لومڑی کا شکار برطانیہ کا سب سے اہم مسئلہ

پابندی ختم کی جائے یا نہیں، ایوان میں بحث ہوگی۔


غ۔ع May 18, 2017
پابندی ختم کی جائے یا نہیں، ایوان میں بحث ہوگی۔ فوٹو: نیٹ

بریکسٹ کے علاوہ برطانیہ کے سیاسی ایوانوں میں جس معاملے کی گونج سُنائی دے رہی ہے، وہ لومڑی کے شکار پر پابندی ہے!

آپ یہ پڑھ کر حیران ہوئے ہوں گے مگر یہ درست ہے کہ اس جانور کے شکار پر پابندی کے خاتمے کے لیے ایوان میں آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔ لومڑی کے شکار پر پابندی 2004ء میں لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے دور میں عائدکی گئی تھی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم تھریسا مے لومڑی کے شکارکی حامی ہیں اورکھلم کھلا اس کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں ایک بار پھر اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ لومڑی کا شکا ر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ گھوڑوں پر بیٹھ کر کتوں کے ذریعے لومڑی کا شکار کرنے کا طریقہ رحم دلانہ ہے۔ اس کا شکار کرنے کے لیے کئی ظالمانہ طریقے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔

لومڑی کے شکار پر پابندی کا معاملہ اتنی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ وزیراعظم اس پر ایوان میں رائے شماری کی تجویز دینے پر مجبور ہوگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ پارلیمان میں لایا جانا چاہیے تاکہ اراکین اس پر اپنی اپنی رائے کا اظہار کرسکیں۔

سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے لومڑی کے شکار پر پابندی پر پارلیمان میں رائے شماری کروانے کا عندیہ کئی بار ظاہر کیا مگر چھے سالہ دور میں وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ نہ پہناسکے۔ اس کی وجہ ایوان کے اندر پابندی کے حامی اراکین کی جانب سے مخالفت کا ڈر تھا۔ تھریسا مے کو بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لومڑی کے شکار کی حامی ہونے کے باوجود وہ یہ کہنا نہیں بھولیں کہ حمایت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پابندی کو کالعدم قرار دے دیں گی۔ انھوں نے کہا کہ اس کا فیصلہ اراکین پارلیمان کو کرنا چاہیے۔

برطانوی وزیراعظم لومڑی کے شکار کی حامی ہیں مگر عوام کی اکثریت اس کی مخالف ہے۔ گذشتہ برس کے اواخر میں اس موضوع پر ایک سروے کرایا گیا تھا۔ سروے کے نتائج ظاہر کررہے تھے کہ 84 فی صد عوام لومڑی کے شکار پر پابندی کے خاتمے کے مخالف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تھریسا مے نے اس معاملے میں اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرنے سے گریز کرتے ہوئے اسے پارلیمان کے سَر ڈال دیا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں