ابوالکلام آزاد۔۔۔ امام عشق و جنوں
ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کا مقصد دعوت و تذکیر ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں کہ سیرتوں اور شخصیتوں کا تشخص بڑا مشکل ہے۔ اگر یہ کام بنے بنائے سانچوں اور پیمانوں کی مدد سے کوئی لینا چاہے تو ان سانچوں کو شخصیتوں کی خاطر یوں بگاڑ دینا پڑے گا کہ سانچے اپنی اصل شکل سے ہٹ کر کچھ اور کے اور ہوجائیں گے۔ چنانچہ جب انھوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کو بیان کرنا چاہا تو صاف طور پر کہہ دیا کہ ''ابوالکلام کی شخصیت اس درجہ پیچیدہ اور متنوع ہے کہ اس کی تعریف و تشخیص کے لیے کوئی ایک مروجہ اصطلاح یا لیبل کارآمد ثابت نہیں ہوگا بلکہ اس معاملے میں اصطلاح سے ماورا ہوکر عبارتوں اور جملوں سے کام لینا ہوگا۔''
ڈاکٹر سید عبداللہ نے جو عربی، فارسی اور اردو ادبیات کے نامور استاد، بلند پایہ محقق اور مثالی نقاد تھے، ابوالکلام۔ ''امام عشق و جنوں'' کے عنوان سے اپنے ایک طویل مضمون میں مولانا آزاد کی شخصیت کو دریافت کیا ہے۔ ان کا یہ مضمون ان کی دوسری تحریروں کے ساتھ مکتبہ جمال نے کتابی شکل میں شایع کیا ہے۔سید صاحب لکھتے ہیں ''ابوالکلام کی طبیعت کے دو رنگ ہیں۔ اول ان کی طبیعت کا وہ نقشہ جو انھیں موروثی طور پر اپنے ابتدائی ماحول سے ملا۔ دوسرا طبیعت کا وہ رنگ ہے جو اکتساب و ریاضت کے ذریعے کچھ نئے انداز میں نکھر اور سنور کر چمکا۔ لیکن ابوالکلام کی طبیعت کا اصل مواد عشق وجنوں کی شورشوں سے ڈھالا گیا ہے۔
اس عشق سے مراد وہ عشق بھی ہے جسے عشق علی الاطلاق کہیے اور وہ بھی جسے لوگ عشق مجاز کے نام سے یاد کرتے ہیں اور وہ بھی جو طبع انسانی کے ایک بے غرض جز کی حیثیت سے انسانی ضمیر میں شامل ہوتا ہے اور طبیعت کو ایک دائمی دردمندی اور دل فگاری سے بہرہ مند کرتا رہتا ہے۔ اس کا کوئی موضوع ہو یا نہ ہو، محبت کرنے والا یوں ہی محبت کیے جاتا ہے۔ اس میں کامیابی اور ناکامی کی بھی بحث نہیں۔ اسی مواد سے ابوالکلام کی طبیعت تیار ہوئی ہے۔ چنانچہ عشق مجاز سے عشق مقاصد تک جتنی منزلیں بھی انھوں نے طے کیں وہ اسی جذبے کے جلوہ ہائے صد رنگ تھے۔''
ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں کہ ابوالکلام کے ذوق و مزاج میں مغرب کے رومانیوں کے بعض خصائص موجود ہیں لیکن ان کو ان رومانیوں کی صف میں شامل نہیں کرنا چاہیے جو ہر قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ ابوالکلام کے رومانی انداز کو اگر کسی نام سے یاد کیا جاسکتا ہے تو وہ جذب و جنوں ہے۔ یہ جنوں بھی اپنے ہی طرز و طور کا ہے۔ یہ طرز و طور ان عقائد و افکار سے اثر پذیر ہے جو ان کے مذہب اور ان کے مشرب نے دیا ہے۔
سید صاحب لکھتے ہیں ''مجھے اگر مجموعی لحاظ سے ابوالکلام کے ذوق ونظر کے بارے میں اظہار خیال کرنا ہو تو میں یوں کہوں گا کہ ان کی تصنیفات میں وہ تہذیبی مزاج جھلک رہا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کی رنگا رنگ دینی، ادبی اور عقلی روایات میں سے ڈھل کر نکلا ہے، جس کو تصوف کی سرخوشی انگیز آمیزش نے وسیع المشربی اور کشادگی کی لذت سے آشنا کیا ہے اور جسے فارسی شاعری کی سرور آمیز خوش مذاقی نے زندگی کے حسن و جمال اور ذوق و لذت سے بہرہ ور کیا ہوا ہے۔''
سید عبداللہ عشق کے مذہب کی اس خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ خلا میں معلق نہیں رہ سکتا، اس کو اپنی نمود کے لیے کسی نشانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ابوالکلام کے ہاں عشق اپنی ساری وسعتوں کے باوصف چند خاص نمونوں میں سمٹ کر جمع ہوگیا ہے۔ ان میں جامع ترین نمونہ یا موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک ہے جو حسن و جمال ظاہری و معنوی کا مکمل ترین مظہر و پیکر ہیں۔
آپؐ کا وجود اقدس ابوالکلام کے عشق کا آخری مرکز ہے۔ڈاکٹر عبداللہ نے اپنے ایک اور مضمون میں ابوالکلام آزاد کے طرز تحریر پر اظہار خیال کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ادب پر سیاست کے گوناگوں اثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ادیبوں کے ادبی مقام و مرتبہ کے متعلق بڑے مغالطے پیدا ہوجاتے ہیں۔ سیاسی قبول و عدم قبول کی لہر ادبی اور تنقیدی مذاق پر غالب آجاتی ہے۔
ابوالکلام کی نثر بھی سیاسی آویزشوں کا شکار ہوتی رہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ''ان کی تصانیف میں بڑا تنوع ہے جن میں ان کے قلم کے کئی رنگ ظاہر ہوئے ہیں۔ مخزن، وکیل اور الندوہ سے الہلال و البلاغ تک، پھر ترجمان القرآن سے غبار خاطر تک ان کے قلم نے ایک نہیں کئی منزلیں طے کی ہیں۔ ان سب منزلوں میں قبول عام ان کا رفیق اور شہرت ان کی ندیم رہی ہے مگر ہر موقعہ پر ان کی تحریروں کے متعلق ادبی فیصلے سیاسی گرم بازاری کے ہاتھ رہے ہیں۔ خالص ادبی لحاظ سے اظہار رائے بہت کم ہوا ہے۔'' سید صاحب کا خیال ہے کہ ابوالکلام کو نقصان پہنچانے والوں میں ان کے عقیدت مند اور مخالف برابر ہیں لیکن ان کی صحیح ادبی اہمیت کو زیادہ نقصان ان کے عقیدت مندوں نے پہنچایا ہے۔
ان کی کتاب ''غبار خاطر'' کو اُن کی بہترین تصنیف سمجھ لیا گیا جب کہ ان کے بلند پایہ ادبی کارناموں میں ''غبار خاطر'' ہی ایک ایسی کتاب ہے جو ابوالکلام کی اصل نثر سے بہت دور ہے۔ اس میں ابوالکلام کی تصویر بہت مدھم اور دھیمی ہے۔ سید صاحب لکھتے ہیں ''ابوالکلام کی عظمت کا نگار خانہ ''غبار خاطر'' پر قائم نہیں ہوا۔ اس کی بنیاد ''الہلال'' پر ہے جو ادب اور صحافت کے آسمان پر بدر کامل کی طرح ہمیشہ ہمیشہ چمکتا رہے گا۔
اردو ادب میں ابوالکلام کا امتیاز خاص ان کی بارعب اور باجلال نثر ہے جس کی اصل روح قوت اور توانائی، سخت کوشی اور دشواری پسندی میں مضمر ہے۔ غبار خاطر ایک جوئے نغمہ خواں ہے جو حیات کے ضعف اور ولولہ ہائے زندگی کی غنودگی کی ترجمانی کر رہی ہے۔ اس میں ''صد نوائے جگر خراش'' کا سماں پایا نہیں جاتا۔''
ڈاکٹر سید عبداللہ مولانا آزاد کے اسلوب نگارش کو دعوت و عزیمت کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس انداز نگارش کی ترکیب میں کئی عناصر نے حصہ لیا۔ ان میں ایک تو وہ ہے جو عربی ادب اور روایات سے حاصل ہوا، دوسرا ان کے عصر کے سیاسی اور بین الاقوامی واقعات، تیسرا ابوالکلام کی علمیت کا امڈتا ہوا طوفان اور چوتھا مغربی ادیبوں اور انشا پردازوں کے اثرات اور ان کا انداز تخاطب۔ اس سبب کے ساتھ آزاد کے مزاج کی شعلہ سامانی اور مقصد و نصب العین کی خاطر جذبے کی آتش فشانی ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کا مقصد دعوت و تذکیر ہے۔ ان کی تصانیف میں ایک پکار اور للکار ہے یہ پکار اور للکار داعی کی پکار اور للکار ہے۔ ان کا ادب تسکین و تفریح کا سامان بہم نہیں پہنچاتا۔ ان کا ادب دلوں میں درد، شوق، اضطراب اور بیداری پیدا کرتا ہے۔ ابوالکلام کو خد نے عظیم شخصیت عطا کی ہے مگر جس جوہر خاص نے ان کی شخصیت کو عظیم تر بنایا ہے وہ ان کا عظیم اسلوب ہے۔