تشنہ خوابوں کا نوحہ

مقتدر حلقوں کے درمیان ہونے والی ایک اعلیٰ سطح کی خفیہ میٹنگ کی کچھ اہم باتیں لیک ...


Dr Mansoor Norani May 17, 2017
[email protected]

ہمارے یہاں کچھ لوگ ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں کہ سول اور ملٹری حلقوں کے مابین جاری ہم آہنگی اور بہتر ورکنگ ریلیشن شپ کسی غلط فہمی اور نااتفاقی کے باعث اختلافات اور عدم اعتماد کا شکار ہوجائے اور سول حکومت کا دھڑن تختہ ہوجائے۔ حکومت مخالفین کے لیے ایسی کوئی بھی خبر انتہائی مسرت کا سبب بنتی ہے۔ ایسی ہی ایک خبر گزشتہ اکتوبر میں ہاتھ لگ گئی اور وہ حکومت کے جانے کی خبریں سنانے لگ گئے۔

مقتدر حلقوں کے درمیان ہونے والی ایک اعلیٰ سطح کی خفیہ میٹنگ کی کچھ اہم باتیں لیک کرکے بیان کردی گئی تھیں۔ اس پر مقتدر حلقوں کی جانب سے گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ حکومت نے فوراً ہی اس کی تحقیقات کا اعلان کردیا اور ساتھ ہی ساتھ حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے وزیر اطلاعات کو بھی ان کے عہدے سے ہٹادیا۔ تحقیقات کے نتائج سے قطع نظر ہمارے کچھ لوگ جو پہلے دن سے اس حکومت کے جانے کے انتظار میں بیٹھے تھے، ان کی بیمار آرزؤں کی تکمیل کے لیے کچھ امیدیں پیدا ہوگئیں اور وہ اس حساس معاملے میں بھی سیاسی فوائد سمیٹ لینے کی تگ و دو کرنے لگے۔

لیکن مقتدر حلقوں کی جانب سے سمجھداری، بالغ نظری اور بصیرت کے مظاہرے کے بعد اب یہ معاملہ خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوچکا ہے تو وہ لوگ جو پاناما کیس میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے سے دل برداشتہ ہوکر اپنی حسرتوں کی تکمیل کے لیے اب صرف اس اہم حساس معاملے پر تکیہ کیے ہوئے تھے، شدید اضطراب اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں ان مقدس اور معتبر اداروں ہی کو ہدف تنقید بنانے لگے جن کی تعظیم و تحریم میں وہ کچھ دن پہلے زمین و آسمان کے قلابے ملارہے تھے۔

ایسا ہی ایک اسکینڈل ہم سب نے سابقہ زرداری دور میں بھی دیکھا تھا، جب 2011ء میں میمو گیٹ نامی اسکینڈل اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بن گیا تھا۔ یہ اسکینڈل امریکا میں متعین ہمارے ایمبیسڈر حسین حقانی کی جانب سے امریکن ایڈمرل مائیک مولن کو لکھے گئے اس خط سے شروع ہوا جس میں مبینہ طور پر مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد حکومت کو ممکنہ آرمی ری ایکشن کے خطرات سے بچانے کے لیے اوباما حکومت سے مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ اسکینڈل بھی امریکا کے جریدے فنانشل ٹائمز میں لکھے گئے اس آرٹیکل سے شروع ہوا تھا جسے امریکا میں مقیم ایک پاکستانی بزنس مین اور حسین حقانی کے دیرینہ دوست منصور اعجاز نے اکتوبر 2011ء میں تحریر کیا تھا۔ جس میں انھوں نے یہ بتایا تھا کہ یہ خط حسین حقانی کی ایما پر امریکی سیکیورٹی ایڈوائزر جیمز ایل لونز کے ذریعے مائیک مولن تک پہنچایا گیا۔

اگرچہ یہ خط مبینہ طور پر ہمارے ایک سفیر کی یکطرفہ کارروائی تھی لیکن سفارتی اصولوں کے مطابق ایسا کوئی بھی اقدام متعلقہ ملک کے حکمرانوں کی مرضی و منشا کے بغیر اٹھایا ہی نہیں جاسکتا۔کسی دوسرے ملک کو اپنے یہاں مداخلت کی درخواست کرنا پاکستانی قانون کی نظر میں وطن سے غداری کی زمرے میں بھی گردانا جاتا ہے۔ لہذا اس واقعے کی بعد آصف علی زرداری انتہائی مشکل میں گرفتار ہوچکے تھے۔

ملک کی اعلیٰ عدلیہ جس کے سربراہ افتخار محمد چوہدری تھے، نے اس واقعے کی تحقیقات شروع کردی تھی اور وہ شدید اضطراب اور پریشانی کے عالم میں نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور علاج کے لیے قصرِ صدارت چھوڑ کر ایک ماہ کے لیے دبئی روانہ ہوگئے۔ ادھر عدالت نے منصور اعجاز اور حسین حقانی کے موبائل فون پر کی گئی گفتگو کا سارا ریکارڈ بھی حاصل کرلیا اور پھر جون 2012ء میںبلیک بیری فون پر کی گئی باتوں کی تصدیق کے بعد حسین حقانی کو اس کا اصل ذمے دارقرار دے ڈالا۔ لیکن اس مذکورہ بالا خط پر کسی مجاز اتھارٹی کی دستخط نہ تھے، اس لیے یہ معاملہ آگے نہیں بڑھ پایا اور عسکری ادارے کے دانشمندانہ اور ذمے دارانہ رویے کے سبب درگزر کردیا گیا۔

