ٹرمپ موسمیاتی تبدیلی اورکرۂ ارض
ٹرمپ انتظامیہ ماحولیاتی تحفظ کی امریکی ایجنسی کو ختم کرنے کے لیے بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی احتجاجی مہم کے دوران اس بات کو واضح کردیا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی پر ہونے والے پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ملک میں موجود موسمیاتی و ماحولیاتی قوانین کا خاتمہ کردیں گے۔
صدر ٹرمپ کے نزدیک موسمیاتی تبدیلی ایک فریب ہے اور چین اپنے مخصوص مقاصد کے لیے اس پروپیگنڈے کو دنیا بھر میں پھیلا رہا ہے۔ اقتدار میں آنے کے فوری بعد سے ہی ٹرمپ انتظامیہ نے موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف بننے والے متعدد ملکی قوانین کو ختم کرنا شروع کردیا ہے یا ان پر نظرثانی کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ پہلی مرتبہ وہائٹ ہاؤس اور کانگریس کے دونوں ایوانوں پر ریپبلکن کا مکمل کنٹرول ہے۔
ٹرمپ نے اپنے ابتدائی احکامات میں لفظ ''کلائمیٹ چینج'' کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسان موسموں کو تبدیل نہیں کرسکتا ہے۔ توانائی کے امریکی محکمے نے ان احکامات کی پیروی کرتے ہوئے تمام ریاستوں کو مراسلے بھی جاری کردیے جس کے خلاف امریکا کی 24 ریاستوں نے سپریم کورٹ سے حکم امتناع حاصل کرلیا ہے۔ لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ ماحولیاتی تحفظ کی امریکی ایجنسی کو ختم کرنے کے لیے بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے، ایجنسی کے 18 رکنی ایڈوائزری بورڈ جو موسمیاتی تبدیلی پر سائنسدانوں کی تحقیق کا جائزہ لیتا ہے، کے متعدد ممبران کو فارغ کردیا گیا ہے جب کہ اس کی ویب سائٹ سے موسمیاتی تبدیل پر موجود مواد کو ہٹانے کا کام جاری ہے۔
اوباما دور میں میتھین گیس کے اخراج کے حوالے سے بنائے جانے والے قواعد و ضوابط کو سینیٹ کی اکثریت نے منسوخ کردیا ہے۔ آرکٹک، بحرالکاہل اور بحراوقیانوس کے مختلف حصوں میں تیل اور گیس کی ڈرلنگ پر لگائی جانے والی پابندی پر ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے نظر ثانی کا حکم دے دیا گیا ہے جب کہ ٹرمپ انتظامیہ کے بنائے جانے والے وفاقی بجٹ میں ماحولیاتی تحفظ کے پروگراموں میں 31 فیصد تک کٹوتی کا کہا گیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ 2015 میں کیا جانے والا ماحولیاتی تحفظ کا عالمی معاہدہ متفقہ طور پر منظور کرانے میں سابق امریکی صدر بارک اوباما اور چین کے صدر شی جن پنگ نے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ یاد رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے اس عالمی معاہدے پر دنیا کے 196 ملکوں نے دستخط کیے ہیں۔ اس عالمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرنے کے لیے 9 مئی کو وہائٹ ہاؤس میں ایک اہم اجلاس بلایا گیا تھا جس میں پیرس معاہدے سے علیحدگی کے اثرات پر غورکرنا تھا۔ وہائٹ ہاؤس انتظامیہ نے اس اجلاس کو موخر کرتے ہوئے نئی تاریخ کا اعلان بھی نہیں کیا۔
واضح رہے کہ اس حوالے سے یہ دوسرا اجلاس تھا جسے موخر کیا گیا ہے۔ ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ مئی کے آخری ہفتے جی سیون گروپ کا سربراہی اجلاس جو سسلی میں منعقد ہورہا ہے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ بھی شرکت کریں گے، سے پہلے امریکا پیرس معاہدے کو برقرار رکھنے یا دستبردار ہونے کا اہم فیصلہ کرسکتا ہے۔
9 مئی کو وہائٹ ہاؤس میں ہونے والے اجلاس سے پہلے 4 مئی کو شمالی اوقیانوس معاہدے تنظیم (ناٹو) کے سربراہ جنرل ڈینس میر نے ورجینیا میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذمے داری اقوام متحدہ کی ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر تمام دنیا کو ساتھ لے کر چلے اور ان کے درمیان اس مسئلے پر ہم آہنگی برقرار رکھے۔ نیٹو کے سربراہ نے امریکا کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر کوئی قوم خاص طور پر بڑا ملک موسمیاتی تبدیلی کو تسلیم نہیں کرتا تو ہمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔
باقی دنیا کو ایک طرف رکھ دیں موسمیاتی تبدیلیاں امریکا کے لیے کتنا بڑا خطرہ بن چکی ہیں اس کا اظہار سابق امریکی صدر بارک اوباما نے امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے شہر نیولندن میں کوسٹ گارڈز کی پاسنگ آؤٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی امریکا کی قومی سلامتی کے لیے فوری خطرہ ہے، خصوصاً سمندروں کی سطح میں اضافہ ملکی سلامتی، اقتصادیات اور امریکی عوام کے تحفظ اور صحت کے لیے بھی خطرے کا باعث ہے۔
انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیاں ہماری افواج کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہیں کیونکہ ہماری متعدد فوجی تنصیبات ساحلوں کے ساتھ قائم ہیں، ورجینیا میں نورفوک کے اطراف میں بلند ہونے والی سمندری لہروں کے نتیجے میں بحریہ کے اڈے اور فضائیہ بیس کے کئی حصے ڈوبتے جارہے ہیں، الاسکا میں شدید سردی اور جمی ہوئی برف میں اضافے سے بھی فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ملک کے مغربی خطے میں بڑھتی ہوئی خشک سالی، جنگلات میں لگنے والی آگ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے موسمیاتی تبدیلی پر نقطہ نظر کے خلاف امریکا سمیت دنیا بھر میں شدید ردعمل کی شروعات ہوچکی ہے۔ 22 اپریل کو منائے جانے والے عالمی یوم ارض کے موقع پر دنیا کے 500 سے زائد شہروں میں سائنسی شواہد کے حق میں مظاہر کیے گئے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہزاروں سائنسدانوں نے ان مظاہروں میں حصہ لیا، مظاہرے سے پہلے سی بی ایس نیوز کی جانب سے امریکا میں کرائے جانے والے ملک گیر سروے میں 12 فیصد امریکی شہریوں نے بتایا کہ آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لیے ماحولیات کی صورتحال بہتر ہوگی جب کہ 57 فیصد شہریوں کا خیال تھا کہ اس حوالے سے صورتحال خاصی بدترین ہوگی۔
23 ستمبر 2014 کو منعقد ہونے والے یونائیٹڈ نیشن کلائمیٹ سمٹ سے 2 دن پہلے پیپلز کلائمیٹ مارچ ہوا تھا، جس کا مقصد اقوام متحدہ کے کلائمیٹ سمٹ میں جمع ہونے والے عالمی سربراہوں کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ 2015 میں ہونے والی عالمی سربراہی کانفرنس میں ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے کو یقینی بنائیں۔ اس مارچ میں دنیا کے 150 ملکوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد نے حصہ لیا۔
نیویارک میں ہونے والے مارچ میں اس وقت اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سمیت 4 لاکھ افراد شریک ہوئے۔ اسی پیپلز کلائمیٹ مارچ کی کال پر ٹرمپ حکومت کے 100 دن پورے ہونے اور عالمی ماحولیاتی معاہدے سے دستبردار ہونے کے خلاف 29 اپریل کو واشنگٹن ڈی سی میں بڑا مظاہرہ کیا گیا جس میں 2 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔
کیا ٹرمپ انتظامیہ پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کرے گی؟ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے اداروں، سائنسدانوں، ماحولیاتی ماہرین اور ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے لاکھوں لوگوں کے لیے یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔ جس کا جوا ب شاید بہت جلد سامنے آنے والا ہے۔ پیرس معاہدے پر دستخط کرنے والے 196 ملکوں کی نظریں بھی دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ زہریلی گیس کا اخراج کرنے والے ملک پر مرکوز ہیں۔
دوسری جانب جرمنی کے شہر بون میں یونائیٹڈ نیشن فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کے زیر اہتمام بون کلائمیٹ کا نفرنس 8 مئی سے شروع ہوچکی ہے، جو 18 مئی تک جاری رہے گی۔ بون کانفرنس پیرس معاہدے میں درج کیے گئے اہم موضوعات جن میں موسمی تبدیلیاں، گرین ہاؤس گیسوں کے اثرات اور ان کے اخراج میں کمی، صاف توانائی اور سبز شہری شامل ہیں، کا احاطہ کررہی ہے۔
کرۂ ارض کی بقا پر سوالیہ نشان لگانے والی موسمیاتی تبدیلیاں اور عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے مظاہر دنیا کی حکومتوں اور زمین پر بسنے والے اربوں انسانوں کے سامنے ہیں اور وہ اس کا شکار بھی ہورہے ہیں۔ کیا موسمیاتی تبدیلی جیسے سنگین خطرے کا ایک طاقتور مخالف اور مالی مفاد رکھنے والے اس کے چند ساتھی کرۂ ارض کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کی کوششوں میں کامیاب ہوجائیں گے؟