سیاست جاگیرداری نظام اور انتخابی حلقے

الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ اخراجات کرنے کی صورت میں کوئی بھی امیدوار کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔


سید خورشید علی January 23, 2013

پاکستان کی مختصر تاریخ سیاسی اتار چڑھائو کے کئی ادوار سے عبارت ہے جو کہ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس وقت جہاں پاکستان میں امن و امان کی صورتحال مخدوش اور گھمبیر ہے۔ ساتھ ساتھ پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ بھی غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے۔ ہر لمحہ صورتحال بدل رہی ہے۔ ارتقاء پذیر معاشروں میں اس طرح کی صورتحال کئی ممالک میں موجود رہی ہے جہاں مختلف ادوار میں اختیارات کی رسہ کشی ہوئی مگر وہ اس تصادم کی فضا کے اسباب جاننے کے بعد ایسا لائحہ عمل متعین کرنے میں کامیاب رہے جس سے وہ اس تصادم سے نکل کر اپنے ملک و قوم کو ترقی کی راہ پرگامزن کر سکیں۔

موجودہ صورتحال پر ملک کے تقریباً تمام ہی دانشور اور سیاسی رہنما اظہارِ خیال کرتے رہے ہیں اور اپنے نقطہ نظر کی سچائی ثابت کرنے کے لیے دلائل کے ساتھ اپنے گلے کی طاقت کا بھی برملا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ پاکستان کا سیاسی ڈھانچہ اپنے ارتقائی مراحل طے کر رہا ہے او ر ماضی کے مشہور جملے گھوڑے پر سوار آدمی کی نفسیات سے بھی نبرد آزما ہو رہا ہے لیکن دنیا کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور خاص طور پر پاکستان کی معاشی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ موجودہ تصادم کی فضا کا تحقیقی بنیادوں پر جائزہ لے کر قائدین کرام اس میں سے کامیابی سے نکلنے کا راستہ جلد طے کر لیں۔ ملک میں ہزار خامیاں رکھنے والی لیکن بہرحال جمہوریت موجود ہے۔

اس نسخۂ کیمیاء کو ہر گھڑی خطرے میں قرا ر دے کر ایک بڑا اور اکثریتی طبقہ تمام مسائل کا واحد حل قرار دیتے ہوئے بچانے کی بات کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت صرف بظاہر ایک نظام حکومت نظر آتا ہے جو کہ اپنی اصلی روح سے خالی ہے۔ اس کے برعکس آمرانہ رویہ اور آمرانہ سوچ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس جمہوری نظام میں ہر جگہ کار فرما نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں الیکشن کا نہ ہونا اور بلدیاتی انتخابات سے سیاسی جماعتوں کا گریزاں رہنا اس آمرانہ سوچ کا ایک عکس ہے۔ جمہوریت جن ممالک میں پھل پھول رہی ہے اور اپنے عوام کے لیے فیض مند ثابت ہو رہی ہے، وہاں ایک بنیادی حقیقت تعلیم یافتہ معاشرہ، تعلیم یافتہ فرد اور تعلیم یافتہ اور آزاد ووٹر ہے جو کہ کسی بھی جماعت کی کارکردگی اور اس کے منشور کو دیکھتے ہوئے اپنا ووٹ کا حق استعمال کرتا ہے۔

اس کے برعکس یہ ایک تلخ لیکن کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر ووٹ زبان، نسل، برادری ، سرمائے اور معمولی مفادات کے تحت ڈالا جاتا ہے۔ نہ کہ کسی سیاسی جماعت کی کارکردگی اور منشور کی بنیاد پر۔ ایک تلخ ترین حقیقت یہ بھی ہے کہ عوام تو کجا، سیاسی جماعت کے اکثر منتخب نمایندوں کو ہی اپنی سیاسی جماعت کے منشور کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوتا، آزمائش شرط ہے۔ ملک میں الیکشن کا دور دورہ ہے، ہر سیاسی جماعت اقتدار میں آ کر عوام کی خدمت کرنے کو بے چین ہے اور سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہے۔ پنجاب میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات ظاہر کر رہے ہیں کہ آنے والی جمہوریت کس شکل کی ہو گی۔ گجرات این اے 107، سے ملک حنیف 2008ء میں بی اے پاس نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہ لے سکتے تھے۔ عوام کی خدمت کا حق ادا کرنے کے لیے انھوں نے ہالینڈ سے اپنے بھتیجے ملک جمیل اعوان کو بلوایا۔

