مظلوم محنت کش
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو<br />
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
مئی میں بلا کی گرمی پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ اتنی شدید گرمی کہ چیل انڈا چھوڑے۔ اس حوالے سے عظیم شاعر مولانا اسماعیل میرٹھی کی خوبصورت نظم کے یہ اشعار ہمیں پیرانہ سالی میں آج بھی ازبر ہیں۔
بجے بارہ تو سورج سر پر آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایہ
مئی کی پہلی تاریخ کو شکاگو شہید مزدوروں کی یاد میں ہر سال یوم مئی بڑے جوش وخروش سے دنیا کے مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے مگر خلیجی ممالک کے مجبور مزدور اس روز بھی چلچلاتی دھوپ میںکام کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی حالت زار پر نہ تو اقوام عالم کو رحم آتا ہے اور نہ نام نہاد انسانی حقوق کے تحفظ کی ٹھیکے دار تنظیموں کوکوئی ترس آتا ہے۔ خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور محنت کشوں کی مظلومیت اور بے چارگی کی تصویرکشی کے لیے درج ذیل شعر ہی کافی ہے:
لکھ پردیس قسمت میں وطن کو یاد کیا کرنا
جہاں بے درد ہوں حاکم وہاں فریاد کیا کرنا
دور حاضر کے استحصالی نظام میں بے چارے محنت کشوں کا نہ کوئی ماضی تھا، نہ حال اور نہ کوئی مستقبل۔ ان بے کسوں کی حالت بد سے بدتر ہورہی ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی ہر سال یکم مئی کو یوم مئی منایا جاتا ہے، لیکن یہ محض ایک دکھاوے اور تماشے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ بے شک اس دن جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی جاتی ہے لیکن دراصل اس کی حقیقت اور اہمیت صرف پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتی۔ حکمرانوں کی جانب سے اس موقعے پر خصوصی پیغامات بھی جاری کیے جاتے ہیں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بہت سے جھوٹے دعوے اور بلند و بانگ وعدے بھی کیے جاتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ بقول شاعر:
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا
گزشتہ یوم مئی سے صرف دو دن پہلے کا واقعہ ہے کہ کراچی کے علاقے قیوم آباد میں زیر تعمیر ایک عمارت کے بانسوں کے اسٹرکچر پر کام کرتا ہوا ایک محنت کش اچانک پھسلا اورگرتے ہی جان بحق ہوگیا۔اس کے ساتھی مزدور اسے لے کر فوراً جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے اس کا طبی معائنہ کرنے کے بعد اسے مردہ قرار دے دیا۔ قصہ مختصر اس کے لواحقین اسپتال پہنچے اور اس کی تدفین کے لیے اسے اپنے ہمراہ لے کر اندرون سندھ چلے گئے۔ غالباً اسی قسم کی کیفیت نے شاعر مشرق علامہ اقبال کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہوگا۔
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
مذکورہ بالا واقعہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں کثیر المنزلہ عمارتوں کا ایک سیلاب سا امڈ ہوا ہے اور ایک جنگل سا اگ رہا ہے نہ جانے اس قسم کے سانحات اور حادثات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہوں گے مگر جن کی رپورٹنگ ہونے سے رہ جاتی ہوگی۔ اس شہر ناپرساں میں جہاں جگہ جگہ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہوں اور سڑکوں اور راستوں پر کھلے عام گٹر ابل رہے ہوں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ بھلا روشنیوں کے اس شہر میں جہاں لوڈ شیڈنگ کی لعنت کی وجہ سے اندھیروں نے ڈیرے جمائے ہوئے ہوں حادثات اور سانحات کا شکار ہونے والے محنت کشوں کا پرسان حال بھلا کون ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی بدنصیبوں کے بارے میں غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے:
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
