کھیل ابھی جاری ہے
اس بار کی بھی جیت نہ تو فائنل جیت ہے اور نہ ہار فائنل ہے۔
نیوز لیکس کے منطقی انجام کے بعد ایک عجیب سی بحث شروع ہے کہ کون جیتا کون ہارا۔ سب اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کوئی جشن منا رہا ہے اور کہیںافسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کسی کی پگ کو داغ لگ گیا ہے اور کسی کی پگ اونچی ہو گئی ہے۔ کسی کے خیال میں جیتنے والا جیت کر بھی ہار گیا ہے اور ہارنے والا ہار کر بھی جیت گیا ہے۔ جیت اور ہار کی اس بحث نے سب کو پریشان کیا ہوا ہے۔
نواز شریف پہلی بار بحران سے دو چار نہیں ہوئے یا وہ پہلی بار کسی بحران سے بچ کر نہیں نکلے کہ ہم سب اتنے حیران اور پریشان ہیں۔ نواز شریف کا انداز حکمرانی ایسا ہے کہ ان کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ میاں نواز شریف کبھی اپنی مدت اقتدار پوری نہیں کر سکے ہیں۔ ان کو کبھی اپوزیشن کے کسی انقلاب نے اقتدار سے علیحدہ نہیں کیا بلکہ وہ کبھی کاکڑ فارمولہ کی نظر ہوئے اور کبھی مشرف ڈاکٹرائن نے انھیں اٹھا کر باہر پھینک دیا۔
نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان یہ لڑائی 1990ء سے جاری ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ دو بار اقتدار سے ہاتھ دھونے اور جلاوطنی کے باوجود نوازشریف کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ نواز شریف کئی بار اپنی مرضی کا کمانڈر لانے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ انھوں نے جہانگیر کرامت سے استعفیٰ بھی لیا ہے۔ لیکن ان کا انداز حکمرانی تبدیل نہیں ہوا۔ یوں انھیں دو بار اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔ کامیابی اور نا کامی کی یہ میوزیکل چیئر جاری ہے۔
اس بار کی بھی جیت نہ تو فائنل جیت ہے اور نہ ہار فائنل ہے۔ کھیل ابھی جاری ہے۔ لڑائی میں پلٹ کر جھپٹنا ہی اصل فن مہارت ہے۔ نہ ہی یہ ہار ترکی جیسی ہار ہے اور نہ ہی یہ جیت طیب اردوان والی جیت ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں منظر نامہ پر جو بھی نظر آ رہا ہے وہ عارضی ہے۔ بات وہی پرانی ہے۔ کھیل ابھی باقی ہے۔ نہ جیتنے والا خوش ہے اور نہ ہی ہارنے والا خوش ہے۔
اس کھیل کی بڑی اہم بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف جو سیاست کر رہے ہیں، انھوں نے اپنی سیاسی وارث مریم نواز کو بھی اسی کیمپ میں کھڑا کر دیا ہے۔ مریم نواز نیوز لیکس حملے میں بچ توگئی ہیں۔ گو کہ زبان زد عام تھا کہ ان کا بچنا مشکل ہے لیکن وہ بچ کر بھی سیاسی لحاظ سے محفوظ نہیں ہیں۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے کے مصداق اگر میاں نواز شریف اس بار بھی ہار جاتے ہیں تو مریم نواز ان کے ساتھ ہار جائیں گی۔ اور دونوں کو اکٹھے باہر ہونا پڑے گا۔
اگر اس چپقلش کا عمومی جائزہ لیا جائے تو نواز شریف بہتر پوزیشن میں نظر آتے ہیں۔ سرحدوں کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ حکومت کے خلاف کوئی ایڈونچر ہو سکے۔ افغانستان کا معاملہ بھی بہت خراب ہو گیا ہے۔ افغانستان میں گزشتہ چند ماہ میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں نے معاملات خاصے گمبھیر بنا دیے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمیں سمجھایا جاتا تھا کہ افغانستان ہماری strategic depth ہے۔ اسی کی وجہ سے ہم نے بھارت کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔ لیکن وقت نے اس ڈاکٹرائن کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ آج وہی افغانستان ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ جس حکمت یار کو کئی سال پال کر ہم نے نکال دیا تھا وہ آج کابل میں واپس آگیا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں پنجے گاڑ لیے ہیں۔ ایران کے معاملات بھی سب کے سامنے ہیں۔ وہاں بھی حالات سازگار نہیں ہیں۔ جب سرحدیں گرم ہوں تو اسٹیبلشمنٹ ایڈ ونچر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
دوسری طرف سی پیک بھی جمہوریت اور جمہوری نظام کی گار نٹی ثابت ہو رہا ہے۔ چین سی پیک کے لیے پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری نظام کو ضروری سمجھتا ہے۔ اسی لیے چاروں وزراء اعلیٰ اس وقت چین میں ہیں۔ یہ چین کی طرف سے پیغام ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو برابر دیکھتا ہے اور سب کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے۔ اس لیے سی پیک بھی اس وقت میاں نواز شریف کا گارنٹی کارڈ ہے۔
لیکن یہ حالات مستقل ایسے نہیں رہیں گے۔ کارگل کے بعد میاں نواز شریف کا اندازہ تھا کہ عالمی طاقتیں ان کے ساتھ ہیں لیکن یہ تجزیہ غلط ثابت ہو گیا۔ پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹ دیا لیکن امریکا خاموش رہا۔ اب بھی عالمی حالات نواز شریف کے حق میں لگتے ہیں لیکن سیاست کے کھیل میں اندازے غلط بھی ہو جاتے ہیں۔
افغانستان بھارت اور ایران کے معاملات نے اسٹیبلشمنٹ کو مصروف رکھا ہوا ہے اور وہ اسی دباؤ کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ اتنی بری پھنسی ہوئی ہے تو کھیل کیسے جاری ہے۔ کھیل تو ختم ہو جانا چاہیے لیکن یہی تو اس کھیل کا حسن ہے نہ یہاں کوئی فائنل ہار اور نہ ہی کوئی فائنل جیت۔ تھیوری کی منڈی سے نئی تھیوری آئی ہے کہ پاناما کا کھیل بھی باقی ہے۔ جو رعایت نیوز لیکس کی انکوائری میں دی گئی تھیں وہ اب نہیں دی جائیں گے۔ جو مفاہمت نیوز لیکس کے ابتدا میں ہوئی تھی اب پانامہ میں نہیں ہو گی۔ پتہ نہیں یہ کیوں جا رہا ہے کہ مریم نواز اب بھی نشانہ پر ہیں۔ تھیوری سمجھ سے باہر بھی ہے اور سمجھ کے اندر بھی۔بس یہی کھیل ہے۔