اس سارے واقعے میں افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سول اور ملٹری کے بیچ غلط فہمیوں، ناچاقیوں اور عدم اتفاق کو دیکھتے ہوئے ہمارے یہاں کچھ لوگ اپنے اندر کی حاسد خصلتوں سے مجبور ہوکر ان اختلافات کو مزید ہوا دینے لگتے ہیں۔ اپنی دیرینہ سیاسی دشمنی کا حساب کتاب چکانے کے لیے وہ میدانِ عمل میں اتر آتے ہیں۔ میمو گیٹ اسکینڈل میں میاں نواز شریف نے بھی سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کرکے یہ غلطی سرزد کی تھی، جس کا ہوسکتا ہے بعد میں انھیں ملال بھی ہوا ہوگا۔ زرداری حکومت کی طرف سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کرنے کے غیر مناسب اقدام کو وہ بھلا نہیں پائے تھے۔

شاید اسی لیے وہ کالا کوٹ پہن کر اعلیٰ عدلیہ کے دروازے پر پہنچ گئے تھے۔ لیکن ان کا یہ طرز عمل کسی بھی لحاظ سے لائقِ تحسین نہ تھا۔ وہ اگر اس معاملے میں زرداری صاحب کی کچھ مدد نہیں کرسکتے تھے تو کم از کم اخلاقی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور میثاقِ جمہوریت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اس سارے معاملے سے خود کو الگ تھلگ رکھتے۔ انسان کو ہرگز پتہ نہیں ہوتا کہ کون سی گھڑی مکافات عمل کا روپ دھار کر اس کے سامنے کھڑی ہوجائے۔ غلطی کسی سے بھی ہوسکتی ہے، ہمیں احتیاط، صبر اور برداشت کا دامن کسی طور ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہیے۔

آج نیوز لیکس کی شکل میں حکومت کو کچھ ایسی ہی مشکلات کا سامنا رہا۔ گو یہ معاملہ اتنا گمبھیر اور سنگین نہیں تھا جتنا کہ میمو گیٹ کا معاملہ تھا، مگرتماشہ دیکھنے اور مزے اڑانے والوں نے اسے بھی اپنی آرزوئے تشنہ کی تکمیل کے لیے ایک موقع غنیمت جانا۔ اور وہ خم ٹھونک کر حکومت کے خلاف سازشوں کو مزید مہمیز کرنے کے لیے میدان عمل میں اتر آئے۔ صحافت کی خمیر میں سنسنی خیزی، تجسس آمیزی اور تحیرآفرینی پیدا کرنے والے ہمارے کچھ صاحب فکر و دانش افراد نے اپنی ذاتی خواہشوں اور تمناؤں کو عام آدمیوں کی سوچ اور استدلال کا نام دے کر ناکام حسرتوں اور توقعات کا جو شیش محل تیار کیا تھا وہ حقائق کی سنگباری سے اب چکنا چور ہوچکا ہے۔

رب کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ گزشتہ نو دس سال سے ہماری افواج نے ہر مشکل اور کٹھن مواقعوں پر جمہوریت کا بستر گول کرنے کے بجائے نہایت سمجھداری اور معاملہ فہمی سے سول حکومتوں کی غلطیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے جمہوریت کے دوام اور استحکام کے لیے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگر ہماری افواج ان کے اکسانے اور اشتعال دلانے کی کوششوں پر کسی غیر دستوری اقدام پر رضامند ہوجاتی تو ان کی حسرتوں اور تمناؤں کی یہ بے کلی کب کی تسکین پاچکی ہوتی۔

مگر ہماری عسکری قیادت کی دانشمندی، بصیرت اور دور اندیشی کے سبب دونوں موقعوں پر یہ خواب ادھورے ہی رہے۔ ہماری پوری تاریخ دم توڑتی آرزؤں کا المیہ اور تشنہ تعبیر رہ جانے والے خوابوں کا نوحہ ہے۔ حریفان جمہوریت کی سیاسی مخاصمت اور چپقلش نے ہمارے یہاں اب تک جمہوری نظام کو پائیدار اور مستحکم ہونے ہی نہیں دیا۔ اس کے سر پر ہر وقت سایہ فگن خطرات دراصل ہمارے اپنے ایسے ہی افعال قبیح اور جمہوریت دشمن رویوں کی بدولت ہے۔ ہمیں اپنے ان تباہ کن رویوں کے نتائج کا اگر شعور و ادراک ہوجائے تو پھر شاید ہم یہ غلطی کبھی نہ کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں