یوسف رضاگیلانی کو اہم ذمہ داریاں مل گئیں
یوسف رضا گیلانی کی بطور پارٹی وائس چیئرمین موجودگی ان کیلئے بڑی...
KARACHI:
قومی انتخابات کا موسم آنے کو ہے۔ بدلتے منظر نامے میں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی صفیں درست کرنا شروع کردی ہیں۔ پارٹی اجلاسوں میں نئے انتخابات زیر بحث ہیں اور حلقہ جاتی بنیادوں پر متوقع امیدواروں نے کام بھی شروع کردیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی اس عمل میں سب سے آگے نظر آتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے پارٹی عہدیداروں کو خاص طور پر اس بارے میں اہم ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی عدالت عظمٰی سے آئندہ پانچ برس کیلئے نااہل ہونے کے بعد صدر زرداری کیلئے مزید کارآمد ہوجائیں گے اور پارٹی معاملات چلانے میں صدر زرداری کیلئے بہت ممدومعاون ثابت ہونگے
کیونکہ انتخابات کے موقع پر آصف زرداری بطور صدر مملکت اپنے عہدے پر موجود ہونگے اور پارٹی اور سیاسی معاملات اپنے ہاتھوں نمٹانے پر انہیں کئی دقتوں کا سامنا ہوگا۔ ایسے میں یوسف رضا گیلانی کی بطور پارٹی وائس چیئرمین موجودگی ان کیلئے بڑی غنیمت ہوگی۔ اس غنیمت کا فائدہ صدر زرداری نے ابھی سے اٹھانا شروع کردیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ صدر زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو سیاسی جلسے کرنے' عوام رابطہ مہم شروع کرنے اور آئندہ پارٹی ٹکٹ کیلئے معاملات پر غور و خوض کرنے کا ٹاسک دیدیا ہے۔
آنے والے دنوں میں یوسف رضا گیلانی کا پارٹی میں کردار مزید موثر ہوجائے گا۔ شاہ محمود قریشی کے پیپلز پارٹی چھوڑ جانے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی جنوبی پنجاب کے واحد بڑے لیڈر ہیں جن کا اس خطے میں پیپلز پارٹی کیلئے کردار حتمی ہوگا۔ ان کی رائے کے مطابق خطے میں پارٹی فیصلے ہوںگے۔
پیپلز پارٹی کیلئے دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ ایک بڑا سیاسی چیلنج آئندہ قومی انتخابات کو تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کیلئے قابل قبول بنانا ہے۔ آئندہ انتخابات کے موقع پر آصف زرداری بطور صدر مملکت موجود ہوںگے۔
کئی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال پر شدید اعتراض ہے اور ان کی خواہش ہے کہ آئندہ انتخابات قطعی طورپر نگران حکومت کرائے اور آصف زرداری بطور صدر بھی موجود نہ ہوں۔
ان حالات میں اگر پاکستان کے نئے انتخابات متنازعہ ہوگئے تو یہ ملک کیلئے بہت نقصان دہ ہوگا۔ ماضی بعید میں پیپلز پارٹی کی حکومت ایسے ہی ایک تجربے سے گزر چکی ہے اس لئے ضروری ہے کہ انتخابات ایسے ماحول میں ہوں جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔
پیپلز پارٹی نے متفقہ اور قابل قبول چیف الیکشن کمشنر لاکر پہلا مرحلہ تو عبور کرلیا اور شاید دوسرے مرحلے کیلئے کام کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایم کیو ایم کی مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں کی حالیہ مہم اور مجوزہ گول میز کانفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا
جو سب کیلئے قابل اعتبار ہو اور تمام سیاسی جماعتیں مقررہ وقت پر انتخابات صدر زرداری کی موجودگی میں قبول کرلیںاور ملک میں پہلی بار ایک سیاسی حکومت اپنا مقررہ عرصہ اقتدار مکمل کرکے نئی حکومت کو خوش گوار ماحول میں اقتدار منتقل کرے۔ پیپلز پارٹی جہاں ایک طرف منصوبہ بندی کرکے مناسب وقت پر قابل قبول انتخابات کیلئے لابنگ کررہی ہے
