے آپ اور اپنے سرمائے کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور کامران فیصل اس حد کا پہلا شکار تھے' رینٹل پاور پلانٹس' ایل پی جی اور سی این جی کے چشمے سے فیضیاب ہونے والوں نے مافیا قائم کر رکھا ہے' یہ مافیا لوگوں کو ڈرا بھی رہا ہے' قتل بھی کر رہا ہے اور خریدنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
رینٹل پاور پلانٹس کیس میں مخدوم فیصل صالح حیات اور خواجہ محمد آصف نے مرکزی کردار ادا کیا' فیصل صالح حیات نے حکومت میں شامل رہتے ہوئے راجہ پرویز اشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی' یہ معاملے کو عدالت تک بھی لے کر گئے اور یہ اپنے اس اصولی موقف کی وجہ سے راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں بھی شامل نہیں ہوئے' خواجہ محمد آصف نے بھی کردار اور بہادری کا مظاہرہ کیا' یہ سپریم کورٹ گئے اور انھوں نے حقائق کے ذریعے قوم اور کورٹ کی آنکھیں کھول دیں' رینٹل پاور پلانٹس کارٹل خواجہ آصف کو خاموش کرنے کے لیے 5 ملین ڈالر کی پیشکش کررہے ہیں' یہ پچاس کروڑ روپے بنتے ہیں مگر خواجہ محمد آصف نے انھیں جواب تک دینا پسند نہیں کیا' یقیناً فیصل صالح حیات کی بولی بھی لگ رہی ہو گی اور میرا خیال ہے فیصل صالح حیات بھی عصر کے وقت روزہ توڑنے کی غلطی نہیں کریں گے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ طاقتور لوگ اس انکار کے بعد خاموش رہیں گے' میرا خیال ہے نہیں کیونکہ یہ لوگ اگر کامران فیصل کو انکار کی سزا دے سکتے ہیں تو یہ اپنے مفادات ہاتھیوں کے منہ سے گنا چھیننے کے جرم میں فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں' چنانچہ فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف دونوں کو اپنی سیکیورٹی بڑھا دینی چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے خطرہ اب ان کی طرف بڑھ رہا ہو' یہ ظالم لوگ ہیں' یہ الیکشن سے قبل اس کیس کا فیصلہ نہیں ہونے دیں گے' خواہ انھیں کچھ بھی کرنا پڑے' جی ہاں '' کچھ بھی''۔
کامران فیصل 34 سال کے ایک نوجوان افسر تھے' یہ میاں چنوں سے تعلق رکھتے تھے' یہ 2006 ء میں نیب میں بھرتی ہوئے اورنیب کوئٹہ اور ایف آئی اے سے ہوتے ہوئے مئی 2012ء میں نیب اسلام آباد آگئے' یہ ایماندار' بے لچک اور سیدھے سادے افسر تھے' یہ مئی 2012ء میں رینٹل پاور کرپشن کیس کی تین رکنی تفتیشی ٹیم کے رکن بنے' ٹیم نے 15 جنوری کو رینٹل پاور کرپشن کی تفتیشی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی' اس رپورٹ کا اسی فیصد حصہ کامران فیصل نے لکھا تھا' یہ چشم کشا رپورٹ تھی جس میں انکشاف ہوا رینٹل پاور پلانٹس کے ذریعے20 لوگ قوم کے اربوں روپے کھا گئے' یہ پاکستان کی تاریخ کا بہت بڑا اسکینڈل تھا اور اس اسکینڈل میں شامل ملزموں میں پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر اور موجودہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف بھی شامل تھے' سپریم کورٹ نیب کو ملزمان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کرتی آ رہی تھی لیکن ایک درجن سے زائد سماعتوں کے باوجود مقدمے پر پیش رفت نہ ہوئی' 15 جنوری کو کامران فیصل رپورٹ عدالت میں آئی اور عدالت نے اس دن راجہ پرویز اشرف سمیت 19 ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔
یہ حکم بم کی طرح پھٹا کیونکہ علامہ طاہر القادری اس وقت ڈی چوک پر دھرنا دیے بیٹھے تھے اور عین اس نازک وقت پر وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آ گیا جس کے بعد راجہ پرویز اشرف اور حکومت دونوں فارغ ہوتے دکھائی دیے' اس نازک وقت میں میاں نواز شریف نے حکومت کو سہارا دیا' انھوں نے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کیا اور دس اپوزیشن جماعتوں نے علامہ طاہر القادری کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں فیصلہ دے دیا' اس اعلان سے راجہ پرویز اشرف کو اپنے پائوں زمین پر ٹکانے کا موقع مل گیا' سپریم کورٹ نے بھی 17 جنوری کی شام رینٹل پاور پلانٹس کیس کی سماعت 23 جنوری تک مؤخر کر دی' اس التواء کی وجہ سے حکومت اور علامہ طاہر القادری کے مذاکرات کامیاب ہو گئے' اگر سپریم کورٹ اس وقت وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دے دیتی یا چیئرمین نیب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتی تو علامہ طاہر القادری نے مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دینا تھا اور یوں اسلام آباد کی صورتحال مزید خراب ہو جاتی چنانچہ اگر دیکھا جائے تو 17 جنوری کو راجہ پرویز اشرف کی حکومت پر سپریم کورٹ اور میاں نواز شریف دونوں نے احسان کیا اور یہ اس خوفناک بحران سے نکل آئے جسے رحمن ملک ہوا دے رہے تھے۔
یہ حقائق اب سامنے آ چکے ہیں' رحمن ملک 16 اور 17 جنوری کی رات علامہ طاہر القادری کے خلاف آپریشن لانچ کرنا چاہتے تھے مگر چیف کمشنر اسلام آباد اور بعد ازاں فوج نے اس کی اجازت نہیں دی' ملک ریاض کو متحرک کیا گیا' ملک ریاض نے چوہدری شجاعت حسین کی مدد لی' چوہدری شجاعت حسین نے صدر آصف علی زرداری کو فون کیا اور یوں یہ آپریشن رک گیا' اگر یہ آپریشن ہو جاتا' پولیس' ایف آئی اے' آئی بی اور رینجرز علامہ طاہر القادری کو گرفتار کر لیتے تو علامہ صاحب کے زائرین بلیو ایریا کو آگ لگا دیتے اور اس کے بعد کیا ہوتا؟ یہ پوری دنیا جانتی ہے لیکن بہرحال میاں نواز شریف' سپریم کورٹ اور چوہدری شجاعت حسین نے راجہ پرویز اشرف پر مہربانی کی' انھوں نے حکومت کو سپورٹ دی اور یوں اسلام آباد اور راجہ پرویز اشرف دونوں بچ گئے لیکن پھر 18 جنوری کی صبح10 اور 11 بجے کے درمیان کامران فیصل فیڈرل لاجز میں اپنے کمرے میں مردہ پائے گئے' ان کی نعش پنکھے سے لٹکی ہوئی تھی' نیب نے پولیس کی مدد سے اس ہلاکت کو خودکشی ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن کامران فیصل مرنے سے قبل چند ایسے سوال چھوڑ گئے جنہوں نے کیس کو الجھا دیا او یہ کیس اب چیئرمین نیب فصیح بخاری سمیت بے شمار لوگوں کے گلے کا پھندا بنتا جا رہا ہے' کامران فیصل کے ساتھیوں کے بقول کامران پر ڈی جی ایچ آر کوثراقبال ملک سمیت بعض افسروں کا بے تحاشا دبائو تھا' یہ لوگ ان سے پچھلی تاریخوں میں بیان حلفی لینا چاہتے تھے' یہ انھیں کیس سے دستبردار ہونے کا حکم بھی دے رہے تھے' کامران فیصل کی آخری اور طویل ملاقات انھی لوگوں کے ساتھ ہوئی تھی' کامران فیصل کے موبائل کا ڈیٹا بھی نکال لیا گیا ہے اور یہ ڈیٹا بھی ایشو کو گھمبیر بنا رہا ہے' کامران فیصل کی موت کے بعد سب سے پہلے نیب کے حکام ان کے کمرے میں پہنچے' یہ لوگ ان کے کمرے سے فائلیں اور لیپ ٹاپ لے گئے اور پولیس کو اس کے بعد بلوایا گیا' کامران فیصل کا وزن اسی کلو گرام سے زیادہ تھا' آج کے پنکھے اتنا وزن نہیں سہار سکتے اور اگر پھندا بھی آزار بند کا ہو تو یہ ممکن نہیں۔
خودکشی کرنے والا شخص آخری وقت بری طرح تڑپتا ہے' اس تڑپ کی وجہ سے اس کے پائوں کرسی یا میز سے لگ جاتے ہیں یا پھر پنکھا ٹوٹ کر گر جاتا ہے یا اس کے پر ٹیڑھے ہو جاتے ہیں' کامران فیصل کے معاملے میں پنکھا سلامت رہا' یہ ممکن نہیں' ہمارے پنکھے چالیس پچاس کلو سے زیادہ وزن نہیں سہار سکتے'پولیس کمرے میں پہنچی تو کامران کے پائوں میز پر تھے' یہ بھی غیر معمولی صورتحال ہے اور اس کے موبائل پر رات دس بجے کے بعد کوئی کال آئی اور نہ ہی ایس ایم ایس' یہ بات بھی غیر معمولی تھی' کامران فیصل کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے اور اس کی کلائیوں پر بھی بندش کے نشان تھے' کوئی شخص اپنے ہاتھ باندھ کر خودکشی کیسے کر سکتا ہے؟کامران فیصل ایک پڑھا لکھا نوجوان تھا' یہ خودکشی کے ایسے درجنوں طریقے نکال سکتا تھا جن کے ذریعے یہ آسانی سے جان دے سکتا تھا لہٰذا پھر اسے پھندے کا اذیت ناک طریقہ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی اور سب سے بڑھ کر حکومت نے کامران فیصل کی موت کا تعین کرنے کے لیے فوری طور پر اپنی مرضی کا کمیشن بنا دیا' حکومت کو کمیشن بنانے کی جلدی کیا تھی؟ اور اس کے لیے جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال ہی کیوں؟ یہ تمام حقائق یہ ثابت کر رہے ہیں دال اتنی بھی صاف نہیں جتنی حکومت اور نیب ثابت کرنا چاہ رہی ہے ۔
ہم اب آتے ہیں کامران فیصل کیوں مارے گئے؟ وجہ بہت سیدھی ہے'رینٹل پاور پلانٹس میں اربوں روپے دائیں بائیں ہوئے' سپریم کورٹ کی کارروائیوں کی وجہ سے ان درجن بھر لوگوں کو شدید مالیاتی نقصان ہوا جو رینٹل پاور پلانٹس سے کروڑ روپے روزانہ کما رہے تھے' یہ لوگ اس وقت زخمی سانپ کی طرح لوٹ رہے ہیں چنانچہ یہ ہر اس شخص کو ڈسنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا قدم ان کے مفادات کی دم پر آیا' یہ لوگ کون ہیں اور ان کے ساتھ کون کون ملا ہوا ہے یہ جاننے کے لیے ہمیں گھڑی کی سوئیوں پر نظریں جما کر بیٹھنا ہو گا لیکن یہ طے ہے یہ لوگ اپنے آپ اور اپنے سرمائے کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور کامران فیصل اس حد کا پہلا شکار تھے' رینٹل پاور پلانٹس' ایل پی جی اور سی این جی کے چشمے سے فیضیاب ہونے والوں نے مافیا قائم کر رکھا ہے' یہ مافیا لوگوں کو ڈرا بھی رہا ہے' قتل بھی کر رہا ہے اور خریدنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
رینٹل پاور پلانٹس کیس میں مخدوم فیصل صالح حیات اور خواجہ محمد آصف نے مرکزی کردار ادا کیا' فیصل صالح حیات نے حکومت میں شامل رہتے ہوئے راجہ پرویز اشرف کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی' یہ معاملے کو عدالت تک بھی لے کر گئے اور یہ اپنے اس اصولی موقف کی وجہ سے راجہ پرویز اشرف کی کابینہ میں بھی شامل نہیں ہوئے' خواجہ محمد آصف نے بھی کردار اور بہادری کا مظاہرہ کیا' یہ سپریم کورٹ گئے اور انھوں نے حقائق کے ذریعے قوم اور کورٹ کی آنکھیں کھول دیں' رینٹل پاور پلانٹس کارٹل خواجہ آصف کو خاموش کرنے کے لیے 5 ملین ڈالر کی پیشکش کررہے ہیں' یہ پچاس کروڑ روپے بنتے ہیں مگر خواجہ محمد آصف نے انھیں جواب تک دینا پسند نہیں کیا' یقیناً فیصل صالح حیات کی بولی بھی لگ رہی ہو گی اور میرا خیال ہے فیصل صالح حیات بھی عصر کے وقت روزہ توڑنے کی غلطی نہیں کریں گے لیکن سوال یہ ہے کیا یہ طاقتور لوگ اس انکار کے بعد خاموش رہیں گے' میرا خیال ہے نہیں کیونکہ یہ لوگ اگر کامران فیصل کو انکار کی سزا دے سکتے ہیں تو یہ اپنے مفادات ہاتھیوں کے منہ سے گنا چھیننے کے جرم میں فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں' چنانچہ فیصل صالح حیات اور خواجہ آصف دونوں کو اپنی سیکیورٹی بڑھا دینی چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے خطرہ اب ان کی طرف بڑھ رہا ہو' یہ ظالم لوگ ہیں' یہ الیکشن سے قبل اس کیس کا فیصلہ نہیں ہونے دیں گے' خواہ انھیں کچھ بھی کرنا پڑے' جی ہاں '' کچھ بھی''۔