مشرقی پاکستان میں خون اور آنسوؤں کا دریا آخری حصہ
جان بچاکر کراچی پہنچنے والی ایک خاتون فہمیدہ بیگم جن کے خاوند ایک تجارتی کمپنی میں ملازم تھے نے ...
پاکستان سے عشق کرنیوالے دانشورقطب الدین عزیز کی انتہائی ریاضت سے مرتب کی گئی کتاب Blood & Tears(جسے سلیم منصور خالد نے ترجمہ کیا ہے) سے چند مزید واقعات قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔ یاد رہے کہ یہ اپنے ہی ملک کے باشندوں (جن میں سے اکثر کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے) کی دل دہلادینے والی آپ بیتیاں ہیں۔ یہ بربرّیت ہمارے ساتھ بھی بیت سکتی تھی۔ واقعات میں درج کردار ہمارے بہن بھائی بھی ہو سکتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں '' میں نے اپنی جان بچا کر آنے والے سیکڑوںغیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں سے ملاقات کی۔ ان لوگوں نے جو ثبوت فراہم کیے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ، اپریل1971ء میں مشرقی پاکستان میں کیے گئے قتل عام کا شکار ہونے والے غیر بنگالیوں کی تعداد پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے''۔
جان بچاکر کراچی پہنچنے والی ایک خاتون فہمیدہ بیگم جن کے خاوند ایک تجارتی کمپنی میں ملازم تھے نے دل چیر دینے والی یہ داستان سنائی کہ ''23 مارچ کی رات بنگالی دہشتگرد قاتل گروہ نے پوری قوت سے ہماری کالونی پر حملہ کردیا۔ اس دوران وہ ہمارے گھر پر بھی حملہ آور ہوئے۔ اُنھوں نے مقفل دروازے کو توڑ دیا اور میرے خاوند پر مشین گن سے فائر کیے۔ ان کے سینے سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ میں نے ان میں سے ایک سے بندوق چھین لی۔
اس پر انھوں نے بندوق کے دستے میرے سر پر مارے اور میں گر پڑی۔ انھوں نے مجھے رسیوں سے جکڑ دیا اور کہا کہ وہ میرے بیٹوں کو میرے سامنے قتل کرینگے۔ اُنھوں نے ایک کے بعد ایک میرے تینوں بیٹوں کو باری باری پکڑ کر میرے سامنے قتل کردیا اور پھر ان کے دھڑوں سے کٹے ہوئے سروں کو ٹھوکریں مارتے رہے۔ میری پیاری خوبصورت بچی کی آنکھوں میں دہشتزدگی، اس کا تڑپ کر میری طرف بھاگنا اور ایک تیز دھار سنگین سے اس کے گلے کا کاٹنا اور پھر اس کی خوف اور درد بھری آواز ''امی بچاؤ، امی بچاؤ، اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔ اﷲیقیناً ان قاتلوں کو سزا دے گا''۔
ایک خاتون روشن آرا نے اپنی رقت آمیز روداد اس طرح سنائی''23مارچ 1971ء کی رات عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں کے ایک گروہ نے ہمارے گھر پر حملہ کردیا۔ انھوں نے پہلے گھر کو لوٹا اور پھر نذرآتش کردیا۔ حملہ آوروں نے میرے والد صاحب، میرے خاوند اور میرے دو نوجوان چھوٹے بھائیوں کو بیدردی سے قتل کردیا۔ پھر انھوں نے میری نوجوان بہن کو اغوا کرلیا۔ میں اور میری والدہ زندہ بچ گئیں مگر ہماری حیثیّت چلتی پھرتی لاشوں کی سی ہے''۔
