بات تو سچ ہے مگر…
مولانا فضل الرحمان نے کہا اس وقت صرف ان کی پارٹی ہی عملی طور پر امن....
جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پیشگوئی کی ہے کہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں بڑی تبدیلی آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کے پی کے کرپشن میں نمبر ون ہے، جس کی ذمے دار وہاں کی پی ٹی آئی حکومت ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ''صوبائی حکومت کی بے مہار کرپشن کی وجہ سے صوبائی چیف سیکریٹری اور کئی سرکاری اداروں کے سربراہ مستعفی ہوچکے ہیں، جب کہ خیبر بینک کے معاملے میں بھی انصاف نہیں کیا گیا۔'' جے یو آئی ایف کے سربراہ سمجھتے ہیں کہ اسلام دشمن قوتیں اسلامی تہذیب پر حملہ آور ہو رہی ہیں، جب کہ بین الاقوامی قوتوں نے کے پی کے میں برسر اقتدار آنے میں عمران خان کی پی ٹی آئی کی حمایت کی تھی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ کے پی کے میں چونکہ مذہب کی جڑیں بہت گہری ہیں، لہٰذا صوبے میں اسلامی روایات کو نقصان پہنچانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے انھیں پی ٹی آئی سے بہتر ایجنٹ نہیں مل سکتا تھا۔ مگر انھوں نے دعویٰ کیا کہ جے یو آئی (ایف) نے ان اسلام دشمن ایجنٹوں کو ان کی دولت کے باوجود شکست دے کر ان کے آقاؤں کے ایجنڈے کو ناکام بنادیا۔
پچھلے دنوں صوابی میں ''تحفظ مدارس کانفرنس'' سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے مزید کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور وہ اسلامی اصولوں کا پاسدار ملک بن کر ہی قائم رہے گا۔ نوآبادیاتی راج کے دوران برطانیہ اسلامی دینی ادارے ختم کرنے میں ناکام رہا تھا، امریکا کے ارادوں کا بھی وہی حشر ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ بھارت اور دوسری طاقتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود قوم امریکی غلامی قبول نہیں کرے گی۔ مولانا نے کہا پاکستان کا مستقبل روشن ہے، کارکن اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ قوتیں پارلیمنٹ جانے والا ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کر رہی ہیں، دینی قوتیں فوج کے شانہ بشانہ پاکستان کا دفاع کریں گی۔ ان کی رائے میں قبائلی عوام کی مرضی معلوم کیے بغیر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو کے پی کے میں ضم نہیں کیا جانا چاہیے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک )کے پی کے سے گزر رہی ہے مگر صوبے کے حکمران اس سے لا علم ہیں اور وہ صوبے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے۔
اصل باتیں جو مولانا نے اپنے مخصوص 'ٹون' میں کہیں اور جو بہت سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے خبرناموں میں رپورٹ ہونے سے رہ گئیں، یہ تھیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کی سیاست ختم ہو رہی ہے، پاکستان کا مستقبل بدلنے والا ہے،2018 ء کے انتخابات کے نتائج یکسر مختلف ہوں گے، ملا سے چھٹکارا ممکن نہیں، جو مولوی نکاح اور جنازہ پڑھاتا ہے وہی اب سیاست بھی کرے گا۔ ہم نے فرنگیوں کی غلامی قبول کی، نہ امریکا کی کریں گے، عالمی طاقتوں نے کے پی کے میں مذہب کی مضبوط اور گہری جڑیں اکھاڑنے کے لیے پی ٹی آئی کو مسلط کیا تھا، ہم ملک کو غلاموں اور یہودی ایجنٹوں سے نجات دلائیں گے۔ ہم پرامن انتقال اقتدار کی بات کرتے ہیں، ہم پاکستان کے وفادار ہیں، علما اور پگڑی داڑھی والے ہر مشکل میں فوج کے ساتھ مل کر اس کا دفاع کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا اس وقت صرف ان کی پارٹی ہی عملی طور پر امن، آزادی، بہتر معیشت اور اسلامی تہذیب کی جنگ لڑ رہی ہے، ہم کسی کو اپنی تہذیب چھین کر خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان کو بدعنوانیوں اور کرپشن سے پاک کریں گے، ہم پرامن مذہبی لوگ ہیں، پارلیمانی اور جمہوری سیاست پر یقین رکھتے ہیں، پنجاب اسمبلی میں خواتین بل اور کے پی کے میں خواتین حقوق کے نام پر آنے والے بل کا راستہ ہم نے روکا۔ تعجب کی بات ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اس قانون کے خلاف احتجاج کر رہی تھی مگر اس کے ایک ممبر نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا۔
