تعصب اور تقدس

یہاں نظریے کو انسان پر مقدم ٹھہرایا جاتا ہے ...........


[email protected]

تقدس پرست اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ کسی شے، کسی نظریے یا کسی شخصیت کے بارے میں تحقیق و تنقید درکار ہو تو ان سے متعلق کسی قسم کا حسد، کینہ، بغض اور نفرت وغیرہ کی موجودگی میں ''غیر جانب داری'' کا لحاظ رکھنا ممکن نہیں ہوتا، اس لیے جو تحقیق و تنقید مذکورہ بالا جذبات و احساسات کی موجودگی میں کی جاتی ہے، اس کو ''درست'' نہیں کہا جاسکتا۔ یہ لوگ اس معمولی سی بات کو بھی سمجھنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں کہ اگر کوئی نقاد یا محقق خود کوئی پوزیشن نہ بھی اختیار کرے، جو کہ ممکن نہیں ہے،اس کے باوجود 'حقیقت' کی خود رو حرکت نفی و اثبات کے مسلسل عمل کے بعد کسی نہ کسی نتیجہ پر ہی ممکن ہوتی ہے، اور جہاںنتیجہ درست اور غلط کا تعین کر رہا ہو وہ اپنی سرشت میں جانبدار ہی ہوتا ہے۔

لہٰذا بنیادی بات یہ ہے کہ یہ 'دلیل' ہی غلط ہے کہ حسد، کینہ، بغض یا نفرت کی بنیاد پر تکمیل پانے والی تنقید و تحقیق 'درست' نہیں ہوتی۔ تنقیدی تجزیات کا تعلق خیالات و افکار کی منطقی درستی سے ہوتا ہے۔ نفرت، حسد، کینہ اور بغض خواہ کتنا ہی حاوی کیوں نہ ہو اگر تنقید منطقی اعتبار سے ٹھیک ہے تو اسے درست ہی مانا جائے گا۔ یہ سوال بہرحال اٹھایا جاسکتا ہے کہ حسد، بغض، کینہ وغیرہ کی موجودگی میں خیالات میں منطقی ربط برقرار رکھنا ممکن نہ رہے، لیکن اس بات کا تعین بھی محقق کے پیش کردہ دلائل کی منطقی تشکیل ہی کرسکتی ہے۔ ایسے میں غیر ذمے دار، احمق یانابلد جیسے الفاظ اس نقاد کی تنقید کا فیصلہ نہیں کرتے بلکہ اس 'مفکر' کے پیش کیے گئے اغلاط کا منطقی ابطال ہی دلائل کی سطح کا تعین کرتا ہے۔

تقدس پرستوں کا المیہ یہ ہے کہ انھیں جو نقائص دوسروں میں نظر آتے ہیں انھیں وہ خود اپنی ہی ذات میں دیکھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ تقدس بذات خود ایک خطرناک قسم کے تعصب کی ہی ایک شکل ہے، جس میں ذہن و فکر کو مفلوج کرنے کا سب سے زیادہ رجحان پایا جاتا ہے۔یہ بے جا تقدس ہی ہے جس نے شاید ہی کسی تقدس پرست کو اس سطح پر پہنچایا ہو کہ وہ علم و فکر کے میدان میں کوئی عظیم کارنامہ سر انجام دے سکے۔ تقدس کے ساتھ احترام، عزت، عشق، جنون، تقلید یا اندھی تقلید وغیرہ جیسے جذبات و ترجیحات جڑی ہوتی ہیں، ان کی موجودگی میں اس ''غیر جانب داری'' کی پاسداری کرنا ممکن ہی نہیں رہتا، تعصب کے نام پر جس کو دور کرنے کی ذمے داری تقدس پرست کسی 'متعصب' پر ڈال دیتے ہیں۔

میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ 'تقدس' جو کہ آزادانہ تحقیق و تنقید کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، یہ حد سے بڑے ہوئے تعصب کی ہی ایک شکل ہے، بلکہ زیادہ بہتر انداز میں یوں کہنا چاہیے کہ تقدس ہی تعصب ہے۔ یہ درست ہے کہ قوم پرستی، علاقہ پرستی، مذہب پرستی، نسل پرستی اورفرقہ پرستی وغیرہ میں تقدس کی ایک مخصوص سطح کا موجود ہونا یقینی ہوتا ہے، انھی کی بنیاد پر کسی شخصیت، روایت، ثقافت اور نظریے کی برتری کا احساس بیدار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مذہبی بنیاد پر تشکیل پایا گیا تقدس ہی چند ذہنی مفلوجوں کو اس سطح پر لے جاتا ہے کہ جہاں وہ خدا کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے کر لوگوں کی زندگی اور موت کا تعین کرنے لگتے ہیں۔ مختلف فلسفیوں نے واضح طور پر اس تقدس سے انحراف کیا جس کی تبلیغ پادری کیا کرتے تھے۔ سچائی تک پہنچنے کی خواہش کے تحت، پادریوں کے بے جا تقدس کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، فلسفیوں نے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔

فلسفی جب الٰہیاتی تصورات کو فلسفیانہ و منطقی خطوط پر تشکیل دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو پادری کے نکتہ نظر سے ان کے اندر مذہب کے حوالے سے ایک مخصوص قسم کا تعصب، کینہ، عناد اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مقدس مذہبی تصورات کے بارے میں تشکیک کا غالب عنصر پایا جاتا ہے۔ تعصب جب تشکیک میں ڈھلتا ہے یا تشکیک سے تحریک پایا ہوا تعصب جب تحقیق و جستجو پر آمادہ ہوتا ہے تو اس کی واحد و اکلوتی منزل سچائی ہی ہوتی ہے۔ اب اس مرحلے پر اگر کوئی شخصیت پرست، مذہب پرست، قبر پرست، بت پرست یہ کہہ اٹھے کہ تقدس کی جس عمارت کی جانب فلسفی نے تشکیک کے پہلو کو ظاہر کیا ہے یہ حسد، بغض، عناد اور نفرت کے بغیر ممکن نہیں، جب کہ ان ''منفی'' جذبات کے بغیر ''آزادانہ'' تنقید کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا تو اس کا واحد مطلب یہ نکلتا ہے کہ ان 'منفی' جذبات یعنی تشکیکی تعصب جو کہ ایک اعلیٰ فلسفیانہ قدر ہے۔

اس کی آڑ میں مذہب پرست اپنی باطل تقدیس کو برقرار رکھنے کے لیے پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ بے جا تقدس کی بنیاد پر گزشتہ پانچ سو سالہ فکری تاریخ میں ہی اگر تشکیکی تعصب کو رد کردیا جاتا تو آج مسیحیت کا تو غلبہ برقرار رہتا لیکن وہ تمام خیالات جنھوں نے انسان کو اس کی مرکزیت لوٹائی ان کی تشکیل ممکن ہی نہ ہوپاتی۔ مذہبی افکار و اقدارکے حوالے سے حد سے بڑھا ہوا تقدس آزادانہ تنقید و تحقیق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اور آج بھی بعض ''دانشور'' مخصوص ''مفکروں'' کی فکری جعلسازی کو عیاں کرنے کے بجائے ان کی باطل آئیڈیالوجیکل ترجیحات کو قائم رکھتے ہوئے انھی میں اپنی شناخت کو تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بالخصوص وہ لوگ جن کا گہرا تعلق حکمران طبقے کی آئیڈیالوجی کے ساتھ ہے۔ وہ شخصیات اور نظریات کے بت تشکیل دیتے ہیں، پھر ان بتوں سے ایک مخصوص سطح کا احترام وابستہ کرتے ہیں۔

ان بتوں کے انہدام کی کاوش کو ریاست کے خلاف جرم قرار دیتے ہیں، وجہ اس کی یہ نہیں کہ ان شخصیات اور نظریات میں 'سچائی' موجود ہوتی ہے، بلکہ اس کی اکلوتی وجہ یہ ہے کہ ان شخصیات و نظریات کا وجود حکمران طبقات کے وجود کا جواز بن جاتا ہے۔ اس لیے ایسی شخصیات کے وہ خیالات جو خواہ حکمران طبقات کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں، ان سے روگردانی کرتے ہوئے صرف ان خیالات کو ابھارا جاتا ہے، جو ان کے اپنے وجود کے دوام اور ان کی نظریاتی بالادستی کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ المیہ اس 'انسانی' سماج کا یہ ہے کہ یہاں اپنے مخصوص سماجی، معاشی، مذہبی اور ثقافتی مفادات کی بنیاد پر اپنی ترجیحات کا تعین کیا جاتا ہے۔

یہاں نظریے کو انسان پر مقدم ٹھہرایا جاتا ہے، مردہ کو زندہ پر اہمیت دی جاتی ہے، جہالت کو علم پر فوقیت حاصل ہے، احمق نے عاقل کا روپ دھار رکھا ہے، جعلساز کو جینوئن پر برتری حاصل ہے، جعلی 'مفکر' کو اصلی ثابت کرنے پر پوری ریاستی مشینری زور لگا دیتی ہے، سارق کو اوریجنل دکھانے کے لیے ساری تکنیک استعمال کردی جاتی ہے، جھوٹ کو سچ کی جگہ پر سرفراز کیا جاتا ہے، بددیانت کو ایمانداری کا لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے اور تقدس کے اندر کے تعصب کو مخفی رکھتے ہوئے تعصب کی ایک خودساختہ تعریف متعین کردی جاتی ہے، جہاں حقائق کے معنی ہی الٹ دیے جائیں، وہاں صرف ''مسخ شدہ'' حقائق ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ ماحصل ہمارے اس مختصر تقابلی جائزے کا یہ ہے کہ سچائی تک پہنچنے کے راستے میں جتنی بڑی رکاوٹ نفرت، حسد، کینہ اور بغض وغیرہ ہیں، اس سے قدرے زیادہ بڑی رکاوٹ تقدس سے وابستہ وہ جذبات، جنون، اندھی تقلید وغیرہ ہیں، جو کسی شخصیت، نظریے یا مذہب وغیرہ کے بارے میں تنقیدی نگاہ ڈالنے سے نہ صرف روکتے ہیں بلکہ انسان کو حد سے بڑھے ہوئے مقدس تعصب کی بنیاد پر سچائی تک پہنچنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کھڑی کر دیتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں