ان آنکھوں نے کیا کیا نہ دیکھا

خواب ،خواہشیں اور تمنائیں شایدپھر پوری نہ ہوسکیں اور ایک کی جگہ دوسری مافیا کا اقتدارمزید پانچ برس بھگتنا پڑے۔


Muqtida Mansoor January 23, 2013
[email protected]

KARACHI: طلبا سیاست سے صحافت تک ان45برسوں کے دوران بہت کچھ ہوتے دیکھا ہے ۔ ان گنت خواب بنتے اور بکھرتے دیکھے ہیں ۔ بہت سی آرزوئوں اور تمنائوں کو ملیامیٹ ہوتے دیکھا ہے ۔ ہزاروں خواہشوں پہ دم نکلتے دیکھا ہے۔ مگر وطن عزیز میں وہی ڈھاک کے تین پات ، یعنی اہل حکم کی وہی سرمستیاں، اہل سیاست کی وہی نیرنگیاں اور عوام کی وہی لاچارگیاں ۔ گویا کچھ بھی نہیں بدلا اس نصف صدی کے دوران۔ بلکہ اگر یہ کہیں کہ لوگوں کا سکون مزید غارت ہوا اور ان کی زندگیاں مزید اجیرن ہوئیں، تو غلط نہ ہوگا ۔ کیونکہ آمریت ہو یا جمہوریت کسی نے بھی عام آدمی کی حالت زار پر توجہ دینے اور اس میں بہتری لانے کے لیے کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

ان آنکھوں نے ہوش سنبھالتے ہی ایوب خانی آمریت دیکھی۔جبر و استبداد کا دور دیکھا۔ سیاست اور سیاستدانوں کو رسوا ہوتے دیکھا ۔ استحصالی قوتوں کو مضبوط ہوتے دیکھا ۔بنگالی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو دیکھا ۔ پھر ایوب خان کے خلاف نیشنل عوامی پارٹی سے جماعت اسلامی تک ہر نظریہ، ہر مکتبہ فکر کی سیاسی جماعتوںکو مادر ملت کی قیادت میں متحد ہوتے دیکھا ۔ان امیدوں اور آرزوئوں کو دیکھا، جو لوگوں کے سینے میں کلبلا رہی تھیں۔

انتخابات میں دھاندلی کا وہ منظر بھی دیکھا کہ تمام تر مقبولیت کے باوجود بابائے قوم کی بہن سوائے کراچی، ڈھاکہ اور سہلٹ کسی جگہ سے کامیابی حاصل نہ کرسکیں ۔ مجھے سکھر میں ہونے والا وہ جلسہ بھی آج تک یاد ہے، جس میں حبیب جالب نے لہک لہک کر اپنی نظم "بیس روپئیے من آٹا، پھر بھی گلیوں میں سناٹا"پڑھی ۔ مگر حبیب جالب کا یہ شکوہ بھی آٹے کی بڑھتی قیمت کو نہ روک سکا، جو12 روپے سے آج40روپئے کلو بک رہا ہے اور نہ جانے کہاں جاکر رکے۔1965ء کی جنگ اور ایوب خان کے اعصاب مضمحل ہوتے دیکھے ۔ کراچی سے چٹاگانگ اور کوئٹہ سے سلہٹ تک عوامی ریلے دیکھے ۔طلبا تحریک کی طغیانی دیکھی ۔ یحییٰ خان کا مارشل لاء اور اس کے نتیجے میں ملک کو بکھرتے اور سقوط ڈھاکہ ہوتے دیکھا۔

سولہ برس کی عمر میں پیپلز پارٹی کو بنتے دیکھا ۔اس کے منشور سے بجھی آنکھوں میں امید کے دیے روشن ہوتے دیکھے تھے ۔سندھ سے پنجاب تک عوام کاوہ سیلابِ بے کراں دیکھا، جو اچھے مستقبل خواہش میں اس جماعت پر وارفتگی کے عالم میں نثار ہورہا تھا ۔ ان خوابوں کو محسوس کیا، جو غریبوں، فاقہ کشوں اور مفلوک الحال لوگوں نے اپنی آنکھوں میں سجا رکھے تھے ۔اس وقت ایسا لگتا تھا گویا انقلاب دروازے پہ دستک دے رہا ہے ۔ پھر ان آنکھوں نے 1970ء کا الیکشن دیکھا، جس میں بڑے بڑے بت گرتے اور برج الٹتے دیکھے ۔ مگر جلد ہی اندازہ ہوا کہ سب کچھ سراب تھا اور کچھ بھی نہ بدلا تھا۔

