د کھی ماؤں کے نام
جنگ وجدل میں مارے جانے والے جوانوں کی مائیں ساری زندگی تڑپتی رہتی ہیں۔
''مدرڈے'' یعنی ماؤں کا عالمی یوم گزرگیا۔ میڈیا سے لے کر وزیراعظم ہاؤس تک اوراین جی اوز سے لے کر وزارت بہبود خواتین تک سب نے منایا، ماؤں کی حیثیت، عظمت، وقار،ذلت، اذیت،اعلیٰ اور ادنیٰ مقام پر سب نے سیمینار، سیمپوزیم، مذاکرے، مباحثے، ریلیاں اورمظاہرے منعقد کیے۔
ٹی وی چینلوں پر صبح سویرے اعلیٰ متوسط طبقات کی خواتین تبادلہ خیال کرتے ہوئے نظرآئیں،ان میں سے کوئی بھی ایسی مائیں نظر نہیں آئیں جو سماج کی ستائی ہوئی، قسمت کی ماری، دربدر بھٹکتی ہوئی یا بے یار و مددگار ہوں۔ اسی ''مدرڈے'' کے روز منصورنگر، سیکٹر ساڑھے گیارہ اورنگی ٹاؤن، کراچی میں دو بچوں کی چھتیس سالہ ماں رابعہ کواس کے شوہر نے قتل کردیا، ماں کے ساتھ ساتھ ڈھائی سالہ بیٹی اورایک سالہ شیرخواربیٹے کو بھی قتل کردیا۔ اسی روز نواب شاہ کے شہرجام صاحب کے سرکاری اسپتال میں ڈاکٹروں کی بے حسی نے انسانیت کو بھی شرما دیا۔ زچگی کے لیے لائی گئی ماں کو داخل کرنے کے بجائے باہر نکال دیا۔
اسپتال کے باہر ماں نے سڑک ہی پر بچے کو جنم دیا۔ اور بچے کو جنم دیکر اپنے گاؤں روا نہ ہوگئی۔ حیدرآباد، لطیف آباد پر واقع گاؤں بیزوپہنور میں چار بچوں کی ماں روشنا کواس کا شوہر دلشاد نے چارپائی پر اس کے ہاتھ دوپٹے سے اور پاؤں زنجیروں سے باندھ کر اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس کر ہونٹوں پر ٹیپ لگادیا اور پھر چھری سے جسم کے مختلف حصوں پرکٹ لگائے اور پائپ سے اس پر تشدد کرتا رہا، نتیجتاً روشنا بیہوش ہوگئی۔
لواحقین تھانے میں رپٹ کرانے پہنچے تو ائیر پورٹ اور ہوسٹری دونوں تھانوں نے رپٹ درج کرنے سے انکارکردیا کہ یہ علاقہ ہمارے حدود میں نہیں آتا۔ویسے تو رواں سال تھرپارکر میں ایک سو انتیس ماؤں کی گود اجڑی، جب کہ ''مدر ڈے'' کے روز دو ماؤں کی گودیں خشک سالی سے خالی ہوگئیں۔ان میں سات ماہ کا بچہ بھونبا میگھواڑ اور نومولود بلاول جونیجو شامل ہے۔اسی روز مٹیاری میں ٹریلر نے دو نوجوانوں کوکچل کردو ماؤں کی گود اجاڑدی۔
بچوں کے ساتھ ہو نے والے تشدد پر صاحب جائیداد طبقات کے لوگ بچوں کی والدہ اوروالد کو ڈرا دھمکا کے یا رقم کا لالچ دے کر سمجھوتے کی درخواست عدالت میں پیش کرکے مجرم کو بری الزام کرا لیتے ہیں، لیکن اس بار طیبہ کے کیس میں راضی نا مے کو عدالت نے مستردکردیا تھا۔ ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اب دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ اس کی ماں فیصلے کی منتظر ہے۔ ویسے تو دنیا میں سب سے زیادہ استحصال زدہ طبقہ مزدور اورکسان ہوتا ہے لیکن سب سے زیادہ دنیا میں مائیں متاثرہوتی ہیں۔
جنگ وجدل میں مارے جانے والے جوانوں کی مائیں ساری زندگی تڑپتی رہتی ہیں۔ خود کش بمبار ہو یا فوجی آپریشن دونوں صورتوں میں بچے اور نوجوان ہی زیادہ مارے جا تے ہیں۔ چونکہ ان کی مائیں گھروں میں رہ جاتی ہیں۔ اس لیے ان کا غم اور صدمہ ان ہی کو بر داشت کرنا پڑ تا ہے۔ فوجی اسکول میں مارے جانے والے بچوں کی مائیں ابھی تک انصاف کی طلبگار ہیں۔
ابھی حال ہی میں گوادر پشکان اورگنت میں سڑک بنانے والے دس مزدوروں کوگولی مارکر ہلاک کردیاگیا۔ ان میں سے نو شہداء کی میتیں نواب شاہ، تحصیل کنڈیارو،گاؤں محمد صدیق لاکھو میں لائی گئیں، ان کا ایک ہی گاؤں اور خاندان سے تعلق ہے۔ دسواں براہوی تھا (براہوی بلوچ ہو تے ہیں)۔دو زخمی مزدور، جن میں ایک کا نام حضوربخش اور دوسرے کا قادربخش۔
