پاکستان اور علاقائی سیاست کی پیچیدگیاں

افغانستان کے معاملے میں بھی ہم تسلسل کے ساتھ معاملات کو سلجھانے میں ناکام ہوئے ہیں۔


سلمان عابد May 15, 2017
[email protected]

کسی بھی ریاست کی داخلی اور خارجی سلامتی کے لیے اس کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص علاقائی سیاست کے تعلقات بنیادی کنجی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ اگر ملک داخلی طور پر مضبوط ہو اور علاقائی ممالک سے ان کے تعلقات میں دوستانہ مراسم ہوں تو معاملات کو زیادہ مستحکم انداز سے چلانے میں مدد ملتی ہے۔

آج کی اس گلوبل سیاست میں جہاں معاملات ایک دوسرے سے بہت زیادہ دور رہنے کے بجائے سمٹ کر قریب آرہے ہیں وہاں علاقائی سیاست میں بہتر ی کا عمل بھی کسی سیاسی تنہائی میں ممکن نہیں۔کوئی ایک ملک اگر اس کی خواہش رکھتا ہے تو وہ انفرادی سطح پر اس خواہش کو کسی بھی طور پر پورا نہیں کرسکے گا۔ اس وقت پاکستان ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ بھارت، افغانستان اور ایران کے ساتھ علاقائی سیاست میں ہم بڑی بداعتمادی کا شکار ہیں۔ بھارت سے تو ہمارے ہمیشہ سے ہی تعلقات مستحکم نہیں۔ جب کبھی بھی تعلقات میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے تو یہ عمل مضبوطی سے آگے بڑھنے کے بجائے کمزور ثابت ہوا۔

جلد ہی آگے بڑھتے ہوئے بہتری کے تعلقات میں بداعتمادی کے سائے مضبوط ہوئے اور معاملات پھر پیچھے کی طرف چلے گئے۔ آج کل پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات کافی سنگین نوعیت کے ہیں اور اس بحرانی کیفیت میں بھارت تسلسل کے ساتھ پاکستان پر دباو بڑھانے کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا عمل تعطل کا شکار ہے۔ اس معاملے میں یقینی طور پر پاکستان سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں، لیکن بھارت کا اپنا رویہ خود پاکستان سے زیادہ سخت گیر ہے جو تعلقات کی بہتری میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

افغانستان کے معاملے میں بھی ہم تسلسل کے ساتھ معاملات کو سلجھانے میں ناکام ہوئے ہیں۔اس وقت افغانستان اپنی داخلی سیاست کے مسائل اور بالخصوص دہشتگردی کے معاملات کو پاکستان سے جوڑتا ہے۔اس معاملے میں شدت پیدا کرنے میں خود بھارت کا بھی ہاتھ ہے۔ بھارت اورافغانستان کی خفیہ ایجنسی اس مسئلہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔افغانستان کے ساتھ بھی عملی طور پر بات چیت کا عمل بداعتمادی کا شکار ہے۔

افغان حکومت جو خود داخلی سطح پر بہت کمزور ہے سمجھتی ہے کہ پاکستان نے طالبان کے معاملہ میں اس کی کوئی مدد نہیں کی اور افغان حکومت کا طالبان کے ساتھ اتحاد کے امکان کو کمزور کیا ہے۔ افغان حکومت داخلی محاذ پر اسی نکتہ کو ابھار رہے ہیں کہ پاکستان ہم سے تعاون نہیں کررہا۔دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو مطلوب دہشتگردوں کی فہرستیں دی ہیں، لیکن مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔

بھارت، افغانستان اس نکتہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان بطور ریاست خود دہشتگردی کا شکار ہے اور پچھلے کچھ برسوں میں اس نے دہشتگردی کی جنگ سے نمٹنے میں کامیابی بھی حاصل کی۔ لیکن اس کے برعکس علاقائی ممالک براہ راست پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ فوج یا پاکستان نہ صرف دہشتگردوں کی حمایت کرتا ہے بلکہ یہ ان کے سٹرٹیجک اثاثے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان کا الزام ہے کہ بھارت اور افغانستان براہ راست بلوچستان اور کراچی میں بدامنی اور دہشتگردی کو تقویت دینے میں سرگرم ہیں، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کے پاکستان کے اندر کے معاملات میں مداخلت کے اعتراف کے بعد صورتحال اور زیادہ سنگینی کو پیدا کرتی ہے۔ایسے میں کوئی کسی پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ علاقائی سطح پر تعلقات کے بہتری کے لیے تمام ممالک نے سارک کی سطح پر جو بھی فورمز بنائے ہیں وہ فعا ل نہیں یا ان کو ایک خاص مقصد کے تحت فعال نہیں کیا جارہا ۔ اہم بات اس طرح کے فورمز کی معاملات کو حل کرنے کی ہوتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف فو رمز کے کمزورہونے اور دوسری جانب حکومتوں کا الزامات پر مبنی سیاست کی وجہ سے معاملات آگے بڑھنے کے بجائے مزید انتشار اور عدم استحکام کا سبب بن رہے ہیں۔

