کراچی کے اجڑتے پارک

ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے پارکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ موجودہ پارکوں کی مناسب دیکھ بھال پر بھرپور توجہ دی جائے۔


Nasreen Akhter January 23, 2013

گزشتہ چند برسوں کے دوران کراچی میں پارک اور شاہرائیں عظیم فنکاروں کی خدمات کے اعتراف میں ان کے ناموں سے منسوب کی گئیں۔ احمد رشدی، وحید مراد، غلام فرید صابری قوال، شہزاد خلیل وغیرہ کے ناموں سے شہر کی شاہراہوں کو منسوب کیا گیا جب کہ شہنشاہ غزل مہدی حسن، معین اختر اور عمر شریف کے نام پارک منسوب کر دیے گئے ہیں۔ مہدی حسن کی زندگی میں ہی نارتھ ناظم آباد میں واقع پارک کو مہدی حسن کے نام سے منسوب کیا گیا، معین اختر کی شاندار فنی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے نام سے ایک پارک کو منسوب کیا گیا، گزشتہ دنوں کراچی میں نامور کامیڈین عمر شریف کے نام سے کلفٹن میں ایک خوبصورت پارک تعمیر کیا گیا۔

کراچی شہر میں پارکوں کی تعمیر ایک خوش آیند بات ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہر میں جگہ جگہ جو پہلے سے پارک موجود ہیں وہ عدم توجہی کے باعث اجڑے ہوئے ہیں ان پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی اور انھیں سنوارا کیوں نہیں جاتا؟ کراچی ایک عظیم اور کثیر الجہتی شہر ہے، جس نے گذشتہ 65 برسوں میں سیاسی اور سماجی زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھے اور مختلف شعبوں میں بے مثال ترقی بھی کی ہے۔ اس غریب پرور شہر کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے لیکن کراچی شہر کے دکھ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار کرنا ممکن نہیں۔ کراچی کی آبادی میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس شہر کی ساری خوبصورتی خاک میں ملتی جا رہی ہے اور اس کے حسن کو گہن لگ گیا ہے۔ یہاں کھیل کود کے میدانوں، پارکوں اور تفریحی سہولتوں کی کمی کا احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ شہری انتظامیہ اور صاحبان اقتدار نے ان سہولتوں کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ شہر میں جتنے بھی پارک موجود ہیں ان کی دیکھ بھال سے روگردانی کیوں کی جا رہی ہے؟

18 جنوری کے ایکسپریس میں کراچی کے تاریخی ''جہانگیر پارک'' کی تصویر شایع ہوئی ہے جو بلدیاتی اداروں کی غفلت کے باعث اجڑا ہوا ہے، پارک کی گھاس ختم ہو گئی ہے اور وہ کسی ویران میدان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ صدر میں واقع ایمپریس مارکیٹ کے مغربی جانب کئی ایکڑ رقبے پر مشتمل جہانگیر پارک کا شمار کراچی شہر کے قدیم پارکوں میں ہوتا ہے۔ ماضی میں یہ پارک بہت خوبصورت ہوتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس پارک کے بیچوں بیچ بنائے گئے تالاب میں بطخوں اور ہنسوں کے جوڑے تیرا کرتے تھے اور یہاں شام کے وقت فیملیز آیا کرتی تھیں، عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد آس پاس کے علاقوں سے آیا کرتی تھی۔ اب یہ پارک اجڑا ہوا ہے، یہاں عورتوں اور بچوں نے عرصے سے آنا بند کر دیا ہے کیونکہ دن بھر یہاں نشہ کرنے والے یا بے گھر لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ پارک کے دو اطراف مختلف کیبنوں کی تعمیر کے باعث پارک کی خوبصورتی ختم ہو گئی ہے اور اس کی کشادگی کا تاثر ختم ہو گیا ہے کیا یہ ظلم نہیں؟

