پنجاب کا آئندہ وزیراعلیٰ پنجاب سے ہو گا
انتخابات کے بعد پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی
جسٹس (ر)فخرالدین جی ابراہیم قومی سطح پر اتفاق رائے سے چیف الیکشن کمشنربن گئے ہیں۔ اب پاکستانی سیاست انتخابی عمل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) نگران سیٹ اپ کیلئے رابطے میں ہیں جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے اس حوالے سے تحفظات ہیں۔
اس صورتحال میں صدر آصف زرداری نے واضح کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اور ساتھ یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ انتخابات کے بعد پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی اور آئندہ پنجاب کا وزیراعلیٰ ایک جیالاہوگا۔کیا پنجاب میں صدر زرداری کا یہ دعویٰ حقیقت کا روپ دھار سکے گا یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آئندہ انتخابات ہی میں مل سکے گا۔
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا لوگ پیپلزپارٹی کی گورننس سے خوش ہیں اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پاس ایسی لیڈر شپ ہے جو صدرزرداری کے اس خواب کی تعبیرکر سکے؟ سندھ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کی حد تک صدر زرداری کا یہ دعویٰ درست ہوسکتا ہے مگر وسطی پنجاب میں ان کا یہ نعرہ حقیقت بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔
صدر زرداری نے جتنے خواب دیکھے اس پر کوشش کرکے عمل درآمد بھی کیا لیکن ان کے پاس پنجاب میں ایسی ٹیم نہیں ہے جو ا ن کے خوابوں کی تکمیل کرسکے۔ خوابوں کی تعبیر محض الفاظ سے نہیں عمل سے ہوتی ہے۔ صدر زرداری نے خواب ٹھیک دیکھا ہے لیکن اس خواب کی تعبیر کیلئے انہیں پیادے بدلنے پڑیں گے۔
پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پاس سب سے اہم عہدہ گورنر کا ہے۔ گورنر ہاؤس کو پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے مگر وہاں کوئی سیاسی گہماگہمی نہیں ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گورنر ہاؤس یتیم خانے کی بجائے سیاسی آماجگاہ بنے اور سیاسی سرگرمیاں نظر آئیں۔ گورنر ہاؤس میں کبھی کوئی قابل ذکر فنکشن نہیں ہوا۔
صدر زرداری ،وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور فریال تالپور کو بھی گورنر ہاؤس میں اپنے پروگرامز کے انتظامات خود کرنا پڑتے ہیں ۔ گورنر ہاؤس اور وزراء میں کوئی کوآرڈی نیشن نہیں ہے۔وفاقی وزراء کا زیادہ رجحان سنٹرل پنجاب کی بجائے اسلام آبادکی طرف ہے۔ پنجاب میں وزراء اپنے حلقوں کی سطح تک محدود ہیں۔
سب اپنے اپنے سنہری خواب دیکھ رہے ہیں اور ڈنگ ٹپاؤ پروگرام چلا رہے ہیں۔ دراصل گورنر ہاؤس کا رویہ غیر سیاسی ہے جس کی وجہ سے اثرات نظر نہیں آتے۔ سابق گورنر سلمان تاثیر نے سیاسی رویہ رکھا اور بہتر سیاست کی، اس سے لوگوں کو خوابوں کی تکمیل نظر آرہی تھی۔
ان کے دور میں کارکنوں کی گورنر ہاؤس میں بہت آمد و رفت رہتی تھی اور انہیں تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا۔ گورنر ہاؤس میں گرینڈ افطار ڈنر بھی دئیے جاتے تھے۔ اس وقت کارکنوں کو گورنر ہاؤس پہنچ کر پیپلزپارٹی کی حکومت کا احساس ہوتا تھا۔