وہاں اس کی کوشش ہے کہ انتخابات کیلئے ایسا ماحول اور ایسے انتخابی اتحاد قائم کئے جائیں جس کے ذریعے پنجاب مسلم لیگ (ن) سے چھین لیا جائے۔ پیپلز پارٹی نے اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بنا لیا اور تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کا بھی فائدہ اٹھانے کا پورا پروگرام ہے۔ پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کو ٹف ٹائم دینے کیلئے جنوبی پنجاب کی سیاست پر زور دیا جائے گا۔
صدر زرداری نے خیر پور میں اپنے تلخ خطاب کے دوران مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر ایک مرتبہ پھر براہ راست حملہ کیا اور ڈھکے چھپے الفاظ میں انہیں آئندہ انتخابات کا باقاعدہ چیلنج دیدیا ہے اور آئندہ چاروں صوبوں میں اپنے وزرائے اعلیٰ لانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
سخت مہنگائی' خوفناک' لوڈ شیڈنگ' دوگنا ہوتی بیروز گاری' لڑکھڑاتی معیشت اور بدامنی میں گھرے معاشرے میں اگر پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات جیتنے اور سیاسی مخالفین کو چت کردینے کا دعویٰ کررہی ہے تو اس میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کم اور مخالف سیاسی جماعتوں کی ناکامی زیادہ چھپی ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت نے پولیس آپریشن کرکے پارٹی کے سابق رہنما مخدوم جاوید ہاشمی سے وقف شدہ زمین واپس چھین لی ہے جسے جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) کی انتقامی کارروائی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس زمین پر پنجاب حکومت نے میڈیکل سٹی بنانے کا اعلان کیا تھا اور جون 2009ء میں اسے میڈیکل سٹی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا
لیکن اب دربار مخدوم رشید سے ملحق اور وقف اس زمین کو چھین کر کسی اور شخص کو دے کر ان سے زیادتی کی گئی ہے اور آبائی طور پر ان کے زیر آباد زمین کو آپریشن سے چھین کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ایک پیغام دیا ہے۔
قومی انتخابات کا موسم آنے کو ہے۔ بدلتے منظر نامے میں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی صفیں درست کرنا شروع کردی ہیں۔ پارٹی اجلاسوں میں نئے انتخابات زیر بحث ہیں اور حلقہ جاتی بنیادوں پر متوقع امیدواروں نے کام بھی شروع کردیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی اس عمل میں سب سے آگے نظر آتی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے پارٹی عہدیداروں کو خاص طور پر اس بارے میں اہم ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ یوں لگ رہا ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی عدالت عظمٰی سے آئندہ پانچ برس کیلئے نااہل ہونے کے بعد صدر زرداری کیلئے مزید کارآمد ہوجائیں گے اور پارٹی معاملات چلانے میں صدر زرداری کیلئے بہت ممدومعاون ثابت ہونگے
کیونکہ انتخابات کے موقع پر آصف زرداری بطور صدر مملکت اپنے عہدے پر موجود ہونگے اور پارٹی اور سیاسی معاملات اپنے ہاتھوں نمٹانے پر انہیں کئی دقتوں کا سامنا ہوگا۔ ایسے میں یوسف رضا گیلانی کی بطور پارٹی وائس چیئرمین موجودگی ان کیلئے بڑی غنیمت ہوگی۔ اس غنیمت کا فائدہ صدر زرداری نے ابھی سے اٹھانا شروع کردیا ہے۔
اطلاعات ہیں کہ صدر زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو سیاسی جلسے کرنے' عوام رابطہ مہم شروع کرنے اور آئندہ پارٹی ٹکٹ کیلئے معاملات پر غور و خوض کرنے کا ٹاسک دیدیا ہے۔
آنے والے دنوں میں یوسف رضا گیلانی کا پارٹی میں کردار مزید موثر ہوجائے گا۔ شاہ محمود قریشی کے پیپلز پارٹی چھوڑ جانے کے بعد سید یوسف رضا گیلانی جنوبی پنجاب کے واحد بڑے لیڈر ہیں جن کا اس خطے میں پیپلز پارٹی کیلئے کردار حتمی ہوگا۔ ان کی رائے کے مطابق خطے میں پارٹی فیصلے ہوںگے۔