مگر ان سب باتوں سے قطع نظر مولانا کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ آصف علی زرداری، قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ سمیت سندھ میں اتنے سارے 'علی' ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلی نے 18 سال سے کم عمر غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے پر پابندی کا بل پاس کرلیا۔ علی کے ان ماننے والوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صرف 10 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے آصف علی زرداری نے وطن واپسی سے قبل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب سے رابطہ کرکے سندھ اسمبلی کا پاس کردہ بل واپس لینے پر آمادگی کا جو اظہار کیا تھا اس میں بھی مولانا فضل الرحمان کے مشورے اور اس تاریخی حقیقت پر مبنی دلیل کا دخل رہا ہوگا، جبھی تو وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست پر ملا کا قبضہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے زرداری صاحب سمیت سندھ میں علی کے جن ماننے والوں کی نشاندہی کی تھی ان سب نے بھی مولانا کی بات میں سچائی کی کاٹ کو ضرور محسوس کیا ہوگا، بقول پروین شاکر
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
یہ بھی سچ ہے کہ مولانا کی حق گوئی اور بے باکی نے کئی بڑوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا ہے، جب کہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی کھری کھری باتوں نے بہتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ صوابی سے واپسی پر پشاور میں ان کی پریس کانفرنس ہی کو لے لیجیے جس میں انھوں نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام سول عدالتوں کی توہین ہے، ان کی مدت میں توسیع کو حکومت کی ناکامی سمجھا جائے گا، اگر ججوں کو سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے تو انھیں پاک فوج کی سیکیورٹی بھی دی جاسکتی ہے۔ مولانا نے اس خبر کی تردید کی کہ وزیراعظم نے انھیں اپوزیشن سے مفاہمت کرانے کا کوئی ٹاسک دیا ہے۔ مولانا نے مشورہ دیا کہ سی پیک کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، انھوں نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے ہم اپنے موقف پر قائم ہیں کہ فیصلے کا اختیار فاٹا کے عوام کو دیا جائے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں جلدی نہ کرے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی پر آج تک کرپشن کا کوئی کیس نہیں بنا، بارہا اسکینڈل کھڑے کیے گئے لیکن وہ دو چار دن چائے کی پیالی میں طوفان پیدا کرنے کے مترادف ثابت ہوئے۔
مولانا نے آصف زرداری کی وطن واپسی کو خوش آیند قرار دیا اور کہا کہ ان سے ملاقات معمول کے مطابق تھی، یہ غلط ہے کہ نواز شریف نے انھیں زرداری صاحب کو منانے کا ٹاسک دیا تھا۔ ان کی رائے میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کے بجائے حکومت سول عدالتوں کے ججوں کو سیکیورٹی کے حوالے سے لاحق خطرات دور کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے کہ عوامی رابطہ مہم کے ذریعے 50 لاکھ افراد تک اپنا پیغام پہنچایا جائے گا، مولانا نے دعویٰ کیا کہ دیانتدار قیادت کے لیے ان کی پارٹی کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں، عمران خان اور ان کی تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں سے مایوس لوگوں کی سیاست کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی، خیبر پختونخوا میں ناکامی نے انھیں یہاں کے عوام کی نظروں میں گرا دیا ہے اور وہ اگلے عام انتخابات میں ان کا سامنا نہیں کر سکتے۔ ہم نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں کہ مولانا کی باتوں پر کوئی تبصرہ کر سکیں، بہتر ہوگا 2018 کا انتظار کیا جائے اور دیکھا جائے کہ شیر انڈے دیتا ہے یا بچے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ''صوبائی حکومت کی بے مہار کرپشن کی وجہ سے صوبائی چیف سیکریٹری اور کئی سرکاری اداروں کے سربراہ مستعفی ہوچکے ہیں، جب کہ خیبر بینک کے معاملے میں بھی انصاف نہیں کیا گیا۔'' جے یو آئی ایف کے سربراہ سمجھتے ہیں کہ اسلام دشمن قوتیں اسلامی تہذیب پر حملہ آور ہو رہی ہیں، جب کہ بین الاقوامی قوتوں نے کے پی کے میں برسر اقتدار آنے میں عمران خان کی پی ٹی آئی کی حمایت کی تھی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ کے پی کے میں چونکہ مذہب کی جڑیں بہت گہری ہیں، لہٰذا صوبے میں اسلامی روایات کو نقصان پہنچانے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے انھیں پی ٹی آئی سے بہتر ایجنٹ نہیں مل سکتا تھا۔ مگر انھوں نے دعویٰ کیا کہ جے یو آئی (ایف) نے ان اسلام دشمن ایجنٹوں کو ان کی دولت کے باوجود شکست دے کر ان کے آقاؤں کے ایجنڈے کو ناکام بنادیا۔
پچھلے دنوں صوابی میں ''تحفظ مدارس کانفرنس'' سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے مزید کہا کہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور وہ اسلامی اصولوں کا پاسدار ملک بن کر ہی قائم رہے گا۔ نوآبادیاتی راج کے دوران برطانیہ اسلامی دینی ادارے ختم کرنے میں ناکام رہا تھا، امریکا کے ارادوں کا بھی وہی حشر ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ بھارت اور دوسری طاقتوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باوجود قوم امریکی غلامی قبول نہیں کرے گی۔ مولانا نے کہا پاکستان کا مستقبل روشن ہے، کارکن اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ کچھ قوتیں پارلیمنٹ جانے والا ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کر رہی ہیں، دینی قوتیں فوج کے شانہ بشانہ پاکستان کا دفاع کریں گی۔ ان کی رائے میں قبائلی عوام کی مرضی معلوم کیے بغیر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کو کے پی کے میں ضم نہیں کیا جانا چاہیے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک )کے پی کے سے گزر رہی ہے مگر صوبے کے حکمران اس سے لا علم ہیں اور وہ صوبے میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتے۔
اصل باتیں جو مولانا نے اپنے مخصوص 'ٹون' میں کہیں اور جو بہت سے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے خبرناموں میں رپورٹ ہونے سے رہ گئیں، یہ تھیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کی سیاست ختم ہو رہی ہے، پاکستان کا مستقبل بدلنے والا ہے،2018 ء کے انتخابات کے نتائج یکسر مختلف ہوں گے، ملا سے چھٹکارا ممکن نہیں، جو مولوی نکاح اور جنازہ پڑھاتا ہے وہی اب سیاست بھی کرے گا۔ ہم نے فرنگیوں کی غلامی قبول کی، نہ امریکا کی کریں گے، عالمی طاقتوں نے کے پی کے میں مذہب کی مضبوط اور گہری جڑیں اکھاڑنے کے لیے پی ٹی آئی کو مسلط کیا تھا، ہم ملک کو غلاموں اور یہودی ایجنٹوں سے نجات دلائیں گے۔ ہم پرامن انتقال اقتدار کی بات کرتے ہیں، ہم پاکستان کے وفادار ہیں، علما اور پگڑی داڑھی والے ہر مشکل میں فوج کے ساتھ مل کر اس کا دفاع کریں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا اس وقت صرف ان کی پارٹی ہی عملی طور پر امن، آزادی، بہتر معیشت اور اسلامی تہذیب کی جنگ لڑ رہی ہے، ہم کسی کو اپنی تہذیب چھین کر خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان کو بدعنوانیوں اور کرپشن سے پاک کریں گے، ہم پرامن مذہبی لوگ ہیں، پارلیمانی اور جمہوری سیاست پر یقین رکھتے ہیں، پنجاب اسمبلی میں خواتین بل اور کے پی کے میں خواتین حقوق کے نام پر آنے والے بل کا راستہ ہم نے روکا۔ تعجب کی بات ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت اس قانون کے خلاف احتجاج کر رہی تھی مگر اس کے ایک ممبر نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا۔
