دوسروں کے واسطے زندہ رہنے والے
کاش! انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنے والوں میں کسی مسلمان کا کسی پاکستانی کا نام بھی شامل ہوتا.
رینٹل پاور کیس کے تفتیشی افسر کامران فیصل کی موت نے بہت سے سوالوں کو جنم دے دیا ہے، ایک طرف پولی کلینک کے ڈاکٹروں کی چھ رکنی ٹیم کے بیانات کہ متعلقہ افسر نے خودکشی کی ہے اور دوسری طرف ان کے والد اور عزیزوں کے بیانات کہ زخم کے نشانات تھے، کمر پر کھرونچوں کے نشانات ہیں، ان کا لیپ ٹاپ بھی غائب ہے، بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے، رینٹل پاور کیس میں راجہ جی کو سپریم کورٹ کا بھی سامنا ہے۔ ایک اور تفتیشی افسر حماد رضا بھی غیر طبعی موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں اس قسم کے واقعات کوئی نئی بات نہیں۔
اصغر خاں صاحب کے صاحبزادے عمر اصغر کی پراسرار موت کا معمہ بھی آج تک حل نہیں ہوا۔ کئی صحافی بھی اس طرح مارے جاچکے ہیں۔ صحافی سلیم شہزاد بھی ایک ٹی وی پروگرام میں کچھ ''انکشافات'' کرنے جارہے تھے لیکن خفیہ طاقتوں نے انھیں ٹیلی ویژن اسٹیشن کے بجائے نہر کی گہرائی میں پہنچادیا۔ یہ سب واقعات بہت پرانے نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ خوب شور مچتا ہے اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ نیوز چینل کو کوئی اور خبر بریکنگ نیوز کے طور پر مل جاتی ہے۔ وہ خوب اسے گنے کی طرح نچوڑتے ہیں تا وقتیکہ کوئی نیا گنا مشین کے لیے نہ مل جائے۔ تمام شواہد اس بات کے ہیں کہ کامران فیصل نے خودکشی نہیں کی۔ اگر ان کی زندگی میں اتنا برا ہوتا تو وہ اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو میں اپنی فیملی کے لیے مکان کا بندوبست نہ کرتے، وہ دباؤ میں آنے والے انسان بھی نہیں تھے اور اس بدنام کیس سے الگ بھی ہونا چاہتے تھے، لیکن وہ بکاؤ نہیں تھے۔
دل تو چاہتا ہے کہ پورا کالم اس ظلم و بربریت پر لکھوں کہ کوئی شخص جب ملکی مفاد میں کسی کرپشن کو سامنے لانا چاہتا ہے تو اس کا مقدر پراسرار اور غیر طبعی موت ہی کیوں ہوتی ہے؟ پاکستان پر جن طاغوتی طاقتوں کا راج ہے ان کے نام اور کام سب کو پتہ ہیں، خالد شہنشاہ کیوں مارا گیا؟ رحمن ڈکیت کو کس نے اور کیوں راستے سے ہٹایا؟ ان دونوں کے پاس ایسے کون سے راز تھے جن کے افشاء ہونے کا ڈر کسی کو تھا؟ اور۔۔۔۔۔اور کامران فیصل کس کے لیے خطرہ بن سکتے تھے؟ بس اتنا ہی کہوں گی کہ قاتلوں نے دستانے بھی نہیں پہنے ہوئے ہیں البتہ وہ اس قتل سے دیگر ان لوگوں کو جو رینٹل پاور کیس سے جڑے ہیں ایک ''پیغام'' دینا چاہتے ہیں کہ جو بھی اس کرپشن کو بے نقاب کرنے کی کوشش کرے گا، اس کا انجام بھی کچھ مختلف نہیں ہوگا، شیطانی قوتیں اس لیے کامیاب ہو رہی ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگ اپنے ذاتی فائدے کے لیے ان قوتوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے رہے ہیں۔ دن بدن طاغوتی طاقتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ جھوٹ اور بدعنوانیوں کا بول بالا ہے۔ صرف توقیر صادق جیسے لوگوں کے لیے زندگی عیش و عشرت کا جھولا ہے۔
چلیں اس خبر کو چھوڑیئے، لیکن ایک اور خبر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، شاید میری طرح ہر حساس انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا، خبر دنیا کے امیر ترین انسان مائیکروسافٹ کمپنی کے مالک ولیم ہنری بل گیٹس سے متعلق ہے، جس نے کہا ہے کہ ان کی نظر میں دولت کی اب کوئی اہمیت نہیں رہ گئی، کیونکہ یہ دولت انھیں اب مزید فائدہ نہیں پہنچاسکتی، وہ چاہتے ہیں کہ وہ دولت جو انھوں نے اپنی ذہانت اور قوت بازو سے کمائی ہے وہ اب بنی نوع انسان کے کام آئے، وہ اپنی دولت اب پولیو جیسے مہلک مرض کے خاتمے کے لیے خرچ کرنا چاہتے ہیں، بل گیٹس پہلے ہی 28 ارب ڈالر انسانی فلاح و بہبود پر خرچ کرچکے ہیں، گذشتہ سال کئی اور ارب پتی لوگوں نے بل گیٹس کے ساتھ خود کو اور اپنی دولت کو انسانی بھلائی کے لیے مختص کرکے اس نیک دل انسان کے کام کو آگے بڑھایا اور اسی خبر کے تناظر میں چند دن پہلے چشتیاں کی ایک خبر بڑی تکلیف دہ تھی کہ (ن) لیگ کے ایک رکن قومی اسمبلی نے اپنے بھائی کی شادی کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیا۔ بارات صرف آٹھ کلومیٹر دور سے آئی تھی جس کے لیے ہیلی کاپٹر حاصل کیا گیا۔ اور ہیلی کاپٹر سے پچاس لاکھ کی رقم دولہا پر نچھاور کرکے نیچے پھینکی گئی۔ میاں صاحبان خصوصاً شہباز شریف نے اس خبر کا تو کوئی نوٹس نہیں لیا، البتہ ان کی جانب سے تحفے کے ساتھ بھیجا جانے والا دعائیہ کارڈ ضرور ٹیلی ویژن اسکرین پر دکھایا گیا۔
