ورفعنا لک ذکرک
ہوتا یوں ہے کہ مدح مکمل نہیں ہوتی اور ورق تمام ہو جاتا ہے۔
ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اس عظیم ترین ہستی اور فخر انبیاء کی امت میں سے ہیں جن کے ذکر کو خود خالق کائنات نے وہ رفعت اور بلندی عطا کی جو اپنی مثال آپ ہے۔ آپؐ کی شان مبارک میں جس قدر نعتیں اور نعتیہ قصائد لکھے گئے ان کا عشر عشیر بھی ہبوط آدم سے اب تک کسی فرد واحد کو نصیب نہیں ہوا۔ آپؐ کے مدح گزاروں نے گزشتہ چودہ سو برس میں دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایک سے ایک نئے ڈھنگ سے نعت کا حق ادا کرنے کی کوششیں کی ہیں مگر ہوتا یوں ہے کہ مدح مکمل نہیں ہوتی اور ورق تمام ہو جاتا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جو اشعار بغیر کسی کوشش کے ذہن میں آ رہے ہیں انھیں درج کرنے کے لیے بھی یہ کالم تو کیا پورا اخباری صفحہ بھی کم پڑے گا اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی شعر غیرمسلموں کے کہے ہوئے ہیں اور وہ ان کی مدح پر اپنا حق اس طرح سے جتاتے ہیں کہ ''صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں۔''
برصغیر میں پہلے ہندوؤں اور بعد میں انگریزوں کے ساتھ ارتباط کی وجہ سے جنم دن' سالگرہ اور برتھ ڈے منانے کے رواج نے کچھ ایسا زور پکڑا کہ بعض احباب نے عید میلاد النبیؐ کے مبارک اور مقدس موقع اور تہوار کو بھی اس کی اصل روح سے ہٹ کر منانا شروع کر دیا۔ بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ یہ روش جدید مغربی انداز فکر رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ بعض مذہبی گروہوں میں بھی راہ پا گئی ہے جو کم ازکم میرے جیسے لوگوں کے نزدیک رسول کریمؐ کے شایان شان نہیں ہے۔ ان لوگوں کی دیکھا دیکھی اب ٹی وی چینلز نے بھی اسے تہذیب قلب ونظر اور تسکین روح کے بجائے زیادہ سے زیادہ اشتہار اکٹھے کرنے کا ذریعہ بنا دیا ہے اور یوں نبی مکرمؐ کی ذات مبارک کو بھی' جو تمام امت مسلمہ کا سرمایہ جاں ہے' فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اہل فکر ونظر اور مذہبی جماعتوں کے نمایندے مل کر بیٹھیں اور یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کریں کہ حضورؐ کے نزدیک ان کے اہل بیت اور صحابہ کرام علیہم الرضوان دونوں ہی دو آنکھوں کی طرح تھے جو کسی بھی چیز کو ہمیشہ مل کر اور ایک ہی طرح سے دیکھتی ہیں۔
اور اب نعت کے کچھ اشعار جو وقت' زبان' رنگ' نسل اور قوم ہر طرح کے لاحقے اور سابقے سے آزاد ہیں:
منظور تھی یہ شکل تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی
لوح بھی تو' قلم بھی تو' تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
محمدؐ کا جہاں پر آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزدں گذاشتم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دان محمدؐ است
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیں تو ہو
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفیٰ کے بعد
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
ادب گہہ ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میرے ہر شعری مجموعے کے آغاز میں کم از کم ایک نعت ضرور شامل رہی ہے۔ حمد ونعت کے مجموعے ''اسباب'' کی تقریباً 30 نعتیں ان کے علاوہ ہیں۔ آج کل میں تخلیقی حوالے سے بانجھ پن کے اس مخصوص دور سے گزر رہا تھا جو میرے علم کے مطابق مختلف حوالوں سے ہر شاعر کی زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ اس بنجر پن میں اس نعت نے بارش کے پہلے قطرے کا سا کام کیا ہے۔ سو آخر میں اسی کے چند اشعار' آقائے دوجہاںؐ کی خدمت میں' بہ صد خلوص واحترام:
جب جب رسولِ پاکؐ کے مہمان ہم ہوئے
کیا کیا نہ اپنے بخت پر حیران ہم ہوئے
آئے تھے اس جہان میں ہم آدمی مثال
انؐ کی نظر کے فیض سے انسان ہم ہوئے
ترتیب میں گو آخری امت ہے' آپؐ کی
لیکن کتابِ زیست کا عنوان ہم ہوئے
منظور تھی حضورؐ کی سنت کی پیروی
جب بھی کسی کے درد کا درمان ہم ہوئے
کھولیں کچھ ایسے آپؐ نے گرہیں حیات کی
مبہم سا ایک راز تھے' آسان ہم ہوئے
قابو کیا جو ان کی ہدایت پہ نفس کو
کل کے فقیر' آج کے سلطان' ہم ہوئے
ہے رب کائنات کی رحمت قدم قدم
یہ کس سخیؐ کے شہر میں مہمان ہم ہوئے
امجدؔ عطائے شانِ کریمی تو دیکھیے
کس واسطے سے صاحبِ ایمان' ہم ہوئے