شہباز قلندرؒ۔ مبلغ معلم اور ماہرِ لسانیات

دریائے سندھ کے اس پار گنگا جمنی تہذیبی علاقوں میں بسنے والے ........



وادیٔ مہران چند صدیوں نہیں بلکہ ہزاروں سال سے اعلیٰ تمدن و ثقافت کا مرکز رہی ہے۔ اس سرزمین پر دریائے سندھ نے زندگی کو وسائل اور رونقیں عطاکیں تو کئی محترم ہستیوں نے اس خطے کو علم و حکمت کے اُجالوں سے منور کیا۔

یہ وادی دین ِ اسلام کی روشنیوں سے جگمگائی تو یہاں سے اسلام کے بڑے بڑے خدام، داعیان، علما، اور اولیاء سامنے آئے۔ قرآنی پیغام اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺکی تعلیمات کے ابلاغ اور فروغ میں بھی وادی مہران میں ابتداء سے ہی ٹھوس بنیادوں پر کام شروع ہوا۔ برصغیر میں قرآن پاک کا سب سے پہلا ترجمہ سندھی زبان میں سن 172ھ میں ہوا۔علم و فضل کے مختلف شعبوں میں برِصغیر کے دوسرے علاقوں کے مسلمان بہت عرصے بعد سامنے آئے۔ واضح رہے کہ قرآن کا فارسی زبان میں ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے سندھی ترجمے کے تقریباً ایک ہزار سال بعد سن 1150ھ میں کیا۔

دریائے سندھ کے اس پار گنگا جمنی تہذیبی علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کی نسبت وادیٔ مہران میں بسنے والے سندھی مسلمان دوسری صدی ہجری میں بھی عصری تقاضوں سے بہتر طور پر واقف تھے۔ سندھ میں جو کام 172ھ میں ہوا دنیا کے مختلف خطوں میں قرآن کا پیغام پہنچانے کے لیے بعد میں اس طرزعمل کی مسلسل پیروی کی گئی ۔اسلام کا پیغام زیادہ بہتر اندا ز میں پھیلانے اور قرآنی علوم کے فروغ کے لیے سندھ شروع سے ہی ہمیں ایک قائدانہ کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔

دین اسلام کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان رواداری، خیرسگالی، باہمی احترام اور تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے بھی وادی ٔ مہران کی کئی معزز و محترم تاریخ کا حصہ بنیں،ان میں حضرت عثمان بن علی مروندی، حضرت لعل شہباز قلندر کا اسم گرامی بہت نمایاں ہے۔

ایشیاء اور افریقہ کے مختلف خطوں میں اﷲ کے کئی دوستوں اور حضرت محمد رسول اﷲ ﷺ کے مشن کے خدمتگاروں یعنی سلاسل طریقت سے وابستہ اولیاء اللہ کے طرزِ عمل کے طالب علمانہ جائزہ سے چار اہم شعبے سامنے آتے ہیں:

1۔ دعوت و تبلیغ، 2۔ تربیت و تعلیم ، 3۔ اصلاح و ارشاد، 4۔تزکیہ و احسان۔

ان فرائض کی ادائیگی کے لیے صوفیائے کرام کے مخاطبین یا ٹارگٹ آڈئینس کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ (1) دعوت و تبلیغ کے لیے مخاطب سب انسان ہیں۔ یہ دعوت محض عقیدے کی دعوت ہی نہیں بلکہ مشیت کو سمجھنے ، قوانین قدرت اور فطری اصولوں کی پاسداری کی ترغیب بھی ہے۔ (2)تربیت و تعلیم کے لیے خاص مخاطبین مسلمان ہیں۔ انھیں حقوق اﷲ اور حقوق العباد کو سمجھنے اور ان کی بہتر ادائی کے لیے تیار کرنے کی کوششیں کی گئیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہر دور کے عصری علوم سمجھنے کی بھی تاکید کی گئی۔

(3)اصلاح و ارشاد کے مخاطبین بھی بالعموم مسلمان اور بالخصوص مسلم حکمران ہیں۔ مغلیہ دور میں شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانیؒ نے بادشاہ کے لیے سجدہ تعظیمی کی رسم کی شدید مخالفت کی، بادشاہ کی ناراضی اور سختیاں سہتے ہوئے رشد و ہدایت کے ذریعے اس رسم کا خاتمہ کرایا۔

(4)تزکیہ و احسان کے خصوصی مخاطبین ان صوفیائے کرام کے اپنے شاگرد و مریدین ہیں۔

وادی ٔ مہران کے صوفی بزرگ حضرت عثمان مروندی المعروف بہ لعل شہباز قلندرؒنے دعوت اور تبلیغ کے ذریعے وادی ٔ مہران میں ناصرف دینِ اسلام کی روشنی پھیلائی بلکہ اس خطے کے عوام میں علوم کے فروغ خصوصاً فارسی زبان کی آسان تفہیم کے لیے بھی نمایاں کوششیں کیں۔اس طرح شہباز قلندر ؒنے بیک وقت مبلغ اور معلم کے کثیر پہلوی کردار بہت احسن طریقوں سے ادا کیے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم معاشروں میں کئی اولیاء اﷲ کے تبلیغی ، علمی اور اصلاحی کاموں کو ٹھیک طرح یاد نہیں رکھا گیا۔

