آبادی کم تو ہلاکتیں بھی کم ہوں گی
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بڑی حد تک اپنی آبادی میں اضافے کی شرح پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
موجودہ حکومت کو بالآخر یہ احساس ہوگیا ہے کہ آیندہ چل کر جو مسئلہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے سب سے زیادہ مشکلات پیدا کرسکتا ہے بلکہ قابو سے باہر ہوسکتا ہے وہ آبادی میں دن بہ دن بڑھتی ہوئی شرح سے ہونے والا اضافہ ہے۔
اسی لیے حکومت نے آبادی کا یہ پھیلاؤ روکنے کے لیے قومی، سیاسی ومذہبی رہنماؤں کے تعاون سے بعض سنجیدہ کوششیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکمراں جماعت بجا طور پر سمجھتی ہے کہ آبادی میں اضافہ ایک ایسا ایشو ہے جس پر ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتا ہے اور یہ مسئلہ تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاسکتا ہے۔
دنیا کی آبادی فی الوقت سات ارب افراد سے تجاوزکرچکی ہے جس میں سے سب سے زیادہ یعنی ساٹھ فیصد ایشیا، پندرہ فیصد افریقہ اور گیارہ فیصد یورپ میں بستے ہیں جب کہ باقی باشندے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بڑی حد تک اپنی آبادی میں اضافے کی شرح پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے ہیں ان میں سب سے حیرت انگیز مثال چین کی ہے جس نے اپنے عوام سے ایک یا دو بچے فی فیملی کی پابندی کو نہ صرف منوایا بلکہ اس کے نتیجے میں اپنی آبادی پر بڑی حد تک کنٹرول بھی کرلیا ہے۔
چین میں پہلے لوگوں کو فی خاندان دو بچوں کی اجازت دی گئی تھی مگر پھر اس وقت جب اس قسم کے بچے احساس تنہائی کا شکار ہونے لگے تو پھر حکومت کی طرف سے والدین کو دو بچوں کی اجازت دی گئی۔ عظیم چینی قوم کا اس سلسلے میں اصل کارنامہ دو بچے فی خاندان کا فیصلہ کرنا نہیں بلکہ اسے منوانا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی جو بھی ترقی یافتہ اور سمجھ دار اقوام ہیں وہ بہت اچھی طرح اس بات کی سچائی کو سمجھتی ہیں کہ آبادی پر قابو پاکر ہی ترقی اور خوشحالی کے فوائد سے بہرہ ور ہوا جاسکتا ہے۔ لوگوں کی تعداد جتنی کم ہوگی اتنا ہی ملکی وسائل بہتر معیار اور مقدار کے ساتھ تقسیم ہوسکیں گے چنانچہ دنیا کے دولت مند ملکوں کی خوشحالی کا راز یہی ہے کہ وہاں وسائل جہاں زیادہ ہیں وہاں ان وسائل سے آبادی کی اکثریت فیض یاب ہورہی ہے۔
ہم پہلے بھی اس ایشو پر اظہار خیال کرتے رہے ہیں کیونکہ ہم ایمانداری سے سمجھتے ہیں کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جسے زیادہ سے زیادہ HAMMER کرنے اور لوگوں سے کم بچے خوشحال گھرانے کے تصور کو منوانے کی زیادہ سے زیادہ ضرورت ہے بات صرف کامن سینس کی ہے اگر کوئی شخص ہمارے ملک میں کلرک چپراسی یا ڈرائیور ہے اور اس کی تنخواہ کم ہے تو اسے شادی کے وقت ہی یہ ذہن بنا لینا چاہیے کہ اس کم تنخواہ میں (اگر اس کی اوپر کی آمدنی نہیں ہے) وہ کتنے بچے افورڈ کرسکتا ہے اور اس کی بیوی بچوں کا مناسب طور پر کس طرح گزارا ہوسکتا ہے اگر وہ اسٹیٹ کے تعاون اور رہنمائی سے کم بچوں کے ٹارگٹ کو حاصل کرلے تو وہ ایک مناسب زندگی گزار سکتا ہے بجائے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے اپنی عزت نفس بھی برقرار رکھ سکتا ہے اگر لوگوں کی اکثریت اس طرح اپنی تنخواہ کے مطابق گزارا کرنے لگے تو معاشرے سے کرپشن کی لعنت بھی کم ہوسکتی ہے۔