زینب نام کی ایک خاتون نے بتایا ''17 دسمبر 1971ء کو مکتی باہنی نے ہمارے گھروں کو پانی کی فراہمی بند کر دی۔ مجھے نو ماہ کا حمل تھا۔23دسمبر 1971کو میں نے ایک بچی کو جنم دیا۔کوئی دایہ میسر نہ تھی، اس لیے میرے خاوند نے بچی کی پیدائش کے وقت میری مدد کی۔ اسی دوران میں چند گھنٹوں بعد رات گئے بنگالی مسلّح افراد نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اور میرے خاوند کو پکڑ کر لے گئے۔ میں نے خدا کا واسطہ دیتے ہوئے ان سے التجا کی کہ وہ اسے چھوڑدیں، قاتل بے رحم درندے تھے انھوں نے میرے خاوند کو قتل کردیا اور ہمیں اپنے گھر سے نکال دیا شاید ریڈ کراس والوں نے ہمیں بچالیا تھا''۔
40سالہ فاطمہ بی بی کے شوہر ایک تجارتی کمپنی میں ملازم تھے۔ فروری 1974ء میں ڈھاکا سے کراچی پہنچنے کے بعد فاطمہ نے شہادت دی ''دسمبر1971ء کے تیسرے ہفتے میں، جب بھارتی فوج اور مکتی باہنی نے ڈھاکا پر قبضہ کرلیا، تو انھوں نے میرے تین بڑے بیٹے ماردیے، میرے خاوند کو بڑی بے رحمی سے قتل کردیا۔ بندوق کی نوک پر انھوں نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے تین چھوٹے بچوں کے ساتھ باہر نکل جاؤں اور مکان کو خالی کردوں۔ میں نزدیکی جنگل میں چلی گئی۔ ہم نے پانی اور پتوں پر گزارا کیا اور وہیں زمین پر پڑے سوتے رہے''۔ مختار احمد نے کراچی پہنچ کر بتایا کہ ''میری اکلوتی بیٹی اسوقت اپنے ہوش و حواس کھو گئی جب اسے اپنے خاوند کا بے رحمانہ قتل دیکھنے پر مجبور کیا گیا''۔
38سالہ گلزا ر حسین نے روداد سنائی کہ''21 مارچ 1971ء کو نارائن گنج کے بس اڈے کے پاس 22غیر بنگالی مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، غنڈوں نے ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کھڑے تمام غیر بنگالی مردوں کو گولیوں سے اڑادیا۔ یہ ایک ہولناک منظر تھا۔ چار بندوق بردار غنڈوں نے لوٹ مار میں اپنا حصہ دو غیر بنگالی عورتوں کو صورت میں لیا۔ وہ انھیں خالی بس کے اندر لے گئے اور ان کی آبروریزی کی۔ پھر ان دونوں عورتوں کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا''۔
ایک اور عینی شاہد نے بتایا '' ہمیں پکڑنے والوں نے گھروں سے باہر نکلنے کو کہا اور کھلی جگہ اکٹھا کیا جہاں 500 سے زیادہ غیر بنگالی بوڑھے مرد، عورتیں اور بچے روکے گئے۔ تقریباً 50بندوق بردار سیاسی غنڈے ہمیں دلدلی میدان میں سے ہانکتے ہوئے ایک خالی اسکول کی عمارت میں لے گئے۔ راستے میں تین سالہ بچہ اپنی بدقسمت ماں کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔ اس عورت نے پکڑنیوالے لوگوں سے ایک چھوٹی سے قبر کھودنے اور اس بچے کو دفن کرنے کی درخواست کی۔ اس دستے کی قیادت کرنیوالے ایک غنڈے نے نتھنے پھلاتے ہوئے بڑے زور سے کہا کہ 'نہیں' اور روتی پیٹتی ماں کے بازوؤں سے اس بچے کی لاش کو چھینا اور ہوا میں اُچھالتے ہوئے اس دریا میں پھینک دیا، جس دریا کے کنارے ہم اپنے آپ کو گھسیٹ رہے تھے''۔