نہ صرف جہانگیر پارک بلکہ کراچی شہر کے کئی پارک بلدیاتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث اجڑے ہوئے ہیں اور عوام اپنے علاقوں کے اچھے فیملی پارکوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ ان میں ناظم آباد بلاک ایف کا پارک، بلال مسجد کے عقب میں واقع ہے جو اپنے اجاڑ پن کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہو چکا ہے۔ اس باغ کے کئی درختوں کو محض یہ کہہ کر کاٹ دیا گیا تھا کہ ان میں کیڑا لگ گیا ہے۔ جس سے بے شمار پرندے اپنے گھونسلوں سے محروم ہوئے اور باغ نے بھی اپنا حسن کھو دیا۔ اس کے بعد سے یہ پارک اجڑ گیا اور اس سے خوف آنے لگا ہے۔

ماضی میں یہ ایک اچھا فیملی پارک تھا جو گلیوں کے عقب میں بنا ہوا ہے ، یہاں کچھ عرصے پہلے اطراف کے لوگ شام کے وقت بڑی خوشی سے آتے تھے، بالخصوص خواتین اور بچے بے فکری سے آتے، کھیلتے کودتے اور لطف اندوز ہوتے تھے، علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ شام کے وقت یہاں صرف خواتین ہی چہل قدمی کرتی نظر آتی تھیں، فجر کی نماز کے بعد بھی اس جگہ خواتین واک کرتی تھیں مگر اب یہ حالت ہے کہ فیملی آنا پسند نہیں کرتی، اوباش قسم کے نوجوان نظر آتے ہیں جس سے اس پارک کا ماحول خراب ہو گیا ہے، مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث یہ پارک بھی اجڑ چکا ہے جو کبھی بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا۔فیڈرل بی ایریا بلاک 13 گلبرگ میں واقع ''سرسید احمد خان پارک'' کا شمار خوبصورت پارکوں میں کیا جاتا تھا۔

بنیادی طور پر یہ پارک بچوں میں جذبہ تجسس ابھارنے کے لیے بنایا گیا تھا، اس مقصد کے لیے پارک میں مختلف قسم کے ماڈلز رکھے گئے تھے، ان میں پرانے ہوائی جہاز، آگ بجھانے والی گاڑی، ٹریکٹر اور بحری جہاز کے ماڈلز شامل تھے، یہ پارک بھی اب اجڑ گیا ہے۔ پارک کی جھیل بھی خشک ہوچکی ہے۔ اسی طرح فیڈرل بی ایریا بلاک نمبر 14 میں واقع بچوں کا تعلیمی باغ تعمیر ہوا تو یہ باغ بہت مشہور ہوا۔ پارک کے قیام کا ایک مقصد تفریح کے لیے آنے والے بچوں کو کھیل ہی کھیل میں سڑک پر چلنے کے آداب اور ٹریفک کے اصولوں سے روشناس کرانا تھا۔ اس کے علاوہ یہاں چند جنگلی جانور بھی پنجروں میں رکھے گئے ہیں۔ بچوں کے لیے منی ٹرین اور کشتی رانی کا بھی انتظام کیا گیا، لیکن تعلیمی باغ اپنے قیام کے مقصد سے بہت دور ہو گیا ہے۔

کراچی کے شہریوں کے لیے پی ای سی ایچ ایس کے علاقے میں ایک اونچی پہاڑی پر ''ہل پارک'' کے نام سے پارک 1971ء میں کے ڈی اے نے بنایا تھا۔ تقریباً 61 ایکڑ رقبے پر مشتمل یہ پارک بعد ازاں بلدیہ عظمیٰ کے حوالے کر دیا گیا۔ کراچی کے شہریوں کی بڑی تعداد اہل خانہ کے ساتھ سیر و تفریح کرنے یہاں آتی تھی، اونچائی پر واقع ایک چوٹی سے شہر کا نظارہ کرتی، پارک میں ایک چھوٹی سی جھیل بھی ہے۔ امیوزمنٹ پارک اور پلے لینڈ بھی ہے۔ دوسرے پارکوں کی طرح ہل پارک کو بھی پانی کی قلت کا سامنا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں واقع تالاب اکثر خشک ہی پڑا رہتا ہے اور بچوں کے جھولوں کے کارنر کی گھاس بھی جگہ جگہ سے اجڑی ہوئی ہے۔ ہل پارک بہت خوبصورت اور ہرا بھرا پارک تھا جو اب اجڑتا جا رہا ہے اور اس میں وہ پہلے جیسی بات نہیں رہی۔

یہی حال سفاری پارک کا ہے، یہ رقبے کے لحاظ سے کراچی کا ایک بڑا پارک ہے، تعمیر کے وقت یہ خیال پیش کیا گیا تھا کہ موجودہ چڑیا گھر کو سفاری پارک منتقل کر کے جنگلی جانوروں کو آزاد قدرتی ماحول میں رکھا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے پارک میں زو ایریا اور سفاری ایریا مختص کیا گیا تھا۔ البتہ یہاں چند جانور اور آبی جانور موجود ہیں۔ پارک میں دو اونچی پہاڑیاں ہیں جن کے درمیان ایک گہری گھاٹی موجود ہے۔ ایک حصے میں ساڑھے سات لاکھ گیلن پانی کی گنجائش والی جھیل بھی موجود ہے، جس میں آبی پرندے بڑی تعداد میں رکھے گئے، جھیل میں کشتی رانی کی سہولت فراہم کی جا سکتی ہے مگر اس کا انتظام نہیں کیا گیا۔ پارک میں جگہ جگہ جنگلی درخت بھی موجود ہیں جو پارک کے حسن کو متاثر کرتے ہیں، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ سفاری پارک بھی اپنی اصل خوبصورتی کھوتا جا رہا ہے۔

یونی ورسٹی روڈ پر اردو سائنس کالج کے نزدیک عزیز بھٹی پارک کا شمار ایک زمانے میں کراچی شہر کے خوبصورت ترین اور وسیع و عریض پارکوں میں ہوتا تھا۔ اس پارک میں دو جھیلیں تھیں، جن میں سے ایک خاصی بڑی تھی۔ ان جھیلوں میں خوبصورت آبی پرندے بھی رکھے گئے تھے اور کشتی رانی کا انتظام بھی تھا۔ ابتدائی دنوں میں یہاں شہریوں کی بہت بڑی تعداد نہ صرف تفریح کے لیے بلکہ پکنک منانے آتی تھی، مگر عرصہ ہوا اس کی دونوں جھیلیں خشک ہو چکی ہیں۔ صفائی کا انتطام ناقص ہے یہاں آنے والوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت کم رہ گئی ہے۔ پارک کی خوبصورتی بھی اب پہلے جیسی نہیں رہی۔

کراچی میں یہی نہیں اور بھی کئی پارک ہیں جو بلدیاتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث اجڑ گئے ہیں، یہ اجڑتے پارک جو کبھی شہر کی خوبصورتی میں اضافے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو تفریح بہم پہنچاتے تھے۔ دراصل پارکوں اور باغات کی مناسب دیکھ بھال اور تعمیر کی مد میں بلدیات کا بجٹ بہت کم ہوتا ہے جس کی وجہ سے پارکوں کی یہ صورت حال ہو چکی ہے۔ پانی کی قلت کا مسئلہ پارکوں کو بھی درپیش ہے۔ جس کی وجہ سے سرسبز و شاداب پارک اجڑ رہے ہیں۔ البتہ چند مقامات پر سیوریج کے پانی کو استعمال کر کے درختوں اور گھاس کو زندہ رکھنے کی کوشش کی گئی تھی جو کامیاب بھی رہی۔ اسے مزید توسیع دی جا سکتی ہے۔ کراچی شہر میں ایسے مقامی پارک بہت کم ہیں جہاں شام کے وقت اہل خانہ کے ساتھ تفریح کا ماحول میسر ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہر میں نئے پارکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ موجودہ پارکوں کی مناسب دیکھ بھال پر بھرپور توجہ دی جائے اور تمام شہری اور انتظامیہ مل کر اس ضمن میں اپنی ذمے داریاں پوری کریں تو اجڑے ہوئے پارک بھی سنور سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں