سندھ میں لوڈ شیڈنگ پانی کی قلت
وفاق اورصوبے کے درمیان کشمکش کی صورت حال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔
سورج آگ برسا رہا ہے، ایسے میں سندھ بھر میں بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے جینا محال کردیا ہے۔ عوام کو روزانہ ملک بھرسے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید سنائی جاتی ہے اورکہاں یہ حال ہے ۔سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی کی قرارداد جو وفاق کے خلاف تھی منظور ہوئی، وزیراعلیٰ سندھ کا موقف تھا، ہم نے بجلی کے تمام واجبات ادا کردیے ہیں لیکن وفاق کی جانب سے پھر بھی 20،20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا ظلم کیا جارہا ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا موقف عوامی امنگوں کا ترجمان ہے ۔ یقیناً لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بہت طویل ہوگیا ہے جس کے باعث معیشت کا پہیہ جام اور روزمرہ کے معمولات زندگی بری طرح متاثرہوئے ہیں۔ اسپتالوں میں مریض تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ سالانہ امتحانات ہورہے ہیں اور طلبہ شدید گرمی اورحبس کے دوران بغیر بجلی کے امتحانی پرچہ جات حل کررہے ہیں۔ اٹھارھویں ترمیم کے باجود بجلی کی کمی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
وفاق اورصوبے کے درمیان کشمکش کی صورت حال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلاشبہ صوبوں کو اپنے وسائل سے بجلی پیدا کرنے کے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جب کہ گیس کے معاملے میں سندھ خودکفیل ہے ۔اس ضمن میںوزیراعلیٰ سندھ کا یہ کہنا ہے کہ100 میگاواٹ بجلی بالکل تیار ہے جسے صرف جاری کرنا ہے اس کے بعد سندھ کے شہروں شکار پور، دادو اور دیگر پاور پلانٹس سے لوڈشیڈنگ کم ہوگی جو خوش آئند ہے۔
سندھ ملکی معیشت کی بیک بون ہے، کراچی ملک کا معاشی ہب ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی بلکہ خاتمے پر توجہ دی جانی چاہیے ۔ دوسری جانب سینیٹ قائمہ کمیٹی پانی وبجلی میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ جب سندھ کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت سندھ کو پانی کیوں نہیںملتا، صوبے کے نصف علاقے میں خریف کی فصل کاشت نہیں کی جاسکی۔بدقسمتی سے پانی ذخائر کے آپریشنل سسٹم کے پیمانے طے نہیں۔
وزارت حکام اورارسا یقین دہانی کرائیں کہ پانی معاہدے پر نظر ثانی نہیں کی جارہی۔ جس پر بتایا گیا کہ معاہدے پر نظر ثانی نہیں کی جارہی۔ پانی زندگی کا دوسرا نام ہے ، فصلوں کی کاشت وقت پر نہیں ہوں گی توصوبے میں زرعی اجناس کی قلت سے صورتحال سنگین رخ اختیار کرسکتی ہے۔تمام مسائل کو افہام وتفہیم اورتدبر سے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا موقف عوامی امنگوں کا ترجمان ہے ۔ یقیناً لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بہت طویل ہوگیا ہے جس کے باعث معیشت کا پہیہ جام اور روزمرہ کے معمولات زندگی بری طرح متاثرہوئے ہیں۔ اسپتالوں میں مریض تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں۔ سالانہ امتحانات ہورہے ہیں اور طلبہ شدید گرمی اورحبس کے دوران بغیر بجلی کے امتحانی پرچہ جات حل کررہے ہیں۔ اٹھارھویں ترمیم کے باجود بجلی کی کمی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
وفاق اورصوبے کے درمیان کشمکش کی صورت حال کو اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلاشبہ صوبوں کو اپنے وسائل سے بجلی پیدا کرنے کے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جب کہ گیس کے معاملے میں سندھ خودکفیل ہے ۔اس ضمن میںوزیراعلیٰ سندھ کا یہ کہنا ہے کہ100 میگاواٹ بجلی بالکل تیار ہے جسے صرف جاری کرنا ہے اس کے بعد سندھ کے شہروں شکار پور، دادو اور دیگر پاور پلانٹس سے لوڈشیڈنگ کم ہوگی جو خوش آئند ہے۔
سندھ ملکی معیشت کی بیک بون ہے، کراچی ملک کا معاشی ہب ہے۔ اس کی اہمیت اور افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی بلکہ خاتمے پر توجہ دی جانی چاہیے ۔ دوسری جانب سینیٹ قائمہ کمیٹی پانی وبجلی میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ جب سندھ کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت سندھ کو پانی کیوں نہیںملتا، صوبے کے نصف علاقے میں خریف کی فصل کاشت نہیں کی جاسکی۔بدقسمتی سے پانی ذخائر کے آپریشنل سسٹم کے پیمانے طے نہیں۔
وزارت حکام اورارسا یقین دہانی کرائیں کہ پانی معاہدے پر نظر ثانی نہیں کی جارہی۔ جس پر بتایا گیا کہ معاہدے پر نظر ثانی نہیں کی جارہی۔ پانی زندگی کا دوسرا نام ہے ، فصلوں کی کاشت وقت پر نہیں ہوں گی توصوبے میں زرعی اجناس کی قلت سے صورتحال سنگین رخ اختیار کرسکتی ہے۔تمام مسائل کو افہام وتفہیم اورتدبر سے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