کیونکہ مختار رانا کی بے بسی ، شیخ محمد رشید مرحوم کی لاچارگی، جے اے رحیم کی بے عزتی اور ان گنت مخلص کارکنوں کو دربدری نے سب کچھ عیاں کردیا تھا۔ عوامی کہلانے والی حکومت نے پختونخواہ اور بلوچستان کی منتخب حکومتوں کا خاتمہ اور بلوچستان میں بلا جواز فوجی آپریشن کرکے ملک غلام محمد، اسکندرمرزا اور ایوب خان کے دور کی یاد تازہ کردی۔ لیکن یہ پھربھی احساس تھا کہ منتخب حکومت ہے، اسلیے اسے چلنا چاہیے ۔ مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ کیونکہ انھیں آنکھوں نےPNA کا تماشہ دیکھا۔فلک کہن نے مختلف مزاج کے نو ستاروں کا زمیں پہ ملن دیکھا۔یہ کس کے اشارے پہ تھا کس کی شہ پہ تھا، آج سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہوچکا ہے ۔ ان آنکھوں نے بھٹو کے خلاف ایجی ٹیشن کو اس مقام تک پہنچتے دیکھا ، جہاں سے واپسی ممکن نہیں تھی اور منطقی انجام مارشل لا تھا۔ مگر کوئی کچھ سننے اور سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔

ان آنکھوں نے90دن کے وعدے پر گیارہ برس تک اقتدار سے چمٹے رہنے اور منتخب وزیر اعظم کے سولی چڑھنے کا منظر دیکھا ۔ ملک میں افقی اور عمودی تقسیم کو گہرا ہوتے دیکھا ۔ ڈالروں کی جھنکار میں کفر واسلام کا معرکہ دیکھا اورجہاد کے نام پر امریکا کی جنگ دیکھی۔ منشیات کا پھیلائو،اسلحہ کے انبار اور جنگجو جتھوں کو مضبوط ہوتے دیکھا۔ فرقہ واریت اور لسانیت کو پروان چڑھتے اورمتشدد شکل اختیار کرتے دیکھا۔ سیاسی جماعتوں کی منافقانہ خاموشی دیکھی ۔ ملک کی معیشت کو تباہ ہوتے مگر حکمرانوں کے ساتھ مذہبی جماعتوں کو مالدار ہوتے دیکھا ۔ مذہبی جماعتوں کواپنے حجم سے بڑھ کر پالیسی سازی پہ حاوی ہوتے دیکھا۔

اس کے بعد گیارہ برسوں کے دوران چار منتخب حکومتوں کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ۔ سیاستدانوں کی نااہلی کے تماشے اور ایجنسیوں کا کھیل دیکھا ۔ بنتے بگڑتے سیاسی اتحاد دیکھے اور اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت دیکھی ۔ ان آنکھوں نے 1997ء میں میاں نواز شریف کا بھاری مینڈیٹ اور پھر خلیفۃ المسلمین بننے کی خواہش دیکھی ، جو چودھویں اور پندھرویں ترامیم کے ذریعہ اس ملک پرمستقلاً مسلط ہونا چاہتے تھے۔ان آنکھوں نے پرویز مشرف کی نئی طرز کی آمریت دیکھی۔ سیاسی جماعتوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے ان کا سواگت دیکھا۔ان کے دور میں میڈیا کی مادر پدر آزادی دیکھی ۔ ان آنکھوں نے ملک کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت ہوتے دیکھا، مگر اقتدار کی منزل قریب آئی تو اس کی دھجیاں بکھرتے بھی دیکھا ۔ یہ عالم بھی دیکھا کہ ایک طرف میثاق جمہوریت پر دستخط ہو رہے ہیں ، تو دوسری طرفNRO کے تحت معاملات طے ہوتے دیکھے ۔