وہ الیکشن جیت گئے لیکن سپریم کورٹ کی جانب سے دہری شہریت پر کارروائی میں نا اہل قرار دیے جانے کے بعد چچا ملک محمد حنیف نے فوراً عوام کی خدمت کرنے کے لیے دوبارہ اپنے آپ کو پیش کر دیا کیونکہ اس پورے حلقے کی خدمت ان کے خاندان کے علاوہ کوئی اور بہتر طریقے سے نہیں کر سکتا۔ پی پی 26 جہلم میں بھی یہی صورتحال رہی جہاں چوہدری خادم حسین نے بی اے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بیٹے چوہدری ندیم خادم کو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوا دیا۔ وہ بھی دہری شہریت کی زد میں آ گئے تو چوہدری خادم حسین نے ایک بار پھر اپنے آپ کو عوام کی خدمت میں پیش کر دیا۔ یہی چوہدری خادم حسین اس سے قبل مسلم لیگ ق کی جانب سے وزیر بھی رہ چکے ہیں اور چیچہ وطنی این اے 162 میں 2008ء میں چوہدری زاہد اقبال پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔یہ دہری شہریت کے حامل نکلے۔ اسمبلی کی رکنیت چھوڑ دی۔ بعد میں دہری شہریت سے مستعفی ہو کر پھر مسلم لیگ ن کی جانب سے دوبارہ اسی نشست پر ایم این اے منتخب ہو کر عوام کی خدمت میں دن رات مصروف ہیں۔

حنا ربانی کھر مسلم لیگ ق کی جانب سے وزیر رہنے کے بعد آج کل پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز نظر آتی ہیں۔ انجینئر امیر مقام بھی 2008ء سے 2013ء تک صرف 5 سال کے عرصے میں مسلم لیگ ق سے ہوتے ہوئے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور آج کل مسلم لیگ ن میں شامل ہو کر نواز شریف کو ہر مسئلے کا حل قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح کی سیاسی قلابازیوں سے پاکستان کی پوری تاریخ بھری پڑی ہے۔ اور اس وقت بھی قومی اسمبلی کے 80 فیصد حلقوں کی یہی صورتحال ہے۔

اس طرح کی صورتحال پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سے ہر الیکشن میں نظر آتی رہی ہے۔ اس افسوسناک صورتحال کے جہاں دیگر اسباب ہیں، ان میں سے ایک سبب پاکستان کا الیکٹرول نظام بھی ہے۔ یہ الیکٹرول نظام ایک عام غریب یا متوسط طبقے کے فرد کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اندرون سندھ کے دیہاتوں میں کچھ عرصے پہلے تک ایک عام کہاوت تھی کہ جو آٹا خرید کر کھاتا ہے، وہ سیاست نہیں کر سکتا۔ یہ کہاوت اسی الیکٹرول نظام کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلی کی حلقہ بندیوں کے مختلف عوامل و مراتب ہیں جس میں زیادہ تر آبادی اور کسی حد تک زمینی رقبہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان حلقوں کو تشکیل دیا گیا ہے جس کے تحت عمومی طور پر قومی اسمبلی کا ایک حلقہ 5 لاکھ افراد کی آبادی پر مشتمل ہوتا ہے جس میں کمی بیشی کی گنجائش ہے، جس کا زمینی رقبہ ایک محتاط اندازے کے مطابق دیہی حلقوں میں تقریباً 40 سے 50 کلومیٹر کے درمیان ہوتا ہے۔

کسی بھی عام ذہنی رویے کے حامل آدمی کے لیے5 لاکھ افراد کی آبادی اور اتنے بڑے رقبے پر مشتمل الیکشن مہم پر آنے والے اخراجات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔ اتنی بڑی آبادی سے الیکشن کے حوالے سے رابطہ کرنا، تشہیری مہم، پولنگ ایجنٹس مہیا کرنا اور دیگر اخراجات کسی اچھے بھلے زمیندار کے بس کی بھی بات نہیں ہے۔ صرف ووٹر کو پولنگ اسٹیشن تک لے کر جانے کے لیے جو ٹرانسپورٹ درکار ہوتی ہے، اس کے اخراجات کاغذ پر چاہے جو بھی دکھائے جائیں، حقیقت میں کروڑوں روپے تک ہوتے ہیں۔ الیکشن کے مرحلے پر خاندانی سیاست دان اور جاگیردار بھی الیکشن مہم پر آنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے یا تو قرض لیتے ہیں یا دوسرے غیر قانونی ذرایع استعمال کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس سارے عمل کو شفاف رکھنے کے لیے انتخابات کے اخراجات کی جو حد مقرر کی گئی ہے، وہ ناقابل عمل ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ اخراجات کرنے کی صورت میں کوئی بھی امیدوار کامیابی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے جس سے ہر با اختیار شخص واقف ہے۔ یعنی یہ عوام کا جدی پشتی درد رکھنے والے خدائی خدمت گار کروڑوں روپے خرچ کر کے خود کو عوامی خدمت کے منصب پر فائز کرتے ہیں۔ جمہوریت کی حقیقی روح کے نفاذ اور اس سے فیض یاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی عمل کو ایک آدمی کی دستر س میں رکھا جائے ۔ اس کے لیے ایسے حقیقی اقدامات کی ضرورت ہے جس کے نتائج زمین پر نظر آئیں۔ 5 لاکھ افراد کے حلقے پر مشتمل ایک حلقے کا نمایندہ کسی طرح بھی اپنے پورے حلقے کی نمایندگی کا حق ادا نہیں کر سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں