الیکشن ہے تو پاکستان ہے
عرض ہے کہ آپ لوگ الیکشن سے کم کسی بات پر سمجھوتہ نہ کریں۔ صرف اور صرف الیکشن اسی میں بقا ہے۔
ABU DHABI:
ہر پاکستانی کی طرح میں بھی ایک انتہائی غیر یقینی کیفیت سے نڈھال ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ میرا کیا ہو گا حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ میں نے اپنے بچوں سے پیار کرنا بھی چھوڑ دیا ہے اور ان کے مستقبل کو نادیدہ قوتوں کے حوالے کر کے ایسی مایوسی کا شکار ہو گیا ہوں کہ اپنی عزیز ترین چیزوں سے بھی پیار کرنے کی ہمت نہیں پڑتی بلکہ ان پر ترس آتا ہے کہ نہ جانے اس ملک میں ان کا مستقبل کیا ہو گا اور انھیں ان کے بزرگوں کے گناہوں کی کتنی سزا ملے گی۔ وطن عزیز میں جن دو چار لوگوں کو میں قابل اعتماد اور احترام سمجھتا ہوں ان میں سے ایک چیف الیکشن کمشنر جناب فخر الدین جی ابراہیم ہیں۔
اس بے لوث اور بے پناہ پاکستانی نے کل ہی کہا ہے کہ انتخابات شفاف نہ ہوئے تو اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں۔ ملک کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا ذکر ایک ایسے پاکستانی سے سن کر جو بلاشبہ خالص پاکستانی ہے میری اندر کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی۔ جناب جج صاحب کی اس بات کو لیتا ہوں کہ اس ملک کے مستقبل بلکہ بقا کا انحصار شفاف الیکشن پر ہے۔ یعنی ایک تو الیکشن ہوں دوسرے شفاف بھی۔ میرے ذاتی اضطراب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرے خیال میں الیکشن شاید نہیں ہوں گے کیونکہ اگر الیکشن ہو گئے اور زیادہ نہیں تھوڑے بہت شفاف ہی سہی تو یہ ملک بچ جائے گا جو پڑوسی اور عالمی طاقتیں پاکستان کو بچتا نہیں دیکھ سکتیں وہ ان دنوں عروج پر ہیں اور پاکستان زوال پر۔ ایک عام پاکستانی اور بہت سے خواص بھی زندگی کی عام مروجہ سہولتوں مثلاً بجلی وغیرہ سے محروم ہو چکے ہیں۔
روٹی روز گار نہیں ہے لوگ بے گھر اور بھوکے ہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس ملک کے شہریوں پر یہ کیفیت طاری ہوئی ہے ورنہ کھانا پینا کبھی پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں رہا۔ گندم اب بھی فاضل ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی نیت میں فتور ہے کہ لوگ بھوکے ہیں۔ آج کی پاکستانی زندگی کی تفصیلات بہت تکلیف دہ ہیں اس لیے ان کا ذکر کرنے سے پرہیز ہی بہتر ہے ویسے کون پاکستانی ہے جس کو اپنی حالت کا علم نہیں ہے۔
وہ عالمی مالیاتی ادارے جو ہمارے جیسے چھوٹے ملکوں کو زبردستی قرضے دے کر ہمیں اپنے کنٹرول میں رکھا کرتے تھے اب ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے کہ ہمیں قابو میں رکھنے کے لیے قرض دیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ہم اس قرض کے بغیر اپنا بجٹ نہیں بنا سکیں گے۔ قوم کو اس بے پناہ اور ناقابل برداشت مایوسی سے نکالنے کا فوری طریقہ الیکشن ہیں جن سے قوم میں زندگی پر اعتماد پیدا ہو گا اور وہ اپنے ملک کو اس آباد دنیا کا ایک ملک سمجھنا شروع کر دے گی۔ کوئی مالیاتی ادارہ اسے ختم نہیں سمجھے گا۔