اسی تناظر میں ہمیں برسوں پرانا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو ہمارے ذاتی مشاہدے میں ہے۔ یہ ایک رنگ روغن بنانے والی کراچی کی ایک فیکٹری کا قصہ ہے جس میں اچھی خاصی تعداد میں محنت کش کام کرتے تھے۔ اس فیکٹری کے مالک تاجر برادری کے ایک سرخیل تھے جو بظاہر بڑے اچھے اور باشرع مسلمان نظر آتے تھے۔ دینی اجتماعات میں شرکت کرنا اور حج پر حج اور عمرے پر عمرہ ادا کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا جس کی بنا پر ان کے بارے میں لوگوں کا عام تاثر ان کی عملی زندگی سے بالکل مختلف تھا۔ مگر ان کا اصل چہرہ جو اس سے قطعی مختلف تھا لوگوں کی نظروں سے بالکل اوجھل تھا۔
موصوف ایک مخصوص عرصے کے بعد اپنے مزدوروں کی فہرست سے ان کا نام خارج کردیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ انھیں چند دنوں کے لیے کچھ رقم بھی مرحمت فرما دیا کرتے تھے جسے پاکر مزدور ان کی دریا دلی اور فیاضی کے قائل ہوجاتے تھے، مگر ان کے اس حربے کا اصل مقصد اس مخصوص مدت کو پورا نہ ہونے دینا تھا جس کی تکمیل کے بعد لیبر قوانین کے تحت مزدورکو مستقل ملازم کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ مزدوروں سے بے تحاشا کام لینا موصوف کی پرانی عادت تھی۔ اس کے علاوہ مزدوروں سے بے تحاشا کام لینا موصوف کی پرانی عادت تھی۔
ہم نے ایک مزدورکو جو دیگر مزدوروں کا سپروائزر تھا ایک روز یہ دل سوز واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا تھا کہ وہ لانڈھی کے دور دراز علاقے سے منہ اندھیرے فیکٹری کے لیے نکلتا ہے اور رات گیارہ بجے تھکا ہارا اپنے گھر کو واپس لوٹتا ہے۔اس کے دل میں یہ حسرت لوٹتی تھی کہ کاش! اپنے بچوں کو جاگتا ہوا دیکھے کیونکہ اس کے گھر واپس پہنچنے تک وہ اس کے انتظار میں سوچکے ہوتے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بے چارے محنت کش کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ دن رات جن کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے وہ اسے انسان ہی نہیں سمجھتے۔ وطن عزیز میں لیبر قوانین موجود ہیں لیکن دیگر اور قوانین کی طرح ان کے نفاذ اور مانیٹرنگ کا شدید فقدان ہے۔ کراچی کی سائٹ فیکٹری کا گزشتہ المناک اور انسانیت سوز واقعہ اس کا تازہ ترین ثبوت ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ فیکٹری ملازمین، کان کن مزدوروں، بھٹے کے مزدوروں اور گھریلو ملازمین کی داد فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ شپ بریکنگ کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کا بھی برا حال ہے جس کا اندازہ گزشتہ دنوں کے حادثات اور سانحات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جب بھی کوئی بڑا حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے تو بہت شوروغل اور واویلا مچتا ہے اور میڈیا بھی آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔
ہر طرف اس حادثے یا سانحے کے چرچے ہوتے ہیں اور بے تحاشا سیاسی بیان بازی بھی ہوتی ہے جس سے ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد تحقیقات کے نتائج منظرعام پر آجائیں گے اور ذمے داروں کوکیفرکردار تک پہنچا دیا جائے گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے سے بڑا معاملہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اور نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ اورکچھ نہیں نکلتا۔آج کل اسلام آباد کی گھریلو ملازمہ طیبہ کے ساتھ ہونے والی انسانیت سوز بدسلوکی کا معاملہ ہمارے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سنگین معاملے کا نوٹس ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان نے بذات خود لے لیا ہے اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ مجرم قرار واقعی سزا پائے بغیر بچ کر نکل نہیں سکتے۔ ہماری خواہش اور امید ہے کہ یہ معاملہ بلا تاخیر جلد سے جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ یہ معاملہ طول نہیں پکڑے گا کیونکہ انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ غیر ضروری تاخیر سے اجتناب کیا جائے۔ بقول شخصے: "Justice Delayed is Justice Denied"