پیپلز پارٹی کیلئے دیگر چیلنجز کے ساتھ ساتھ ایک بڑا سیاسی چیلنج آئندہ قومی انتخابات کو تمام سیاسی جماعتوں اور عوام کیلئے قابل قبول بنانا ہے۔ آئندہ انتخابات کے موقع پر آصف زرداری بطور صدر مملکت موجود ہوںگے۔
کئی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال پر شدید اعتراض ہے اور ان کی خواہش ہے کہ آئندہ انتخابات قطعی طورپر نگران حکومت کرائے اور آصف زرداری بطور صدر بھی موجود نہ ہوں۔
ان حالات میں اگر پاکستان کے نئے انتخابات متنازعہ ہوگئے تو یہ ملک کیلئے بہت نقصان دہ ہوگا۔ ماضی بعید میں پیپلز پارٹی کی حکومت ایسے ہی ایک تجربے سے گزر چکی ہے اس لئے ضروری ہے کہ انتخابات ایسے ماحول میں ہوں جو سب کیلئے قابل قبول ہو۔
پیپلز پارٹی نے متفقہ اور قابل قبول چیف الیکشن کمشنر لاکر پہلا مرحلہ تو عبور کرلیا اور شاید دوسرے مرحلے کیلئے کام کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایم کیو ایم کی مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں کی حالیہ مہم اور مجوزہ گول میز کانفرنس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے ذریعے ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا
جو سب کیلئے قابل اعتبار ہو اور تمام سیاسی جماعتیں مقررہ وقت پر انتخابات صدر زرداری کی موجودگی میں قبول کرلیںاور ملک میں پہلی بار ایک سیاسی حکومت اپنا مقررہ عرصہ اقتدار مکمل کرکے نئی حکومت کو خوش گوار ماحول میں اقتدار منتقل کرے۔ پیپلز پارٹی جہاں ایک طرف منصوبہ بندی کرکے مناسب وقت پر قابل قبول انتخابات کیلئے لابنگ کررہی ہے
وہاں اس کی کوشش ہے کہ انتخابات کیلئے ایسا ماحول اور ایسے انتخابی اتحاد قائم کئے جائیں جس کے ذریعے پنجاب مسلم لیگ (ن) سے چھین لیا جائے۔ پیپلز پارٹی نے اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بنا لیا اور تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کا بھی فائدہ اٹھانے کا پورا پروگرام ہے۔ پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ (ن) کو ٹف ٹائم دینے کیلئے جنوبی پنجاب کی سیاست پر زور دیا جائے گا۔
صدر زرداری نے خیر پور میں اپنے تلخ خطاب کے دوران مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر ایک مرتبہ پھر براہ راست حملہ کیا اور ڈھکے چھپے الفاظ میں انہیں آئندہ انتخابات کا باقاعدہ چیلنج دیدیا ہے اور آئندہ چاروں صوبوں میں اپنے وزرائے اعلیٰ لانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔
سخت مہنگائی' خوفناک' لوڈ شیڈنگ' دوگنا ہوتی بیروز گاری' لڑکھڑاتی معیشت اور بدامنی میں گھرے معاشرے میں اگر پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات جیتنے اور سیاسی مخالفین کو چت کردینے کا دعویٰ کررہی ہے تو اس میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کم اور مخالف سیاسی جماعتوں کی ناکامی زیادہ چھپی ہوئی ہے۔
پنجاب حکومت نے پولیس آپریشن کرکے پارٹی کے سابق رہنما مخدوم جاوید ہاشمی سے وقف شدہ زمین واپس چھین لی ہے جسے جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) کی انتقامی کارروائی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس زمین پر پنجاب حکومت نے میڈیکل سٹی بنانے کا اعلان کیا تھا اور جون 2009ء میں اسے میڈیکل سٹی بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا
لیکن اب دربار مخدوم رشید سے ملحق اور وقف اس زمین کو چھین کر کسی اور شخص کو دے کر ان سے زیادتی کی گئی ہے اور آبائی طور پر ان کے زیر آباد زمین کو آپریشن سے چھین کر مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ایک پیغام دیا ہے۔