اس خطہ میں بھارت کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، وہ ایک بڑا جمہوری ملک ہے لیکن اس کا اپنا رویہ بھی دوستی کے بجائے مسائل میں شدت کو پیدا کرنے سے جڑا ہوا ہے۔المیہ یہ ہے کہ ایک طرف ریاستوں یا حکومتوںکے درمیان بداعتمادی ہے تو دوسری طرف جان بوجھ کر تمام ممالک کے لوگوں میں بھی غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں، ا س کا تدراک لوگوں اور مختلف سول سوسائٹی کے گروپس کے درمیان تو اتر سے ملاقاتوں اور تبادلوں میں ہے، لیکن عملی طور پر لوگوں کے باہمی رابطوں پر بھی پابندی ہے۔

اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے کہ علاقائی ممالک پورے خطے کی صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنی توجہ دیں اور ایک علاقائی سیاسی،سماجی،معاشی سمیت دیگر مسائل پر چارٹر ترتیب دیں۔ وہ پورے علاقائی سیاست کا مشترکہ ایجنڈا ہو اور سب ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس کو آگے بڑھایں، لیکن فی الحال جو صورتحال ہے وہ حالات کی بہتری کے بجائے بگاڑ کی طرف جارہی ہے۔

عملی طور پر علاقائی سیاست میں ہمیں اپنی اپنی ریاستوں کو سیکیورٹی ریاستیں بنانے کے بجائے فلاحی اور عوامی مفادات سے جڑی ریاستوں کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔اس کی ایک شکل دفاعی بجٹ کے مقابلے میں انسانی وسائل پر خرچ ہونی چاہیے۔ دہشتگردی اور انتہا پسندی علاقائی سیاست کا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ اس کا مقابلہ بھی الزام تراشیوں کے بجائے ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے اور تعاون کے امکانات کو آگے بڑھانے سے جڑا ہونا چاہیے اور یہ ہی سب کے مفاد سے جڑا ہوا بھی ہے۔

ایک مسئلہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کا بھی ہے۔ ہمیں ان جماعتوں اور قیادتوں کی جانب سے علاقائی سیاست کے مسائل اور معاملات پر توجہ کم نظر آتی ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر داخلی سیاست کے مسائل اوراپنی مفاداتی سیاست کے گرد زیادہ نظر آتے ہیں۔ حالانکہ سیاسی جماعتوں کو علاقائی سیاست کے مسائل پر خود معاملات میں لیڈ لینی چاہیے۔ یہ تاثر دینا کہ علاقائی سیاست کے مسائل کا تعلق براہ رسات فوج کا ہے اور ہمیں اس عمل سے دور رہنا چاہیے، غلط حکمت عملی ہے۔جب ہماری جماعتیں اوران کی قیادت داخلی سیاست کے مسائل میں محاذ آرائی کی سیاست کا شکار ہوکر الجھ جائیں گی تو علاقائی سیاست کا ایجنڈا ان سے بہت دور چلا جاتا ہے۔

اسی طرح علاقائی سیاست کے مسائل اور ممکنہ حکمت عملیوں پر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت معاملات میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے بجائے مشاورت کے ساتھ فیصلے کرنے کی صلاحیت کو مضبوط بنائے، تاکہ مسائل پیدا نہ ہوں۔لیکن یہ سب خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام علاقائی ممالک کے سربراہان کو پرانے خیالات اور ماضی کے فریم ورک سے باہر نکل کر نئے حقایق کو قبول کر کے کسی ایسے فارمولے کی طرف آنا ہوگا جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ دشمن بنا نے کی روش اور سازشی تھیوریوں کا شکار ہونے کے بجائے ہمیں خود بھی ایک دوسرے کے قریب آنا ہے اور دوسروں کو بھی لانا ہے، اسی میں علاقائی سیاست کا استحکام پوشیدہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں