بلوچستان کے تازہ سانحات اور سوات آپریشن  کی یادیں

گزشتہ کئی برسوں سے مئی کا مہینہ پاکستان کے لیے آزمائشوں کا سامان بنتا آ رہا ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

رقبے اور معدنی وسائل کے اعتبار سے وطنِ عزیز کے سب سے بڑے صوبے،بلوچستان، کو ہمارے دشمنوں نے عین اُس وقت ہدف بنایا ہے جب وزیراعظم جناب نواز شریف اورچاروں صوبوں و گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ ملک میں موجود نہیں تھے۔

پاکستان کی یہ اہم ترین شخصیات چینی دارالحکومت،بیجنگ، میں منعقد ہونے والی اہم ترین کانفرنس میں شریک تھیں۔اسے ''وَن بیلٹ،وَن روڈ'' کانفرنس کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں دنیا کے وہ پچاس ممالک شریک ہُوئے ہیں جہاں چین نے اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت کو مدعو نہیں کیا گیا۔ نریندر مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا بڑا رنج ہے۔

بھارت کو مدعو نہ کیے جانے کا بہر حال یہ تصور سامنے آیا ہے کہ وہ کم از کم ''ون بیلٹ،ون روڈ'' کے شاندار عالمی اقتصادی منصوبے کے پس منظر میں تنہائی کا شکار بن گیا ہے۔تین دن پہلے دہشتگردوں نے بلوچستان کے علاقے، مستونگ، میں خود کش حملہ کیا جس میں بدقسمتی سے دو درجن سے زائد بے گناہ افراد شہید اور تقریباً اتنے ہی شدید زخمی ہُوئے ہیں۔ خود کش حملہ آور کا اصل ہدف سینیٹ کے ڈپٹی چئیرمین جناب عبدالغفور حیدری تھے۔

حیدری صاحب، مولانا فضل الرحمن صاحب کی پارٹی کے مرکزی رہنما اور ممتاز عالمِ دین بھی ہیں۔ اُن کا معتمد ڈرائیور اور دیگر کئی قریبی ساتھی جاں بحق ہو گئے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ مولانا حیدری معمولی زخمی ہُوئے ہیں۔ بلوچستان، جو پہلے ہی بھارتی سازشوں کے باعث خونم خون ہے، اس نئے سانحہ کے کارن اداس اور غمزدہ ہے۔ ابھی اس سانحہ کی بازگشت تھمنے بھی نہ پائی تھی کی دوسرے ہی دن، 13 مئی 2017ء کو، بلوچستان ہی کے دوسرے اہم شہر، گوادر، میںمزدوروں پر گولیاں برسا دی گئیں۔ پلک جھپکتے میں ایک درجن کے قریب معصوم مزدور شہید کر دئے گئے۔ پہلے سے بوجھل، افسردہ اور غمزدہ پاکستانیوں کے دل مزید افسردگی کی کہر میں لپٹ گئے ہیں۔

گوادر کے خلاف ہمارے دشمنوں نے پردے کے پیچھے بیٹھ کر جس خونی جنگ کا آغاز کر رکھا ہے، تازہ سانحہ کے پیشِ نظر تو صاف عیاں ہو رہا ہے کہ اس خونریز واردات کے عقب میں کس کا دستِ ستم کار فرماہے! پاکستان کی سلامتی اور پاکستان کی ترقی کے دشمنوں نے بڑی منصوبہ بندی اور سوچی سمجھی اسکیم کے تحت یہ دونوں تازہ وارداتیں کی ہیں۔

یہ خونی حملے گوادر اور سی پیک کے خلاف تو ہیں ہی، دشمنوں کی اصل نیت یہ بھی تھی کہ چین کے دورے پر گئے وزیر اعظم پاکستان اور پاکستان کے تمام وزرائے اعلیٰ کو عالمی میڈیا کے سامنے نادم کر دیا جائے۔ اللہ کے فضل و کرم سے مگر دشمنوں کی ساری اسٹرٹیجی اور منصوبہ بندی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے کہ ہماری متذکرہ سیاسی قیادت جن مقاصد کے تحت بیجنگ میں موجود تھی، وہ مقاصد بھی پورے ہُوئے ہیں اور اہداف بھی۔

گزشتہ کئی برسوں سے مئی کا مہینہ پاکستان کے لیے آزمائشوں کا سامان بنتا آ رہا ہے۔ ابھی مئی 2017ء طلوع ہُوا ہی تھا کہ ''کسی'' کی شہ پر افغانستان ایسے کمزور ترین اور ''برادر'' ملک نے بلوچستان کے دو سرحدی دیہاتوں (کِلی جہانگیر اور کِلی لقمان) پر حملہ کر دیا۔ بِلا وجہ ہمارے بارہ تیرہ بے گناہ پاکستانی شہری شہید کر ڈالے۔ افغان فورسز نے یہ بزدلانہ حملہ اُسوقت کیاجب مذکورہ دونوں دیہاتوں میں پاکستانی عملہ مردم اور خانہ شماری کے فرائض انجام دے رہا تھا۔


پاکستانی عوام مگر پوچھ رہے ہیںکہ آیا بلوچستان میں افغان جارحیت اورپاکستان کے خلاف ایرانی جرنیل،جنرل حسین باقری،کی دھمکی کا شافی جواب دے دیا گیا ہے؟ یہ بھی مئی ہی کا مہینہ تھا جب جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کراچی میں کئی وکیلوں کو بے دردی سے مار ڈالا گیا۔

یہ بھی 16مئی(2009ء)کا دن تھا جب ہماری بہادر افواج سوات اور اس کے آس پاس کے اُن تمام علاقوں کو وا گزار کرانے میدانِ کارزار میں اُتریں جو علاقے دہشتگردوں کے قبضے میں چلے گئے تھے۔ ان دہشتگردوں کی تعداد تو سات آٹھ ہزار ہی تھی لیکن وہ سوات کی وسیع وادی میں اس منظم طریقے سے پھیل گئے تھے کہ اُن کاکامل صفایا کرنے کے لیے افواجِ پاکستان کو تقریباً تیس ہزار فوجی میدان میں لانے پڑے۔ ان دہشتگردوں نے اپنی خونی وارداتوں اور نفسیاتی ہتھکنڈوں سے مقامی آبادی کو اتنا ڈرارکھا تھا کہ ہماری سیکیورٹی فورسز کے ایک ایک فرد کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا پڑا تھا۔ گولی بھی احتیاط سے داغنی تھی۔

پاکستان کے دشمنوں کے خلاف بروئے کار لائے جانے والے اِس عسکری اقدام کو ''آپریشن راہِ راست'' سے موسوم کیا گیا تھا۔ اس دوران دو ملین مقامی آبادی کو ہجرت کا عذاب بھی برداشت کرنا پڑا تھا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ افواج ِ پاکستان کے دو سو کے قریب جوانوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر (اور تین ہزار دہشتگردوں کی جانیں لے کر) وادی سوات میں کامل امن بھی قائم کر دیا اور اس انتہائی خوبصورت علاقے کی خوشیاں بھی بحال کر دیں۔ بے گھر ہونے والے تقریباً بیس لاکھ افراد بھی واپس آ کر اپنے اپنے گھر آباد کر چکے ہیں۔ حکومت،فوج اور پولیس کو سواتی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے بڑی محنت ،احتیاط اور تندہی کا مظاہرہ کرنا پڑا۔

تقریباً آٹھ سال قبل سوات اور اس کے آس پاس دہشتگردوں اور فسادیوں کے خلاف کامیابیاں سمیٹنے اور مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ فوجی آپریشن بند کر دیا گیا تھا۔ فوج مگر اس علاقے میں مسلسل موجود رہی ہے۔ نئی فوجی چھاؤنی کی بنیادیں بھی رکھی جا چکی ہیں۔ اِس علاقے میں مستقل قیامِ امن کے لیے نئی فوجی چھاؤنی کا وجود ناگزیر ہو گیا تھا،اگرچہ بعض اطراف سے اس کی مخالفت میں چند آوازیں بھی اُٹھیں۔

سوات اور اس کے مضافات میں گزشتہ نصف عشرے سے زائد عرصہ سے فوج، پولیس، کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپاٹمنٹ(CTD)اور عوام مسلسل ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر باہمی تعاون کی قابلِ فخر مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ اس کے نہائیت مثبت نتائج بھی برآمد ہُوئے ہیں۔ مثال کے طور پر خیبر پختون خوا (سوات جس کا مشہور ترین خطہ ہے) کے نئے آئی جی پولیس، صلاح الدین خان محسود، کو چند دن قبل ہی ''سی ٹی ڈی''نے جو مفصل بریفنگ دی ہے،وہ نہائیت حوصلہ افزا ہے۔

سی ٹی ڈی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل(مبارک زیب)نے صلاح الدین صاحب کو بتایاکہ خیبر پختون خوا میں 2009ء اور 2010ء کے مقابلے میں آج دہشتگردی اور دہشتگردوں کے حملوں میں 90 فیصد کمی ہو چکی ہے۔ اور اگر 2014ء سے تقابل کیا جائے تو یہ کمی 80 فیصد کہی جائے گی۔ جناب مبارک زیب نے یہ بھی بتایا ہے کہ 2017ء کے پہلے چار ماہ کا تقابل اگر گزشتہ برس کے پہلے چار مہینوں سے کیا جائے تو یہ بات اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ دہشتگردانہ حملوں میں 43فیصد، بم دھماکوں میں 50فیصد اور ٹار گٹ کلنگ میں 31 فیصد کمی واقع ہُوئی ہے۔ اِن نمایاں کامیابیوں پر فوج سمیت تمام سیکیورٹی فورسز کی پیٹھ ٹھون کی جانی چاہیے۔

رواں برس کے دوران ''کے پی کے'' میں کسی نے کوئی راکٹ چلایا ہے،نہ ملک دشمن کسی تنظیم کی طرف سے کسی کو میزائل داغنے کی جرأت ہوسکی ہے اور نہ ہی کار بم دھماکے کا کوئی سانحہ رونما ہُوا ہے۔ الحمد للہ۔مبارک زیب صاحب نے اپنے چیف کی موجودگی میں یہ بھی کہا کہ دہشتگردی کے حوالے سے پچھلا سال بہت ہی پُر امن گزراتھا اور، بقول اُن کے،یہ سب پولیس ،سی ٹی ڈی اور فوجی آپریشنوں کے باعث ممکن ہو سکا۔دہشتگردوں، اغوا کاروں اور تاوان وصول کرنے والوں کے خلاف بھی ہماری سیکیورٹی فورسز کے متحدہ آپریشن جاری ہیں۔

ٹی ٹی پی کے بھگوڑوں اور سواتی ملّا فضل اللہ ایسے دہشتگردوں کو اگر افغانستان اپنے ہاں پناہ دینے اور اُنہیں متنوع اعانتیں فراہم کرنے سے انکار کر دے تو پاکستان اور افغانستان بیک وقت پائیدارامن کی جُملہ نعمتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ شومئی قسمت سے افغانستان، پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے اور کروانے میں بھارت کی انگلیوں پر ناچ رہا ہے۔
Load Next Story