قادر بخش کے مطابق ''دوحملہ آور پشکان کی جانب سے آئے جنھیں دیکھ کر میں اٹھ کھڑا ہوگیا اور بلوچی میں بات کی تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ تم سائیڈ پر ہوجاؤ،اس کے بعد مزدوروں کو اکٹھا کرکے گو لیاں ماری گئیں، حالانکہ میں نے انھیں بتایا کہ ان مزدوروں کا تعلق سندھ سے ہے'' مرنے والوں میں بیشتر مزدور نوجوان اور چارکی عمریں پندرہ سولہ کی تھی، جن کی لاشیں گھر پہنچی تو ''مدرڈے''پر ان کی مائیں بیہوش ہوگئیں،کچھ کو سکتا طاری ہوگیا اورکچھ صرف آہ و زاری کرتی رہیں ۔
عالمی دن پر ماؤں کے ساتھ یہ سلوک ہوا۔ پیٹ کی بھوک مٹانے کی خاطر مزدورکہیں بھی جاسکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملکوں کی سرحدیں ہی ختم ہوجائیں، جو جہاں چاہے کام کرے۔ جہاں تک سندھ بلوچستان کا تعلق ہے تو یہاں جیکب آباد، نصیرآباد یا جعفرآباد کولکیروں سے تقسیم کرنا مشکل ہے۔ یہاں کے لوگ سندھی اوربلوچی دونوں زبانیں بولتے ہیں۔
پاکستان کے لا کھوں بلوچ خواہ وہ بلوچی بولتے ہوں یا براہوی عالم عرب، ایران، اومان،امریکا اور یورپ میں جا کرکام کرتے ہیں تو پھر بلوچستان میں غیر بلوچوں کا کام کرنا کون سا جرم ہے؟اس قتل کی جتنی بھی مذمت کی جا ئے کم ہے۔
ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس روزخودکش بمبار سے پچیس جے یوآئی کے کارکنان جاں بحق ہوئے اس کے دوسرے دن دس مزدوروں کو گولی مارکر قتل کیا گیا۔''خون پھر خون ہے اپنا ہو یا پرایا'' جے یوآئی کے کارکنان کی ہلاکت انتہائی افسوسناک، درد ناک اور قابل مذمت ہے۔ اسی طرح دس مزدوروں کا قتل بھی افسوسناک، درد ناک اور قابل مذمت ہے، لیکن ہمیں دونوں اموات پر تعزیت کرتے، افسوس کرتے اورجنازوں میں کچھ تفریق نظر آئی۔
جے یو آئی کے کارکنان کی ہلاکت پر میڈیا کئی دنوں تک بتاتا رہا، تبصرے ہوتے رہے ، علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایات آتی رہیں لیکن دس مزدوروں کی ہلاکت پر ان کے جنازے میں کوئی معروف شخصیت شریک نہیں ہوئی، ٹی وی پرتبصرے ہوئے اور نہ وزراء حضرات ان کے گھروں پہ تعزیت کرنے گئے۔انسان سب ہی برابر ہیں، سب کی مائیں ایک ہی طریقے سے اپنے بچوں کو جنم دیتیں ہیں، پالتی پوستی ہیں اور یکساں دکھ سہتی ہیں۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود مزدوروں کی ہلاکت پر صرف ایک خبر سنا کرکیوں خاموشی ہوگئی؟
شاید اس لیے کہ وہ مزدور تھے۔ مزدورہوتا ہے،اس کی زبان، رنگ ونسل، مذہب اورفرقہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔کہاوت ہے کہ ''جہاں روزی وہیں روزہ'' مذہبی حوا لے سے کہا جاتا ہے کہ ''محنت کش خدا کا دوست ہے''اگر ایسا ہی ہے تو شہید مزدوروں کی ماؤں سے تعزیت کرنے کتنے وزیر، سفیر، وزرائے اعلی ٰ اور سیاسی رہنما ان کے گھر گئے۔
ٹی وی پر جے یو آئی کے کارکنان کو بارہا دیکھا گیا لیکن مزدروں کو نہیں۔ کیا مزدور انسان ہی نہیں۔ قاتلوں نے اپنے ہی بھائیوں کو قتل کیا کسی جابر، ظالم،آمر، ڈاکو یا لٹیرے کو قتل نہیں کیا۔کیا ان قاتلوں کی مائیں اس بات پر خوش ہوں گی کہ ان کا بیٹا کسی غریب ماں کے بیٹے کو قتل کرکے آیا ہے؟ اگر وہ کچھ بھی نہ کر پائیں توکوسیں گی ضرور۔
ان مزدوروں کے قتل پر آج میرے پاس کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امداد قاضی کا مذمتی بیان آیا اور کرا چی پریس کلب پر نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ ہوا ۔ یہ انتہائی جرات مندانہ اورمزدور دوستی کا ثبوت ہے۔ان مسائل اور دہشتگردی کا واحد علاج اس ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر ایک کمیونسٹ یا امداد با ہمی کا آزاد سماج کے قیام میں ہی مضمر ہے۔