لیکن ایک ایسا معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے جس میں لوگوں کی اکثریت اپنی تنخواہ اور آمدنی پر ہی گزارا کرے اور اپنی مالی استطاعت کے مطابق ہی ہاتھ پاؤں پھیلائے حکومت وقت کو بھی اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا پہلی بات تو یہ کہ حکومت کسی بھی اوسط گھرانے کے اخراجات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملک میں تنخواہوں کی کم ازکم حد نہ صرف مقرر کرے بلکہ اس پر عملدرآمد بھی کروائے کیونکہ ہمارے ملک میں بڑے دلکش اور خوبصورت قوانین تو بن جاتے ہیں مگر حکومت ایسے قوانین پر عملدرآمد کرانے سے قاصر رہتی ہے مثلاً ابھی تک نہ تو ایسا میکنزم ہے اور نہ عدالتوں کا وجود ہے جن کے ذریعے سرکاری وکیل Low Paid ملازمین کو ان کی کم از کم تنخواہیں دلوا سکیں۔ خاص طور پر پرائیویٹ ملازمین کو جو تھوڑی بہت یا مناسب تنخواہیں ملتی ہیں ان کی ادائیگی مالکان کی صوابدید پر ہوتی ہے۔
ہم پھر آبادی کے مسئلے کی طرف واپس آتے ہیں۔ معذرت کے ساتھ اگر ہم اپنی ملک کی آبادی میں اضافے کی شرح کو مہیا وسائل کے مطابق کم سے کم رکھنے کا ہدف پورا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ملک کے جس طبقے کی مدد درکار ہوگی وہ مذہبی رہنماؤں کا طبقہ ہے۔ جو ایسے لوگوں سے جو اندھا دھند بچے پیدا کیے جا رہے ہیں اپنی بات منوا سکتا ہے سب سے پہلے تو اس طبقے کو خود اس بات پر قائل معقول کرنا ہوگا کہ یہ خالصتاً ایک کامن سینس کی بات ہے کہ ایک راسخ العقیدہ ایماندار مسلمان جس کی آمدنی کم وسائل محدود اور گھر کی مکانیت بھی کم ہو ایک یا دو بچوں کے ساتھ ہی بہتر طور پر گزارا کرسکتا ہے۔
کیونکہ یہ بھی ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ وہی لوگ جن کی آمدنی محدود ہے زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کو نہ بہتر طور پر کھلا پکا سکتے ہیں نہ اچھی تعلیم دلا سکتے ہیں اور نہ ضرورت سے زیادہ بچے پیدا کرنے والی بیمار بیوی کی خبر گیری اور علاج معالجہ کر پاتے ہیں اور یوں گھریلو مسائل کا ایک شیطانی چکر چل پڑتا ہے۔
آبادی میں اس بے تحاشا اضافے سے ہم ہی نہیں بلکہ وہ ''نادیدہ قوتیں'' بھی پریشان ہیں جن کی دنیا میں خاص طور پر مسلمانوں کی آبادی کے پھیلاؤ نے رات کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جہاں دوسرے مذاہب میں فیملی سسٹم بری طرح متاثر ہو رہا ہے مسلمانوں کا فیملی سسٹم ابھی تک INTACT ہے اس طرح خاص طور پر امریکا اور یورپ کے ملکوں میں حکمرانوں کو یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ ایک دن دنیا کے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کی تعداد عیسائیوں اور یہودیوں سے بڑھ جائے گی لہٰذا یہ محض اتفاق ہی نہیں ہے کہ محض مسلمان ملکوں میں ہی تواتر سے بمباری اور دھماکے کرا کے بے گناہ مسلمان ہلاک کیے جا رہے ہیں جن کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ آبادی میں زیادہ ہیں۔
ہاں ایک کام ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی اس ضرورت سے زیادہ فاضل آبادی کو بہتر انداز میں ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے استعمال کریں اور ایسے منصوبے شروع کریں جس میں ہمیں افراط سے دستیاب مین پاور کی کھپت ہو سکے جیساکہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے چین اور کسی حد تک بھارت اور بنگلہ دیش نے کیا ہے جن کی معیشتیں اس بڑھتی ہوئی آبادی کے بوجھ کو برداشت کر رہی ہیں بلکہ اسے خاص طور پر برآمدات بڑھانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
اس کے لیے ہمیں ایسی مصنوعات کے کارخانوں کی طرف توجہ دینا ہوگی جو ہم برآمد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی بعض اشیا کی درآمد پر پابندی لگا کر یہ اشیا خود اپنے ملک میں تیار کرنی ہوں گی۔ تاکہ اس طرح لگنے والی صنعتوں میں زیادہ سے زیادہ مین پاور کو کھپایا جاسکے۔ صرف اسی طرح ہم آیندہ نسلوں کے لیے ایک ایسا راستہ چھوڑ سکتے ہیں جو ترقی اور خوشحالی کی منزلوں کی طرف جاتا ہے۔