ایک اور مظلوم نے شہادت دی'' 18مارچ کی رات عوامی لیگ کے دہشت پسندوںاور غنڈوں نے میرے گھر میں آکر گھروں کو لوٹا اور غیر بنگالی خاندانوں کے تمام مردوں کو قتل کردیا۔ میرے گھر میں انھوں نے میرے دو بھائیوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا اور ان کی نوجوان بیویوں کو اغوا کرکے لے گئے۔ وفاقی فوج کیطرف سے چٹاگانگ پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد میں نے چٹاگانگ کا کونہ کونہ چھان مارا، لیکن میں اپنی بیوہ بھابھیوں کو نہ ڈھونڈ سکا''۔
رحیم آفندی چٹاگانگ میں یعقوب علی خان کی جہاز راں کمپنی میں ملازم تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ''کمپنی کے مالک پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر فضل القادر چوہدری کے رشتے دار تھے اور پاکستان سے محبت کرتے تھے وہ خدا ترس مسلمان تھے۔ 20مارچ کو یعقوب علی صاحب مجھے چٹاگانگ بندرگاہ پر لے گئے، جہاں ایک جہاز لنگر انداز تھا۔ اس جہاز سے سامان اتارنے کا کام ہماری کمپنی نے کرنا تھا۔ ہم جہاز کے عرشے پر گئے اور یعقوب علی صاحب نے کیپٹن سے بات چیت کی۔ یکایک ہم نے نیچے سے مدد کے لیے پکارنے والوں کی چیخیں اور اس کے ساتھ بندوقوں کی اندھا دھند فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ ہم کیپٹن کے کیبن سے ڈیک پر آئے تو ہم نے دیکھا کہ بندوقوں سے مسلح قاتل دستے گودی پر موجود لوگوں کو بے دریغ قتل کررہے ہیں۔
یعقوب علی صاحب نے مجھے جہاز ہی پر کیپٹن کے پاس رکنے کے لیے کہا اور خود جہاز کے دروازے سے گھاٹ کی طرف دوڑے۔ وہ بہت بہادر آدمی تھے، اس لیے قاتلوں کے ہجوم میں بے دریغ گھس گئے۔ اُنھوں نے اﷲکے نام پر ان سے اپیل کی کہ آپ ان معصوموں اور بے نوا غیر بنگالیوں کا قتل نہ کریں۔ قاتلوں کے گروہ میں سے کسی نے پکارا کہ "یعقوب علی پاکستان کا حمایتی اور مسلم لیگی ہے"۔ اگلے ہی لمحے قاتل گروہ نے انھیں قتل کردیا اور سمندر میں پھنکنے سے پہلے ان کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ یعقوب علی صاحب سے جب قاتل دستے نے بنگلہ دیش زندہ باد کا نعرہ لگانے کے لیے کہاتو انھوں نے 'پاکستان زندہ باد' کا نعرہ لگایا''۔
قائد ؒکے پاکستان کے ان لاکھوں بیگناہ باشندوں کاخون ، ان کے کٹے ہوئے گلوں اور بہنوں اور بیٹیوں کی لٹی ہوئی عصمتوں کا حساب کون دے گا؟۔ اس کا ذمّہ دار کون ہے؟ کیا کسی کا ٹرائل ہوا؟ کیا کسی کا کورٹ مارشل ہوا؟ کیا کسی کو اتنی بڑی تذلیل پر پھانسی دی گئی؟ اُسی بنگلہ دیش میں بھارت کی کٹھ پتلی وزیرِ اعظم آج بھی پاکستان سے محبت کرنیوالوں کو پھانسیاں دے رہی ہے اور پاکستان والے منہ میں گھنگیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا زندہ قوموں کا یہی چلن ہوتا ہے؟ ۔ وہ عظیم پاکستانی جن کی بستی پر آج بھی پاکستان کا پرچم لہرا رہا ہے اور جو عوامی لیگ کی بربریّت کے تپتے ہوئے تنور میں پچھلے ستّر سال سے محض اس امید پر زندہ ہیں کہ کبھی نہ کبھی اپنے پاکستان ضرور پہنچیں گے اور ہم ان پاکستانیوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہے اگر بابائے قوم زندہ ہوتے تو بہاری ایسے ہی بے یارومددگار پڑے رہتے؟ ہرگز نہیں۔ قائدؒ انھیں سینے سے لگاتے۔ اب وہ بہاری نہیں پاکستانی ہیں پاکستانی!!۔