ان ہستیوں سے منسوب مافوق الفطرت واقعات اور کرامات کو بہت بڑھا چڑھاکر بیان کیا جاتا رہا۔ ان بزرگوں کے لیے عوام کے دلوں میں عقیدت مندانہ جذبات کو اولیاء اﷲ کی تعلیمات اور مشن کو سمجھنے کے لیے بروئے کار لانے کے بجائے عوام کے ذہنوں کو محض کرامات کے تذکروں سے متاثر کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ یقیناً کئی بزرگوں سے وقتاً فوقتاً بعض کرامات بھی صادرہوئیں لیکن ان بزرگوں کا اصل مشن اپنی کرامات سے لوگوں کو متاثر کرنا کبھی نہیں تھا۔

اولیاء اﷲ نے برِصغیر کے کئی علاقوں اور دنیا کے مختلف خطوں میں دینِ اسلام کی تبلیغ کی اور نبی ٔ آخر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہی عطا فرمائی۔ ان ہستیوں نے انسانوں کو اللہ کی عبادت اور اﷲ سے قر بت کی دعوت اور تعلیم دی ، ساتھ ساتھ انسانوں کو انسانوں کے احترام کا درس بھی دیا۔ اولیاء اﷲ نے انسانوں کو بلاامتیاز مذہب و ملت ایک دوسرے کے حقوق کے احترام کی تاکید کی۔ رواداری، اخلاص و مروت کے جذبات کو فروغ دیتے ہوئے ایک پر امن اور باہمی تعاون والے معاشرے کے قیام کے لیے کوششیں کیں ۔

آج ہمیں اولیاء اﷲ کی ان تعلیمات کے تذکروں اور ان کی تعلیمات کے تسلسل کا اہتمام نظر نہیں آتا۔ اس کے بجائے بزرگوں سے منسوب کئی مراکزپر میلے ، ٹھیلے ، رقص ، آتش بازی اور دیگر کئی رسوم و رواج کی پذیرائی عام ہے۔ برِصغیر کے بہت بڑے صوفی بزرگ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کے مزار پر ہرسال لاکھوں عقیدت مند حاضری دیتے ہیں ۔ ایک سوال یہ ہے کہ ان میں کتنے مردوں اور عورتوں نے حضرت کی شہرۂ آفاق کتاب ''کشف المحجوب'' کے طالب علمانہ انداز میں یا پھر سرسری مطالعے کا ہی اہتمام کیا ہوگا۔۔۔۔۔؟ مزار پر عقیدت مندانہ انداز میں حاضری ایک عقیدت مند کے دلی سکون کا سبب تو بن جاتی ہوگی لیکن اس طرح ان بزرگوں کے مشن میں کیا پیشرفت ہوتی ہے۔۔۔۔۔؟اس سوال کا جواب اولیاء اﷲ کے ہر عقیدت مند کو ڈھونڈنا چاہیے۔

وادی ٔ مہران کے عظیم صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر ایک باعمل صوفی اور عوام کے حقیقی خیرخواہ تھے۔ سندھ میں علوم کے فروغ کے لیے لعل شہباز قلندر کی اعلیٰ خدمات تاریخ کا روشن باب ہیں۔ حضرت لعل شہباز قلندرؒ ہمہ وقت جذب کے عالم میں رہنے والی ہستی نہیں تھے۔ آپ تواسلام کے مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر، محقق، ماہرِ لسانیات اور گرامر کے ماہر تھے۔ سندھ میں فارسی زبان کی تعلیم عام کرنے کے لیے شہباز قلندرؒ نے درس و تدریس کے ذریعے اور کتابیں لکھ کر علمی سطح پر بہت کوششیں کیں۔

ملتان میں حضرت بہاء الدین زکریاملتانی ؒ کے مدرسے میں بھی شہباز قلندر نے کئی برس طالب علموں کی علمی پیاس کی سیرابی کا اہتمام کیا۔ اپنی متاثر کن شاعری کے ذریعے شہباز قلندرؒاعلیٰ شعری روایات کو آگے بڑھاتے رہے اور عوام و خواص کے اذہان و قلوب کی علمی آبیاری کا اہتمام کرتے رہے۔ شہباز قلندرؒ کی مختلف النوع خدمات اس خطے کی عمرانی، ثقافتی اور لسانی ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی رہیں۔ برطانوی مصنف علو م شرقیہ لسانیات اور گرامر کے ماہر رچرڈ فرانسس برٹن Richard Francis Burtonنے 1842ء سے 1853ء تک برصغیر خصوصاً سندھ کے کئی دورے کیے۔ انھوں نے اپنی کتاب Sindh and the Racesمیں لکھاہے کہ لعل شہبازقلندر ایک بہت بڑے ماہرِ گرامر، زبان دان، سیاح اور صوفی تھے۔ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ شہباز قلندرؒ نے لسانیات اور گرامر کے حوالے سے فارسی زبان میں چار کتابیں :

-1میزان الصرف، -2صرفِ صغیر،-3 عقد، -4اجناس (منشعب) تحریر کیں۔

1875ء میں برطانوی مصنف البرٹ ولیم ہیوز Albert William Hughesنے اپنی کتاب A Gazetteer of the Province of Sindh میں لعل شہباز قلندر کی ان کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔

شاعر و محقق ڈاکٹر ہرومل ایثار داس1913)تا (1992نے اپنے مقالے Persian Poets of Sindhمیں لعل شہباز قلندر ؒ کا شمار سندھ کے اولین فارسی شعراء میں کیا ہے۔

لعل شہباز قلندر نے 18شعبان سن 673ہجری مطابق 1275 عیسوی وفات پائی۔ سیہون شریف میں ہر سال شہباز قلندر کے عرس میں لاکھوں زائرین شرکت کرتے ہیں۔ توقع ہے کہ مستقبل قریب میں شہباز قلندر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے علم و فضل سے بھرپور استفادے اور معاشرے میں امن و استحکام کے لیے صوفیانہ تعلیمات سے مدد لینے کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے