یوم مئی پر تعطیل کب اور کیسے ہوئی
131 سال پہلے شکاگو میں جو المیہ پیش آیا تھا وہ شکاگو کے مزدوروں پر ہونے والے احتجاج کا نتیجہ تھا۔
KABUL:
ہر سال کی طرح اس سال بھی یوم مئی منایا گیا، ہر شہر ہر علاقے میں جلسے کیے گئے جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں مشعل بردار جلوسوں کا اہتمام کیا گیا کانفرنسیں ہوئیں، مظاہرے کیے گئے ورکشاپوں اور مباحثوں کا اہتمام کیا گیا، یوں ایک سال بعد آنے والا مئی دو دن کی مصروفیات کے بعد ختم ہوگیا اب ایک سال بعد اسی قسم کی سرگرمیوں کو دہرایا جائے گا۔
131 سال پہلے شکاگو میں جو المیہ پیش آیا تھا وہ شکاگو کے مزدوروں پر ہونے والے احتجاج کا نتیجہ تھا 131 سال پہلے سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہو رہا تھا اور اس کے ساتھ مزدوروں پر مظالم کا سلسلہ بھی بڑھ رہا تھا۔ اس وقت کا صنعتکار مزدوروں سے غلاموں جیسا سلوک کر رہا تھا۔ اس حوالے سے سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ مزدوروں کے اوقات کارکا کوئی تعین نہ تھا مزدوروں سے 18 سے 20 گھنٹے کام لیا جاتا تھا، مزدور نہ ٹھیک طریقے سے سو سکتے تھے نہ گھرکے کام کاج کے قابل رہتے تھے۔
شکاگو کے مزدوروں نے اس ظلم کے خلاف احتجاج شروع کیا تو سرمایہ داروں کی سیکیورٹی فورسز نے مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں چلائیں اتنے مزدوراس فائرنگ میں ہلاک ہوئے کہ شکاگو کی نالیاں سڑکیں مزدوروں کے خون سے سرخ ہوگئیں۔ سرمایہ داروں کے منصفوں نے کئی مزدوروں کو سزائے موت سنائی اور مزدور نعرے لگاتے ہوئے تختہ دار پر چڑھ گئے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزدوروں نے اپنا خون دے کر اوقات کار کا جو تعین کروایا تھا وہ اوقات کار 131 سال بعد کیوں بھلائے جا رہے ہیں اور آج کی ترقیاتی یافتہ دنیا میں مزدوروں کو 20-18 گھنٹے کام پر کیوں مجبور کیا جا رہا ہے؟ کیا مرکزی اور صوبائی حکومتیں مزدوروں پر ہونے والے اس ظلم سے ناواقف ہیں؟
اس ظلم کے علاوہ بھی آج کا مزدور بہت سارے ظلم سہہ رہا ہے۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یونین نہیں بناسکتا وہ مالکان سے اپنے مطالبات منوانے کے لیے اپنا قانونی حق بارگیننگ استعمال نہیں کرسکتا وہ مالکان سے بات چیت کی ناکامی کے بعد اپنا قانونی حق ہڑتال استعمال نہیں کرسکتا۔ حکومت نے مزدوروں کی کم سے کم اجرت کا جو تعین کیا ہے مزدور اس پر عملدرآمد نہیں کراسکتا۔ سوشل سیکیورٹی سے اپنی علاج معالجے کی ضرورتیں پوری نہیں کرسکتا۔ اس قسم کے کئی قانونی حق جن پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے مزدور ان پر عملدرآمد کی جرأت نہیں کرسکتا کیونکہ صنعتکاروں کے ساتھ لیبر ڈپارٹمنٹ اور ریاستی مشینری ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ بتائی جاتی ہے ان ساڑھے چار کروڑ مزدوروں کے ساتھ مختلف شعبوں میں کام کرنے والے کروڑوں ملازمین بھی یوم مئی مناتے ہیں لیکن یہ کیسا المیہ ہے کہ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ یوم مئی کی پاکستان میں عام تعطیل کیسے ہوئی کب ہوئی کس کی تجویز پر ہوئی؟
1972 میں جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں ہونے والے مظالم پر مزدور بہت بے چین تھے اس بے چینی کا اظہار ہڑتالوں کی شکل میں ہو رہا تھا۔ سائٹ انڈسٹریل ایریا اور لانڈھی انڈسٹریل ایریا میں جب پولیس نے احتجاجی مزدوروں پر اندھا دھند گولیاں چلائیں اور درجنوں مزدور ان گولیوں سے شہید ہوئے تو کراچی کے صنعتی علاقوں میں سخت ردعمل ہوا۔
بھٹو صاحب نے اس وقت کے مرکزی وزیر محنت رانا حنیف کو حالات کنٹرول کرنے کے لیے مزدور رہنماؤں سے بات چیت کے لیے کراچی بھیجا رانا حنیف نے قصر ناز میں مزدور رہنماؤں کی ایک میٹنگ بلائی جس میں تمام معروف مزدور رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس میٹنگ میں موجود تمام رہنماؤں نے رانا حنیف کو صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے مطالبات پیش کیے۔
رانا حنیف نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بیدری صاحب! آپ بھی اپنے مطالبات بتائیں؟ میں نے کہا کہ تقریباً تمام اہم مطالبات دوستوں نے پیش کر دیے ہیں البتہ ایک اہم مطالبہ ایسا ہے جو کسی طرف سے پیش نہیں کیا گیا۔ اور وہ ہے یوم مئی اور یوم حسن ناصر پر عام تعطیل کا مطالبہ۔ دنیا بھر میں یوم مئی پر عام طور پر چھٹی ہوتی ہے لیکن پاکستان کو قائم ہوئے 25 سال ہو رہے ہیں اب تک پاکستان میں یوم مئی پر نہ چھٹی ہوتی ہے نہ یوم مئی سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی یوم مئی پر عام تعطیل ہونی چاہیے۔ تاکہ مزدور یوم مئی بھرپور طریقے سے مناسکیں۔
رانا حنیف نے ہمارے مطالبے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ بیدری صاحب! میں کوشش کروں گا کہ آپ کا مطالبہ حکومت سے تسلیم کراؤں۔ کچھ عرصے بعد یوم مئی پر عام تعطیل کا اعلان کردیا گیا البتہ یوم حسن ناصر پر عام چھٹی کا مطالبہ نہیں مانا گیا۔ یوں پاکستان میں یوم مئی پر عام تعطیل کا ہمارا مطالبہ بھٹو حکومت نے تسلیم کرلیا۔ چونکہ یہ ایک اہم تاریخی واقعہ ہے جس کے آغاز کا پاکستان کے 20 کروڑ عوام خاص طور پر ساڑھے چار کروڑ مزدوروں کو پتا ہونا چاہیے۔
پاکستان آج 1886 کے شکاگو سے بدتر حالات سے گزر رہا ہے پاکستان کے مزدور بھائی یوم مئی کو عرس کی طرح منانے کی رسم ادا کرنے کے بجائے اس دن پاکستان کے مزدوروں پر ہونے والے مظالم کے خلاف خاص طور پر ٹھیکیداری نظام کے خلاف منظم تحریک چلانے اور 131 سال پہلے ہونے والے مظالم سے پاکستان کے مزدوروں کو نجات دلانے کے لیے 1972 جیسی تحریک چلانے کا عہد کریں اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں اور پیشہ ورانہ تنظیموں کو ساتھ لے کر مزدوروں کے جائز مطالبات منوانے کا عملی مظاہرہ کریں۔