ہمارے چیف الیکشن کمشنر اگر انتخابات کو ملک کے مستقبل کے لیے لازم سمجھتے ہیں تو ان کی نگاہ بہت دور تک دیکھ رہی ہے اور یہ بھی کہ اس دنیا میں پاکستان کی حالت کیا ہے اور ایسی دنیا میں پاکستان کو بحال کرنے کے لیے الیکشن کیوں ضروری ہیں۔ جب ملک میں انتخابات ہوں گے تو یہ اس بات کا اعلان ہوں گے کہ یہ ملک زندہ ہے اور اس کی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں یہ سب جانتی ہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کے انعقاد کے بارے میں شک ظاہر کرتی رہتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اس قومی غربت اور فقیری کے باوجود اربوں روپوں کی لاگت سے ایک بہت بڑا تماشا کیا گیا۔ اس ڈرامے کا مرکزی نکتہ الیکشن کا التوا تھا۔ ہمارے آئین کی ایسی ایسی دفعات یاد دلائی جا رہی تھیں جن پر الیکشن سے قبل فوری کارروائی صریحاً الیکشن کا التواء تھی۔ مریض ایک چھوٹے آپریشن سے بچ سکتا تھا لیکن اس کے مرض کے لیے ایک بڑے آپریشن کا مطالبہ کیا گیا تاکہ جانبر نہ ہو سکے۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن ملتوی کرنے کی عالمی کوششوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ مداریوں کو بھی میدان میں اتارا جا رہا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اس کی پذیرائی اس لیے ہوئی کہ ہماری موجودہ برسرکار قیادت نے ملک اور قوم کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اس کے ردعمل میں عمران خان کا جلسہ بے پناہ تھا اور اب قادری کا بھی، وجہ صرف اور صرف بری اور ملک دشمن حکومت کے پیدا کردہ مصائب سے نجات تھی کہ شاید کوئی عمران کوئی قادری یہ کام کر دکھائے۔
عمران کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ایک کامیاب اور صرف پاکستانی ہے لیکن یہ مرد ناگہاں وہ بھی نصف پاکستانی کہاں سے ٹپک پڑا۔ اربوں روپے لے کر قوم کا سودا کرنے آیا۔ بھوکی ننگی مایوس اور پریشان قوم اس کا تماشا بھی دیکھنے لگی۔ اب اس قوم کا اس بندگلی اور مداریوں سے باہر نکلنے کا راستہ صرف الیکشن ہے۔ الیکشن کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا آزادانہ اختیار ہو گا۔ وہ جسے چاہیں منتخب کریں اور جسے چاہیں مسترد کر دیں بس یہی اختیار اس قوم کی نئی زندگی کی نوید ہے۔
اس وقت جو حکمران مسلط ہیں وہ ہمارے اشرافیہ عرف بدمعاشیہ کی کامیاب سازش ہیں۔ عوام بے بس بے شعور اور جذباتی تھے جس کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا لیکن یہ عجیب لوگ تھے انھوں نے تو ملک کو اتنا لوٹا کہ اس کی ہڈیاں تک بھی چبا ڈالیں۔ اب یہ ملک ایک ڈھانچہ ہے ۔جس کسی کی رشوت کا ذکر آتا ہے تو وہ اربوں میں ہوتا ہے۔ لوگ تعجب کرتے ہیں کہ کیا ان کا ملک اتنا رئیس تھا کہ اس کے رشوت خور بھی اربوں میں کھیلتے رہے اور دلچسپ یا عبرت ناک صورتحال یہ ہے کہ یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں محاورتاً نہیں حقیقتاً سب ننگے ہیں الف ننگے۔
یہ سب میری پریشان خیالی ہے جو مجھے ایک موضوع سے دوسرے کی طرف کھینچ لے جاتی ہے اور اس سے نجات کا واحد راستہ بھی الیکشن ہے جسے ہمارے چیف الیکشن کمشنر ملک کی بقا کا راستہ قرار دیتے ہیں۔ اس لیے عرض ہے کہ آپ لوگ الیکشن سے کم کسی بات پر سمجھوتہ نہ کریں۔ صرف اور صرف الیکشن اسی میں بقا ہے۔
