اسٹریٹ کرائمز کی مانیٹرنگ کیلیے سیل بنانے کا فیصلہ

پولیس افسران اور اہلکار اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں پر کنٹرول کے بجائے لینڈ مافیا اور اسٹریٹ کرمنلز کے سرپرست بن گئے ہیں


G M Jamali May 17, 2017
پولیس افسران اور اہلکار اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں پر کنٹرول کے بجائے لینڈ مافیا اور اسٹریٹ کرمنلز کے سرپرست بن گئے ہیں : فوٹو؛ فائل

اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی مانیٹرنگ کے لیے محکمہ داخلہ میں مانیٹرنگ سیل کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں شہر کراچی میں ہونے والے اسٹریٹ کرائم اور جرائم کی ماہانہ رپورٹ تیار کر کے وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کی جائے گی ۔

سیل میں آئی جی سندھ پولیس ، ایڈیشنل آئی جیز ، ڈی آئی جیز ، ایس ایس پیز ، تمام تھانیداروں ،تفتیشی افسران ، سی ٹی ڈی ، کرائم برانچ اور اینٹی کار لفٹنگ سیل سمیت پولیس کی مجموعی کارکردگی رپورٹ کا جائزہ بھی لیا جائے گا، رواں سال کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں ڈاکوؤں نے مزاحمت پر 15 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں ، کراچی پولیس شہر میں بڑھتی ہوئی اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر قابو پانے میں بری طرح سے ناکام ہے۔ جس کے باعث شہریوں میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے شہر کا کوئی علاقہ اسٹریٹ کرمنلز سے محفوظ نہیں وہیں لٹیروں کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں وہ جب اور جہاں چاہیں شہریوں کو نقدی ، موبائل فون اور قیمتی اشیا سے محروم کر کے فرار ہوجاتے ہیں ، پولیس جرائم پیشہ عناصر کے نام پر اسنیپ چیکنگ اور گشت کر کے پرامن شہریوں کو ہی روک کر تلاشی اور دستاویزات کی جانچ پڑتال میں مصروف رہتی ہے ، ذرائع کے مطابق شہر کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر نہ صرف شہریوں سے گاڑیاں ، نقدی ، موبائل فونز ، طلائی زیورات اور قیمتی اشیا لوٹ لی جاتی ہیں بلکہ بینکوں اور منی ایکسچینجز سے رقوم لے کر نکلنے والوں سے رقم چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

پولیس افسران اور اہلکار اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں پر کنٹرول کے بجائے لینڈ مافیا اور اسٹریٹ کرمنلز کے سرپرست بن گئے ہیں جس کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بڑھ گئے ہیں اور وہ دن دھاڑے ٹریفک سگنلز ، چوراہوں ، مارکیٹوں ، سڑکوں اور گلیوں میں اسلحہ کے زور پر شہریوں کو لوٹ لیتے ہیں لوٹ مار کا شکار ہونے والے شہری جب تھانوں میں مقدمات درج کرانے جاتے ہیں تو پولیس اہلکار انھیں الٹا ڈرا دھمکا کر مقدمات درج نہیں کرتے اور صرف روزنامچوں میں اندراج کرکے سمجھاتے ہیں کہ ایف آئی آر درج کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے شہریوں کو رہزنوں سے زیادہ پولیس افسران و عملہ خوفزدہ کردیتا ہے جس کی وجہ سے لوٹ مار کی وارداتوں کے مقدمات کا اندراج نہیں ہوتا ذرائع کے مطابق سیکریٹری داخلہ قاضی شاہد پرویز نے شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو ہدایت کی ہے کہ فوری طور پر مانیٹرنگ سیل قائم کر کے ماہانہ بنیاد پر شہر میں ہونے والی وارداتوں کا پولیس کی جانب سے بھیجے گئے ڈیٹا کے علاوہ آزاد ذرائع سے بھی ڈیٹا حاصل کیا جائے اور پھر ماہانہ بنیاد پر رپورٹ تیار کی جائے تاکہ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کر کے جرائم اور پولیس افسران کی کارکردگی سے آگاہ کیا جاسکے۔

یاد رہے کہ پولیس آرڈر سے قبل روزانہ کی بنیاد پر شہر میں ہونے والے جرائم کے حوالے سے پولیس افسران محکمہ داخلہ کو تحریری طور پر آگاہ کرنے کے پابند تھے لیکن پولیس کو اختیارات ملنے کے بعد نظام درست ہونے کے بجائے پولیس نظام کا ہی بیڑا غرق ہوگیا، زیادہ تر اعلیٰ پولیس افسران پٹرول پمپوں ، شادی ہالوں اور زمینوں کے کاروبار سے منسلک ہوچکے ہیں اور انھیں جرائم میں کمی کے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں، بڑے جرائم اغوا برائے تاوان ، بھتہ خوری ، قتل ، ٹارگٹ کلنگ ، مذہبی دہشت گردی کے معاملات پر رینجرز اور حساس اداروں نے کافی حد تک قابو پالیا ہے لیکن کراچی پولیس اسٹریٹ کرائم روکنے میں بھی ناکام ہوگئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