گجرات فسادات کے مقدمے کا فیصلہ

بھارتی حکومت مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی ذمے داریاں پوری کرے

عدالت نے بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی سمیت 61 افراد کو بری کر دیا ہے۔ فوٹو فائل

KARACHI:
بھارت میں 2002کے گجرات فسادات کے مقدمے میں گجرات ہائی کورٹ نے 22 افراد کو مجرم قرار دیتے ہوئے 21 ملزمان کو عمر قید اور ایک پولیس انسپکٹر کو ایک سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ عدالت نے بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی سمیت 61 افراد کو بری کر دیا ہے، ان افراد پر 2002 میں ایک خاندان کے 11افراد کے قتل کا الزام تھا۔

یاد رہے کہ 28 فروری 2002 کو ریاست گجرات کے ضلع مہسنا کے ڈپڈا دروازہ کے علاقے میں فسادیوں کے ہجوم نے 2 بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 11افراد کو ہلاک کر دیا تھا، بعد میں لاشیں جلا دی گئی تھیں۔ مجرم قرار دیے گئے 22 میں سے 21 افراد کو قتل کی کوشش کا مجرم قرار دیا گیا، کسی کو بھی قتل کا مجرم قرار نہیں دیا گیا، ایک پولیس انسپکٹر کو ڈیوٹی سے غفلت برتنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے،

بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی پرہلاد گوسا کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا ہے۔ گجرات ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ مبنی بر انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس میں مجرموں کو نہ صرف پوری طرح مجرم تسلیم نہیں کیا گیا اور قتل کا مجرم قرار دینے کے بجائے محض قتل کی کوشش کا مجرم قرار دیا گیا بلکہ انھیں کم سے کم سزا دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے جب کہ بی جے پی کے سابق رکن اسمبلی کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا ہے'


یوں اس فیصلے سے انصاف کے تقاضے پورے ہوتے نظر نہیں آتے جس کے دو طرح کے نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے' ایک یہ کہ اس فیصلے سے بھارت میں رہنے والے مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں میں مایوسی پھیلے گی اور ان میں یہ تاثر عام ہو جائے گا کہ انھیں حکومت کے علاوہ عدالتوں سے بھی انصاف دستیاب نہیں ہو سکتا' دوسرا نتیجہ یہ برآمد ہونے کا خدشہ ہے کہ ایسے فیصلوں سے ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے اور وہ زیادہ کھل کھیلیں گے'

پہلے سے بھی زیادہ اقلیتوں کو اپنی انتہا پسندی کا نشانہ بنائیں گے جس سے ظاہر ہے بھارت کے نام نہاد سیکولرازم کا چہرہ اور زیادہ مسخ ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ ان لوگوں کی سوچ پر ایک تازیانہ بھی ہے جو یہ چرچا کرتے نہیں تھکتے کہ بھارت میں مسلمانوں کو ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں۔ ضرورت امر کی ہے کہ بھارتی حکومت مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی ذمے داریاں پوری کرے

تاکہ وہ احساس کمتری یا کسی زیادتی کا شکار نہ ہوں۔ بھارتی قیادت کی جانب سے اکثر پاکستان میں انتہا پسندی کے پائے جانے کا واویلا کیا جاتا ہے لیکن اس کے اپنے ہاں صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی ہندو انتہا پسندی کی دست بُرد سے محفوظ نہیں ہے۔ بھارتی حکومت کو اس صورتحال میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔
Load Next Story