ہر پاکستانی کی طرح میں بھی ایک انتہائی غیر یقینی کیفیت سے نڈھال ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ میرا کیا ہو گا حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ میں نے اپنے بچوں سے پیار کرنا بھی چھوڑ دیا ہے اور ان کے مستقبل کو نادیدہ قوتوں کے حوالے کر کے ایسی مایوسی کا شکار ہو گیا ہوں کہ اپنی عزیز ترین چیزوں سے بھی پیار کرنے کی ہمت نہیں پڑتی بلکہ ان پر ترس آتا ہے کہ نہ جانے اس ملک میں ان کا مستقبل کیا ہو گا اور انھیں ان کے بزرگوں کے گناہوں کی کتنی سزا ملے گی۔ وطن عزیز میں جن دو چار لوگوں کو میں قابل اعتماد اور احترام سمجھتا ہوں ان میں سے ایک چیف الیکشن کمشنر جناب فخر الدین جی ابراہیم ہیں۔
اس بے لوث اور بے پناہ پاکستانی نے کل ہی کہا ہے کہ انتخابات شفاف نہ ہوئے تو اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں۔ ملک کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا ذکر ایک ایسے پاکستانی سے سن کر جو بلاشبہ خالص پاکستانی ہے میری اندر کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی۔ جناب جج صاحب کی اس بات کو لیتا ہوں کہ اس ملک کے مستقبل بلکہ بقا کا انحصار شفاف الیکشن پر ہے۔ یعنی ایک تو الیکشن ہوں دوسرے شفاف بھی۔ میرے ذاتی اضطراب کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میرے خیال میں الیکشن شاید نہیں ہوں گے کیونکہ اگر الیکشن ہو گئے اور زیادہ نہیں تھوڑے بہت شفاف ہی سہی تو یہ ملک بچ جائے گا جو پڑوسی اور عالمی طاقتیں پاکستان کو بچتا نہیں دیکھ سکتیں وہ ان دنوں عروج پر ہیں اور پاکستان زوال پر۔ ایک عام پاکستانی اور بہت سے خواص بھی زندگی کی عام مروجہ سہولتوں مثلاً بجلی وغیرہ سے محروم ہو چکے ہیں۔
روٹی روز گار نہیں ہے لوگ بے گھر اور بھوکے ہیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس ملک کے شہریوں پر یہ کیفیت طاری ہوئی ہے ورنہ کھانا پینا کبھی پاکستانیوں کا مسئلہ نہیں رہا۔ گندم اب بھی فاضل ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی نیت میں فتور ہے کہ لوگ بھوکے ہیں۔ آج کی پاکستانی زندگی کی تفصیلات بہت تکلیف دہ ہیں اس لیے ان کا ذکر کرنے سے پرہیز ہی بہتر ہے ویسے کون پاکستانی ہے جس کو اپنی حالت کا علم نہیں ہے۔
وہ عالمی مالیاتی ادارے جو ہمارے جیسے چھوٹے ملکوں کو زبردستی قرضے دے کر ہمیں اپنے کنٹرول میں رکھا کرتے تھے اب ہمیں اس قابل نہیں سمجھتے کہ ہمیں قابو میں رکھنے کے لیے قرض دیں۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ ہم اس قرض کے بغیر اپنا بجٹ نہیں بنا سکیں گے۔ قوم کو اس بے پناہ اور ناقابل برداشت مایوسی سے نکالنے کا فوری طریقہ الیکشن ہیں جن سے قوم میں زندگی پر اعتماد پیدا ہو گا اور وہ اپنے ملک کو اس آباد دنیا کا ایک ملک سمجھنا شروع کر دے گی۔ کوئی مالیاتی ادارہ اسے ختم نہیں سمجھے گا۔
ہمارے چیف الیکشن کمشنر اگر انتخابات کو ملک کے مستقبل کے لیے لازم سمجھتے ہیں تو ان کی نگاہ بہت دور تک دیکھ رہی ہے اور یہ بھی کہ اس دنیا میں پاکستان کی حالت کیا ہے اور ایسی دنیا میں پاکستان کو بحال کرنے کے لیے الیکشن کیوں ضروری ہیں۔ جب ملک میں انتخابات ہوں گے تو یہ اس بات کا اعلان ہوں گے کہ یہ ملک زندہ ہے اور اس کی قوم زندہ رہنا چاہتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں یہ سب جانتی ہیں لیکن اس کے باوجود الیکشن کے انعقاد کے بارے میں شک ظاہر کرتی رہتی ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اس قومی غربت اور فقیری کے باوجود اربوں روپوں کی لاگت سے ایک بہت بڑا تماشا کیا گیا۔ اس ڈرامے کا مرکزی نکتہ الیکشن کا التوا تھا۔ ہمارے آئین کی ایسی ایسی دفعات یاد دلائی جا رہی تھیں جن پر الیکشن سے قبل فوری کارروائی صریحاً الیکشن کا التواء تھی۔ مریض ایک چھوٹے آپریشن سے بچ سکتا تھا لیکن اس کے مرض کے لیے ایک بڑے آپریشن کا مطالبہ کیا گیا تاکہ جانبر نہ ہو سکے۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان میں الیکشن ملتوی کرنے کی عالمی کوششوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ مداریوں کو بھی میدان میں اتارا جا رہا ہے اور یہ سب کو معلوم ہے کہ اس کی پذیرائی اس لیے ہوئی کہ ہماری موجودہ برسرکار قیادت نے ملک اور قوم کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ اس کے ردعمل میں عمران خان کا جلسہ بے پناہ تھا اور اب قادری کا بھی، وجہ صرف اور صرف بری اور ملک دشمن حکومت کے پیدا کردہ مصائب سے نجات تھی کہ شاید کوئی عمران کوئی قادری یہ کام کر دکھائے۔
عمران کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ایک کامیاب اور صرف پاکستانی ہے لیکن یہ مرد ناگہاں وہ بھی نصف پاکستانی کہاں سے ٹپک پڑا۔ اربوں روپے لے کر قوم کا سودا کرنے آیا۔ بھوکی ننگی مایوس اور پریشان قوم اس کا تماشا بھی دیکھنے لگی۔ اب اس قوم کا اس بندگلی اور مداریوں سے باہر نکلنے کا راستہ صرف الیکشن ہے۔ الیکشن کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانیوں کو اپنی قیادت منتخب کرنے کا آزادانہ اختیار ہو گا۔ وہ جسے چاہیں منتخب کریں اور جسے چاہیں مسترد کر دیں بس یہی اختیار اس قوم کی نئی زندگی کی نوید ہے۔
اس وقت جو حکمران مسلط ہیں وہ ہمارے اشرافیہ عرف بدمعاشیہ کی کامیاب سازش ہیں۔ عوام بے بس بے شعور اور جذباتی تھے جس کا بھرپور فائدہ اٹھایا گیا لیکن یہ عجیب لوگ تھے انھوں نے تو ملک کو اتنا لوٹا کہ اس کی ہڈیاں تک بھی چبا ڈالیں۔ اب یہ ملک ایک ڈھانچہ ہے ۔جس کسی کی رشوت کا ذکر آتا ہے تو وہ اربوں میں ہوتا ہے۔ لوگ تعجب کرتے ہیں کہ کیا ان کا ملک اتنا رئیس تھا کہ اس کے رشوت خور بھی اربوں میں کھیلتے رہے اور دلچسپ یا عبرت ناک صورتحال یہ ہے کہ یہ ایک ایسا حمام ہے جس میں محاورتاً نہیں حقیقتاً سب ننگے ہیں الف ننگے۔
یہ سب میری پریشان خیالی ہے جو مجھے ایک موضوع سے دوسرے کی طرف کھینچ لے جاتی ہے اور اس سے نجات کا واحد راستہ بھی الیکشن ہے جسے ہمارے چیف الیکشن کمشنر ملک کی بقا کا راستہ قرار دیتے ہیں۔ اس لیے عرض ہے کہ آپ لوگ الیکشن سے کم کسی بات پر سمجھوتہ نہ کریں۔ صرف اور صرف الیکشن اسی میں بقا ہے۔