مگر ان سب باتوں سے قطع نظر مولانا کی جس بات نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ آصف علی زرداری، قائم علی شاہ اور مراد علی شاہ سمیت سندھ میں اتنے سارے 'علی' ہوتے ہوئے صوبائی اسمبلی نے 18 سال سے کم عمر غیر مسلم کے اسلام قبول کرنے پر پابندی کا بل پاس کرلیا۔ علی کے ان ماننے والوں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صرف 10 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے آصف علی زرداری نے وطن واپسی سے قبل جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب سے رابطہ کرکے سندھ اسمبلی کا پاس کردہ بل واپس لینے پر آمادگی کا جو اظہار کیا تھا اس میں بھی مولانا فضل الرحمان کے مشورے اور اس تاریخی حقیقت پر مبنی دلیل کا دخل رہا ہوگا، جبھی تو وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست پر ملا کا قبضہ ہو رہا ہے۔ انھوں نے زرداری صاحب سمیت سندھ میں علی کے جن ماننے والوں کی نشاندہی کی تھی ان سب نے بھی مولانا کی بات میں سچائی کی کاٹ کو ضرور محسوس کیا ہوگا، بقول پروین شاکر
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
یہ بھی سچ ہے کہ مولانا کی حق گوئی اور بے باکی نے کئی بڑوں کو ان کا گرویدہ بنا دیا ہے، جب کہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی کھری کھری باتوں نے بہتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ صوابی سے واپسی پر پشاور میں ان کی پریس کانفرنس ہی کو لے لیجیے جس میں انھوں نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام سول عدالتوں کی توہین ہے، ان کی مدت میں توسیع کو حکومت کی ناکامی سمجھا جائے گا، اگر ججوں کو سیکیورٹی کا مسئلہ درپیش ہے تو انھیں پاک فوج کی سیکیورٹی بھی دی جاسکتی ہے۔ مولانا نے اس خبر کی تردید کی کہ وزیراعظم نے انھیں اپوزیشن سے مفاہمت کرانے کا کوئی ٹاسک دیا ہے۔ مولانا نے مشورہ دیا کہ سی پیک کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، انھوں نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے ہم اپنے موقف پر قائم ہیں کہ فیصلے کا اختیار فاٹا کے عوام کو دیا جائے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں جلدی نہ کرے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی پر آج تک کرپشن کا کوئی کیس نہیں بنا، بارہا اسکینڈل کھڑے کیے گئے لیکن وہ دو چار دن چائے کی پیالی میں طوفان پیدا کرنے کے مترادف ثابت ہوئے۔
مولانا نے آصف زرداری کی وطن واپسی کو خوش آیند قرار دیا اور کہا کہ ان سے ملاقات معمول کے مطابق تھی، یہ غلط ہے کہ نواز شریف نے انھیں زرداری صاحب کو منانے کا ٹاسک دیا تھا۔ ان کی رائے میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کے بجائے حکومت سول عدالتوں کے ججوں کو سیکیورٹی کے حوالے سے لاحق خطرات دور کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے کہ عوامی رابطہ مہم کے ذریعے 50 لاکھ افراد تک اپنا پیغام پہنچایا جائے گا، مولانا نے دعویٰ کیا کہ دیانتدار قیادت کے لیے ان کی پارٹی کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں، عمران خان اور ان کی تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں سے مایوس لوگوں کی سیاست کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی، خیبر پختونخوا میں ناکامی نے انھیں یہاں کے عوام کی نظروں میں گرا دیا ہے اور وہ اگلے عام انتخابات میں ان کا سامنا نہیں کر سکتے۔ ہم نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں کہ مولانا کی باتوں پر کوئی تبصرہ کر سکیں، بہتر ہوگا 2018 کا انتظار کیا جائے اور دیکھا جائے کہ شیر انڈے دیتا ہے یا بچے۔