بجے بارہ تو سورج سر پر آیا
ہوا پیروں تلے پوشیدہ سایہ
مئی کی پہلی تاریخ کو شکاگو شہید مزدوروں کی یاد میں ہر سال یوم مئی بڑے جوش وخروش سے دنیا کے مختلف ممالک میں منایا جاتا ہے مگر خلیجی ممالک کے مجبور مزدور اس روز بھی چلچلاتی دھوپ میںکام کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی حالت زار پر نہ تو اقوام عالم کو رحم آتا ہے اور نہ نام نہاد انسانی حقوق کے تحفظ کی ٹھیکے دار تنظیموں کوکوئی ترس آتا ہے۔ خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور محنت کشوں کی مظلومیت اور بے چارگی کی تصویرکشی کے لیے درج ذیل شعر ہی کافی ہے:
لکھ پردیس قسمت میں وطن کو یاد کیا کرنا
جہاں بے درد ہوں حاکم وہاں فریاد کیا کرنا
دور حاضر کے استحصالی نظام میں بے چارے محنت کشوں کا نہ کوئی ماضی تھا، نہ حال اور نہ کوئی مستقبل۔ ان بے کسوں کی حالت بد سے بدتر ہورہی ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں بھی ہر سال یکم مئی کو یوم مئی منایا جاتا ہے، لیکن یہ محض ایک دکھاوے اور تماشے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ بے شک اس دن جلسے اور جلوسوں کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا میں اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر بھی کی جاتی ہے لیکن دراصل اس کی حقیقت اور اہمیت صرف پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہوتی۔ حکمرانوں کی جانب سے اس موقعے پر خصوصی پیغامات بھی جاری کیے جاتے ہیں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بہت سے جھوٹے دعوے اور بلند و بانگ وعدے بھی کیے جاتے ہیں جو کبھی پورے نہیں ہوتے۔ بقول شاعر:
وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا
گزشتہ یوم مئی سے صرف دو دن پہلے کا واقعہ ہے کہ کراچی کے علاقے قیوم آباد میں زیر تعمیر ایک عمارت کے بانسوں کے اسٹرکچر پر کام کرتا ہوا ایک محنت کش اچانک پھسلا اورگرتے ہی جان بحق ہوگیا۔اس کے ساتھی مزدور اسے لے کر فوراً جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر پہنچے جہاں ڈاکٹروں نے اس کا طبی معائنہ کرنے کے بعد اسے مردہ قرار دے دیا۔ قصہ مختصر اس کے لواحقین اسپتال پہنچے اور اس کی تدفین کے لیے اسے اپنے ہمراہ لے کر اندرون سندھ چلے گئے۔ غالباً اسی قسم کی کیفیت نے شاعر مشرق علامہ اقبال کو یہ کہنے پر مجبور کردیا ہوگا۔
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
مذکورہ بالا واقعہ کوئی پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں کثیر المنزلہ عمارتوں کا ایک سیلاب سا امڈ ہوا ہے اور ایک جنگل سا اگ رہا ہے نہ جانے اس قسم کے سانحات اور حادثات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہوں گے مگر جن کی رپورٹنگ ہونے سے رہ جاتی ہوگی۔ اس شہر ناپرساں میں جہاں جگہ جگہ غلاظت اور گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہوں اور سڑکوں اور راستوں پر کھلے عام گٹر ابل رہے ہوں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ بھلا روشنیوں کے اس شہر میں جہاں لوڈ شیڈنگ کی لعنت کی وجہ سے اندھیروں نے ڈیرے جمائے ہوئے ہوں حادثات اور سانحات کا شکار ہونے والے محنت کشوں کا پرسان حال بھلا کون ہوسکتا ہے۔ ایسے ہی بدنصیبوں کے بارے میں غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے:
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
اسی تناظر میں ہمیں برسوں پرانا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جو ہمارے ذاتی مشاہدے میں ہے۔ یہ ایک رنگ روغن بنانے والی کراچی کی ایک فیکٹری کا قصہ ہے جس میں اچھی خاصی تعداد میں محنت کش کام کرتے تھے۔ اس فیکٹری کے مالک تاجر برادری کے ایک سرخیل تھے جو بظاہر بڑے اچھے اور باشرع مسلمان نظر آتے تھے۔ دینی اجتماعات میں شرکت کرنا اور حج پر حج اور عمرے پر عمرہ ادا کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا جس کی بنا پر ان کے بارے میں لوگوں کا عام تاثر ان کی عملی زندگی سے بالکل مختلف تھا۔ مگر ان کا اصل چہرہ جو اس سے قطعی مختلف تھا لوگوں کی نظروں سے بالکل اوجھل تھا۔
موصوف ایک مخصوص عرصے کے بعد اپنے مزدوروں کی فہرست سے ان کا نام خارج کردیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ انھیں چند دنوں کے لیے کچھ رقم بھی مرحمت فرما دیا کرتے تھے جسے پاکر مزدور ان کی دریا دلی اور فیاضی کے قائل ہوجاتے تھے، مگر ان کے اس حربے کا اصل مقصد اس مخصوص مدت کو پورا نہ ہونے دینا تھا جس کی تکمیل کے بعد لیبر قوانین کے تحت مزدورکو مستقل ملازم کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ مزدوروں سے بے تحاشا کام لینا موصوف کی پرانی عادت تھی۔ اس کے علاوہ مزدوروں سے بے تحاشا کام لینا موصوف کی پرانی عادت تھی۔
ہم نے ایک مزدورکو جو دیگر مزدوروں کا سپروائزر تھا ایک روز یہ دل سوز واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا تھا کہ وہ لانڈھی کے دور دراز علاقے سے منہ اندھیرے فیکٹری کے لیے نکلتا ہے اور رات گیارہ بجے تھکا ہارا اپنے گھر کو واپس لوٹتا ہے۔اس کے دل میں یہ حسرت لوٹتی تھی کہ کاش! اپنے بچوں کو جاگتا ہوا دیکھے کیونکہ اس کے گھر واپس پہنچنے تک وہ اس کے انتظار میں سوچکے ہوتے تھے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بے چارے محنت کش کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ وہ دن رات جن کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے وہ اسے انسان ہی نہیں سمجھتے۔ وطن عزیز میں لیبر قوانین موجود ہیں لیکن دیگر اور قوانین کی طرح ان کے نفاذ اور مانیٹرنگ کا شدید فقدان ہے۔ کراچی کی سائٹ فیکٹری کا گزشتہ المناک اور انسانیت سوز واقعہ اس کا تازہ ترین ثبوت ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ فیکٹری ملازمین، کان کن مزدوروں، بھٹے کے مزدوروں اور گھریلو ملازمین کی داد فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ شپ بریکنگ کی صنعت سے وابستہ مزدوروں کا بھی برا حال ہے جس کا اندازہ گزشتہ دنوں کے حادثات اور سانحات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ جب بھی کوئی بڑا حادثہ یا سانحہ رونما ہوتا ہے تو بہت شوروغل اور واویلا مچتا ہے اور میڈیا بھی آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔
ہر طرف اس حادثے یا سانحے کے چرچے ہوتے ہیں اور بے تحاشا سیاسی بیان بازی بھی ہوتی ہے جس سے ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد تحقیقات کے نتائج منظرعام پر آجائیں گے اور ذمے داروں کوکیفرکردار تک پہنچا دیا جائے گا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے سے بڑا معاملہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اور نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ اورکچھ نہیں نکلتا۔آج کل اسلام آباد کی گھریلو ملازمہ طیبہ کے ساتھ ہونے والی انسانیت سوز بدسلوکی کا معاملہ ہمارے میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سنگین معاملے کا نوٹس ہمارے چیف جسٹس آف پاکستان نے بذات خود لے لیا ہے اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ مجرم قرار واقعی سزا پائے بغیر بچ کر نکل نہیں سکتے۔ ہماری خواہش اور امید ہے کہ یہ معاملہ بلا تاخیر جلد سے جلد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ یہ معاملہ طول نہیں پکڑے گا کیونکہ انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ غیر ضروری تاخیر سے اجتناب کیا جائے۔ بقول شخصے: "Justice Delayed is Justice Denied"