ہیلی کاپٹر سے پچاس لاکھ کی رقم نچھاور کرنا دراصل پاکستانی سیاست اور جاگیردارانہ کلچر کا چہرہ ہے ۔ انتہا پسند عناصر صرف یہی کرسکتے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر ہونے والے حملوں کو جائز قرار دیں تاکہ آیندہ اس خطے میں پولیو زدہ نسلیں پیدا ہوتی رہیں۔ باقی باتوں کو تو جانے دیجیے کہ تمام تر سائنسی ایجادات کے خالق کون ہیں، صرف انسانی بھلائی کے حوالے سے کبھی کسی پاکستانی کا نام سامنے آیا ہے؟ رکن اسمبلی اگرپچاس لاکھ کی رقم 100 گھرانوں میں مبلغ پچاس ہزار فی گھر خیرات کے طور پر ہی تقسیم کردیتے تو کیا بہتر نہ ہوتا؟ ہوسکتا ہے اس 50 ہزار سے کسی گھر میں کوئی بیمار صحت یاب ہوجاتا، کوئی طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرلیتا، کسی گھر میں بیٹے یا بیٹی کی شادی میں مدد مل جاتی، کسی کا ٹوٹا ہوا گھر بن جاتا، لیکن وہ ایسا کیوں کریں گے؟ اگر ایسا نہ کرتے تو وہ ہیلی کاپٹر کیونکر توجہ کا مرکز بنتا جو نوٹ نچھاور کر رہا تھا۔ یہ اور ان جیسے دوسرے ارکان اسمبلی جانتے ہیں کہ جو جاگیرداری اور چوہدراہٹ کا سسٹم اس ملک میں پروان چڑھ رہا ہے، وہاں ایسے مناظر ان لوگوں کا قد کاٹھ اور بڑھا دیتے ہیں۔ مسکین، غریب غربا، ہاری، کمی کاری منتظر رہیں کہ اور دعا کریں کہ اگلی بار کسی شادی میں وہ ایک کروڑ کی رقم نچھاور کریں اور جمبو جیٹ میں برات لائیں۔ کیونکہ موجودہ حکمرانوں کی پوری کوشش ہے کہ صرف دو طبقے زندہ رہیں، ایک رقم نچھاور کرنے والے اور دوسرے انھیں لوٹنے والے۔ باضمیر اور ایماندار لوگوں پر زندگی اس حد تک تنگ کردی جائے کہ وہ یا تو لوٹ کھسوٹ میں حکمرانوں کا ساتھ دیں یا پھر نوٹ لوٹنے والے بن جائیں۔
اسلام میں دولت جمع کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، اللہ کا فرمان ہے کہ دولت کو انسانوں کی بھلائی کے لیے اور دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے خرچ کرو، وہ اتنی ہی بڑھتی ہے۔قارون اپنے خزانے سمیت زمین میں دفن ہوگیا۔ لیکن آج کے زمانے کے لاتعداد قارونوں کے لیے خدا جانے کب عذاب نازل ہوگا۔ دن بدن ان کی تعداد بڑھتی جارہی ہے لیکن قدرت خاموش ہے۔ مگر کیوں؟ کہیں یہ کوئی وارننگ تو نہیں ہے؟
کاش! انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنے والوں میں کسی مسلمان کا کسی پاکستانی کا نام بھی شامل ہوتا، لیکن ایسا کبھی ہوگا نہیں۔ سعودی شہزادے نے حال ہی میں اپنے ذاتی استعمال کے لیے جس جمبو جیٹ کی تیاری کا حکم دیا ہے اس میں دنیا کی ہر سہولت اور عیش کا تمام سامان موجود ہے، یہ دنیا کا سب سے قیمتی طیارہ ہوگا۔ لیکن مغرب میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا کے بیچوں بیچ اسرائیل بتیس دانتوں کے بیچ زبان کی طرح موجد ہے۔ کیونکہ اسرائیلی اپنی قوم سے اور وطن سے وفادار ہیں جب کہ مسلمان اور پاکستانی صرف اپنے اور اپنے خاندان کے لیے زندہ رہتے ہیں۔ ساری طاقت، سارا زور طاقت حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے تاکہ اقتدار حاصل کرکے اپنی چودہ پشتوں کے لیے زروجواہر جمع کرلیے جائیں۔ ملک کی دولت لوٹ لی جائے، جو اس راستے میں آئے اسے نیست و نابود کردیا جائے، تمام دنیا کی دولت حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جائے، اور قبر میں جاتے وقت اعمال نامے میں صرف سانپ بچھو اور حشرات الارض ساتھ ہوں،روزقیامت ان عذابوں،زیادتیوں،کرپشن، بدعنوانیوں، لوٹ مار، قتل و غارت گری ہر چیز کا حساب دینا پڑے گا۔ تب۔۔۔۔! لیکن اتنا سوچتا کون ہے؟ ہماری تباہی کی جڑ یہی رویہ ہے جس میں سب سے اہم صرف اپنی ذات ہے۔