اب ان پانچ برسوں سے جو کچھ دیکھ رہے ہیں ، وہ پچھلے40برس میں کبھی نہ دیکھا تھا ۔ ٹیکس چوروں، جعلساز،خائن اور بددیانت افراد کو اسمبلیوں میں دیکھ رہے ہیں ۔ بری حکمرانی اور کرپشن کی انتہاء دیکھ رہے ہیں۔عوام کی جان ومال، عزت وآبرولٹتے دیکھ رہے ہیں۔خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں بے گناہ لوگوں کابہتا ہوا خون دیکھ رہے ہیں۔حد سے بڑھی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی دیکھ رہے ہیں۔جرائم کا نا ختم ہونے والاسلسلہ دیکھ رہے ہیں۔بجلی اور گیس کابدترین بحران دیکھ رہے ہیں۔ریلوے سمیت مختلف قومی اداروں کی زبوں حالی اور ان کی تباہی دیکھ رہے ہیں ۔ مفاہمت کے نام پر کرپشن کا گرم بازار دیکھ رہے ہیں۔ترقیاتی فنڈ اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی جیبوں میں جاتا دیکھ رہے ہیں۔غلط معاشی پالیسیوں کے سبب ملک پر قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ دیکھ رہے ہیں۔روپے کی قدر کوملیامیٹ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

اب جب کہ انتخابات قریب ہیں سیاسی جوڑ توڑ کا نیا منظر دیکھ رہے ہیں۔ ہر بڑی جماعت کوElectablesکے پیچھے بھاگتے اور اسے توڑتے دیکھ رہے ہیں۔نظریات، اصول اور منشور سب پس پشت جاچکے ہیں۔شخصیات کا سحر ایک بارپھر سر چڑھ کے بولتے دیکھ رہے ہیں ۔ جمہوریت کے نام پہ جمہوریت کا قتل دیکھ رہے ہیں ۔آج صنعتیں بند ہو رہی ہیں ، سرمایہ بیرون ملک منتقل ہو رہاہے، جس سے روزگار مزید سکڑ رہاہے۔عالمی مالیاتی ادارے قرض ری شیڈول کرنے اور نیا قرض جاری کرنے پر تیارنہیں ہیں ۔

امریکا ڈرون حملے بند کرنے پر آمادہ نہیں ہے ۔ مگر نظام میں بہتری لانے اور ملک کو صحیح ڈگر پر چلانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کے بجائے حصول اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ اصلاحات کی مخالفت اور اصلاحات کی بات کرنے والوں پر تیر تفنگ کی بارش ہورہی ہے ۔ اگلے انتخابات میں ایک مراعات یافتہ طبقہ کی جگہ دوسرے مراعات یافتہ طبقے کو بٹھانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ مگر نوشتہ دیوار پڑھنے اور اس نظام کے خلاف عوام میں پیداہونے والی بیگانگی اور اکتاہٹ کو محسوس کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں کے جو روئیے اور طرز سیاست ہے اور جس طرح کی محلاتی سازشیں ہورہی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسوقت ملک جن طوفانوں میں گھرا ہے ، ان سے نکلنے کی توقع فی الحال عبث ہے ۔ کسی بھی جماعت میں یہ نہ صلاحیت ہے اور نہ اہلیت کہ موجودہ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے وہ اس ملک کو بحرانوں کی گرداب سے نکال سکے۔ اس کے برعکس سول سوسائٹی اور متوشش شہریوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی یہ سمجھتی ہے انتخابات کو التواء کا شکار کیے بغیر انتخابات سے متعلق آئینی شقوں پر عمل درآمد کو یقینی اور الیکشن کمیشن کو مزید بااختیار بنانے سے نظام میں بہتری کاامکان ہے ۔

مگراس کے راستے میں ملک کی دوبڑی سیاسی جماعتیں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں ۔ کیونکہ اس طرح انElectableکا منتخب ہونا مشکل ہوجائے گا، جن پر یہ جماعتیں تکیہ کیے ہوئے ہیں ۔ اسلیے یہی خدشہ ہے کہ یہ آنکھیں45 برس سے جو کھیل دیکھتی چلی آرہی ہیں ، وہ جاری رہے گا اورآنکھوں میں سجے خواب اور دل میں انگڑائی لیتی خواہشیں اور تمنائیں شاید ایک بار پھر پوری نہ ہوسکیں اور ایک مافیا کی جگہ دوسری مافیا کا اقتدار روتے دھوتے مزید پانچ برس بھگتنا پڑے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