آئندہ الیکشن میں اصل جنگ وسطی پنجاب میں ہو گی۔ اس خطے کا انتخابی ماحول پورے پاکستان پر اثر انداز ہوتاہے۔ اس خطے کو چار سال کے دوران نظرانداز کیا گیا۔ اصل فیصلے یہاں ہونے ہیں مگر یہاں کچھ نہیں دیا گیا۔ قیادت بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ اب شمالی پنجاب سے بھی راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن گئے ہیں شاید وہاں اس کا کچھ اثر پڑے۔ وسطی پنجاب میں الیکشن جیتنے کیلئے عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا۔
پنجاب اسمبلی میں بھی پیپلزپارٹی بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ارکان اجلاس کے دوران عدم دلچسپی کا شکار رہتے ہیں،انہیں کوئی پالیسی گائیڈ لائن نہیں دی جاتی اور ایوان کی کارروائی میں تیاری کے ساتھ حصہ نہیں لیا جاتا۔ پنجاب حکومت نے ریکارڈ قانون سازی کی ہے مگر اپوزیشن نے اس قانون سازی میں حصہ نہیں لیااور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔
مسلم لیگ (ق) کے ارکان تعداد میںکم ہونے کے باجود اسمبلی کی کارروائی میں زیادہ موثر ہیں۔ وہ تیاری سے ایوان میں آتے ہیں اور مختلف ایشوز پر حکومتی بنچوں کو بے بس کردیتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد اور سابق وزراء ایوان میں اہم قانون سازی کے وقت غائب رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر میجر(ر) ذوالفقار گوندل، احسان الحق نولاٹیہ ،کرنل(ر) شبیراعوان، میجر(ر) عبدالرحمن، رائے شاہجہاں بھٹی اور چند دیگر ارکان اپنے طور پر کارروائی میں حصہ لیتے ہیں۔
پنجاب میںپیپلزپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی بہت کمزور ہے۔ صوبائی صدر امیتازصفدروڑائچ صوبائی دارالحکومت لاہور کی بجائے اسلام آباد میں زیادہ وقت گزارتے ہیں ۔ صدر زرداری اگر آئندہ عام انتخابات میں اچھے نتائج چاہتے ہیں تو پہلے صوبے میں ایسی لیڈر شپ دیں جو ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے۔ جب تک وہ خود پنجاب کو نہیں دیکھیں گے یہاں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کو نقصان ہوگا۔
اس صورتحال میں صدر آصف زرداری نے واضح کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اور ساتھ یہ بھی دعویٰ کر دیا کہ انتخابات کے بعد پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوگی اور آئندہ پنجاب کا وزیراعلیٰ ایک جیالاہوگا۔کیا پنجاب میں صدر زرداری کا یہ دعویٰ حقیقت کا روپ دھار سکے گا یہ ایک سوالیہ نشان ہے جس کا جواب آئندہ انتخابات ہی میں مل سکے گا۔
ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا لوگ پیپلزپارٹی کی گورننس سے خوش ہیں اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پاس ایسی لیڈر شپ ہے جو صدرزرداری کے اس خواب کی تعبیرکر سکے؟ سندھ، بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب کی حد تک صدر زرداری کا یہ دعویٰ درست ہوسکتا ہے مگر وسطی پنجاب میں ان کا یہ نعرہ حقیقت بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔
صدر زرداری نے جتنے خواب دیکھے اس پر کوشش کرکے عمل درآمد بھی کیا لیکن ان کے پاس پنجاب میں ایسی ٹیم نہیں ہے جو ا ن کے خوابوں کی تکمیل کرسکے۔ خوابوں کی تعبیر محض الفاظ سے نہیں عمل سے ہوتی ہے۔ صدر زرداری نے خواب ٹھیک دیکھا ہے لیکن اس خواب کی تعبیر کیلئے انہیں پیادے بدلنے پڑیں گے۔
پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پاس سب سے اہم عہدہ گورنر کا ہے۔ گورنر ہاؤس کو پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے مگر وہاں کوئی سیاسی گہماگہمی نہیں ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گورنر ہاؤس یتیم خانے کی بجائے سیاسی آماجگاہ بنے اور سیاسی سرگرمیاں نظر آئیں۔ گورنر ہاؤس میں کبھی کوئی قابل ذکر فنکشن نہیں ہوا۔
صدر زرداری ،وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور فریال تالپور کو بھی گورنر ہاؤس میں اپنے پروگرامز کے انتظامات خود کرنا پڑتے ہیں ۔ گورنر ہاؤس اور وزراء میں کوئی کوآرڈی نیشن نہیں ہے۔وفاقی وزراء کا زیادہ رجحان سنٹرل پنجاب کی بجائے اسلام آبادکی طرف ہے۔ پنجاب میں وزراء اپنے حلقوں کی سطح تک محدود ہیں۔
سب اپنے اپنے سنہری خواب دیکھ رہے ہیں اور ڈنگ ٹپاؤ پروگرام چلا رہے ہیں۔ دراصل گورنر ہاؤس کا رویہ غیر سیاسی ہے جس کی وجہ سے اثرات نظر نہیں آتے۔ سابق گورنر سلمان تاثیر نے سیاسی رویہ رکھا اور بہتر سیاست کی، اس سے لوگوں کو خوابوں کی تکمیل نظر آرہی تھی۔
ان کے دور میں کارکنوں کی گورنر ہاؤس میں بہت آمد و رفت رہتی تھی اور انہیں تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا۔ گورنر ہاؤس میں گرینڈ افطار ڈنر بھی دئیے جاتے تھے۔ اس وقت کارکنوں کو گورنر ہاؤس پہنچ کر پیپلزپارٹی کی حکومت کا احساس ہوتا تھا۔
آئندہ الیکشن میں اصل جنگ وسطی پنجاب میں ہو گی۔ اس خطے کا انتخابی ماحول پورے پاکستان پر اثر انداز ہوتاہے۔ اس خطے کو چار سال کے دوران نظرانداز کیا گیا۔ اصل فیصلے یہاں ہونے ہیں مگر یہاں کچھ نہیں دیا گیا۔ قیادت بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ اب شمالی پنجاب سے بھی راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بن گئے ہیں شاید وہاں اس کا کچھ اثر پڑے۔ وسطی پنجاب میں الیکشن جیتنے کیلئے عملی طور پر کچھ کرنا ہوگا۔
پنجاب اسمبلی میں بھی پیپلزپارٹی بھرپور اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ارکان اجلاس کے دوران عدم دلچسپی کا شکار رہتے ہیں،انہیں کوئی پالیسی گائیڈ لائن نہیں دی جاتی اور ایوان کی کارروائی میں تیاری کے ساتھ حصہ نہیں لیا جاتا۔ پنجاب حکومت نے ریکارڈ قانون سازی کی ہے مگر اپوزیشن نے اس قانون سازی میں حصہ نہیں لیااور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔
مسلم لیگ (ق) کے ارکان تعداد میںکم ہونے کے باجود اسمبلی کی کارروائی میں زیادہ موثر ہیں۔ وہ تیاری سے ایوان میں آتے ہیں اور مختلف ایشوز پر حکومتی بنچوں کو بے بس کردیتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض احمد اور سابق وزراء ایوان میں اہم قانون سازی کے وقت غائب رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر میجر(ر) ذوالفقار گوندل، احسان الحق نولاٹیہ ،کرنل(ر) شبیراعوان، میجر(ر) عبدالرحمن، رائے شاہجہاں بھٹی اور چند دیگر ارکان اپنے طور پر کارروائی میں حصہ لیتے ہیں۔
پنجاب میںپیپلزپارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی بہت کمزور ہے۔ صوبائی صدر امیتازصفدروڑائچ صوبائی دارالحکومت لاہور کی بجائے اسلام آباد میں زیادہ وقت گزارتے ہیں ۔ صدر زرداری اگر آئندہ عام انتخابات میں اچھے نتائج چاہتے ہیں تو پہلے صوبے میں ایسی لیڈر شپ دیں جو ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھا سکے۔ جب تک وہ خود پنجاب کو نہیں دیکھیں گے یہاں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور آئندہ الیکشن میں پیپلزپارٹی کو نقصان ہوگا۔