انور احسن کو رخصتی سلام

دس برس کی عمر میں دوستوں کی ڈار سے بچھڑنے کا غم، لیکن شعروں کی آمد کا سلسلہ نہ رکا


Zahida Hina August 01, 2012
[email protected]

وہ شاعر تھے، کہانی کار تھے، بائیں بازو کے ایک اہم دانشور تھے۔ ان کے خاندان نے 1950 میں ہندوستان سے ترک وطن کیا تو وہ نو عمر تھے اور ساتویں میں پڑھتے تھے۔ ایسے گھراور شہر کو ترک کر کے آئے تھے جہاں کشادہ صحن تھے اور ہرے بھرے باغ تھے۔

ہم عمر بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ جتنی چاہو دوڑ لگائو، پتنگ اڑائو، پھل دار پیٹروں پر چڑھ کر امرود اورآم توڑو، شام ڈھلے بڑی بوڑھیوں سے کہانیاں سنو اور منہ اندھیرے اٹھ کر اسکول جائو، مشفق استادوں سے اردو، ہندی، فارسی اور حساب سیکھو، چپکے چپکے شاعری کرو۔ وہ بچپن سے کتابوں اور شاعری کے عشق میں گرفتار تھے۔

دس برس کی عمر میں دوستوں کی ڈار سے بچھڑنے کا غم، لیکن شعروں کی آمد کا سلسلہ نہ رکا، کہاں بے فکری کی زندگی، اور کہاں کراچی میں دو کمروں کا فلیٹ جس میں بہت دنوں تک تیرہ افراد پر مشتمل خاندان زندگی گزارتا رہا۔ پاکستان چوک کے اس کابک سے فلیٹ کی تنگ بالکنی میں اپنی کتابوں کا اور اپنا ٹھکانا بنایا۔ بستر اتنا تنگ تھا کہ جب اس پر لیٹ جاتے تو جگہ کی تنگی کی وجہ سے کروٹ نہیں بدل سکتے تھے۔

یہ تھے ہمارے انور احسن صدیقی جنہوںنے نو عمری ایک تنگ بستر پر گزاری، لیکن جن کے ذہن کی وسعت نے بہت جلد انھیں ساری دنیا سے جوڑ دیا۔ ان کا کوئی غم ذاتی نہیں رہا، آفاقی بن گیا۔ وہ ہم سے ابھی چند دنوں پہلے بچھڑے ہیں لیکن سالہا سال تک اسی صفحے پر ان کی تحریریں ہمارے ذہن کے کتنے ہی تاریک گوشوںکو اجالتی رہیں۔

ان کی کشادہ دلی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ تنگی ترشی کی زندگی کا لوگ عموماً ذکر نہیں کرتے لیکن اپنے ان دنوں کو انھوں نے بہت محبت سے لکھا ہے۔ جس بلڈنگ میں وہ رہتے تھے اس کے دروازے کے باہر فٹ پاتھ پر وہاں رہنے والے محمد خان کی چارپائی بچھی رہتی تھی۔ اکثر شام ڈھلے وہ اس چارپائی پر جا کر لیٹ جاتے اور پھر وہ ہوتے اور سیر فلک ہوتی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ

''میرے سر پر نیلگوں آسماں ہوتا اور میرے چاروں طرف پھیلا ہوا رات کا صحرا، افق سے تا افق رات کا پھیلا ہوا صحرا، فضائوں میں خاکِ الم بن کر منشتر ہو جانے والے بے نور ذروں سے بنا ہوا رات کا صحرا۔ رات کا صحرا جس کی سانسوں میں سینوں کے ہزاروں زخم گھلے ہوئے ہیں۔ جو لہو کے نہ جانے کتنے دریا پی چکا ہے۔

رات کا صحرا، جس کے دامن میں غم نصیبوں کے کتنے ہی لشکر خیمہ زن رہے ہیں۔ رات کا صحرا جو گزرگاہِ ہجومِ بے نوا ہے۔ رات کا صحرا، انسان کے سوز دروں کی خلوتوں کا راز داں، درد آگیں تنہائیوں کا آشنا۔ ذہن بھٹک کر نہ جانے کہاں کہاں نکل جاتا۔ سردار جعفری کی طویل نظم کے مصرعے ذہن کے دریچوں پر دستک دینے لگتے۔

''یہ آدمی کی گزرگاہ، شاہ راہ حیات، ہزاروں سال کا بارِ گراں اٹھائے ہوئے۔ غلاموں اور کنیزوں کے کارواں گزرے۔ خود اپنے خون میں ڈوبے ہوئے نہائے ہوئے۔'' میری چشم تصور مجھے نہ جانے کون کون سے الم انگیز اور تحیر خیز مناظر دکھاتی چلی جاتی اور میں ان مناظر کی نامعلوم گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا۔ اپنے گرد و پیش کی دنیا سے بے نیاز۔'' ان کی یہ سطریں اس طرز فکر کی طرف اشارہ کرتی ہیں جس کو وہ آیندہ اختیار کرنے والے تھے اور جس پر وہ آخری سانس تک قائم رہے۔

بالکنی میں قائم اپنے' بیڈ روم' کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ''دو کمروں پر مشتمل اس چھوٹے سے فلیٹ میں رات کے وقت پڑھنے کی گنجائش نہیں تھی۔ میں لائٹ جلا کر دوسروں کی نیند خراب نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے میں نے غسل خانے کی دہلیز کا سہارا لیا۔ میں رات کو غسل خانے کی لائٹ جلا کر دہلیز پر بیٹھ جاتا اور پھر جب تک میرا جی چاہتا پڑھتا رہتا تھا۔

کسی کی نیند خراب نہیں ہوتی تھی۔ برسوں تک غسل خانے کی وہ دہلیز میرے لیے ''کمرہ مطالعہ'' کا، کام دیتی رہی۔ اسی دہلیز پر بیٹھ کر میں نے عظیم روسی مصنف فیودور دوستو وسکی کی وہ کتابیں پڑھیں جن کے پڑھنے کے دوران میری آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسو کتاب کے صفحات کو نم کرتے چلے جاتے تھے۔''

1950 اور 60 کی دہائی میں جب وہ تیز لہجے کی نظمیں لکھ رہے تھے، رسائل میں مسلسل شایع ہو رہے تھے، داد وصول کر رہے تھے، ان کی شخصیت سماجی اور سیاسی اعتبار سے ایک باشعور اور درد مند انسان کے سانچے میں ڈھل رہی تھی یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں ٹی ٹی نہیں ٹرام چلتی تھی۔

انسانوں کا وہ اژدھام نہ تھا کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہو۔ اس وقت تک سڑکوں کو پانی سے دھونے کا رواج نہیں رہا تھا اور کیسے رہتا کہ شہر کے شہزادے پارسی اب حاشیوں پر زندگی گزارتے تھے اور اس کو سجانے سنوارنے کا اختیار ان سے چھن گیا تھا۔ لیکن ایسا بھی نہیںتھا کہ ان دنوں سڑکوں پر پانی کے بجائے خون کا چھڑکائو ہوتاہو۔

لیکن ذرا تھمیے میں نے غلط لکھا۔ 48 میں ہندوئوں اور سکھوں کو چُھرے اور چھّرے سے مارنے کے بعد 8 جنوری 1952 کو پولیس نے طلبہ پر گولیوں کی باڑھ ماری تھی، کئی خون میں نہا گئے تھے اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ انھوں نے دل کے درد اور آنکھوں کے نم سے گوندھ کر ان واقعات کو صفحوں پر زندہ کر دیا ہے۔ شاید یہی وہ اندوہناک واقعہ ہے جس نے ان کے اندر بائیں بازو کی سیاست سے جڑنے کا رویہ راسخ کیا۔ ڈی ایس ایف کی، روشن خیال نوجوانوں کی تحریک ان کی تحریر میں زندہ ہو جاتی ہے۔

ان کی سیاسی بالغ نظری بھی کھل کر سامنے آتی ہے۔ وہ ون یونٹ کے خلاف آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اردو اور بنگلہ کے جھگڑے میں وہ بنگلہ بولنے والوں کے ساتھ ہیں۔ سندھ کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں انھیں نظر آتی ہیں اور وہ اپنے سندھی دوستوں کے شانہ بشانہ ہیں۔

اس نوعیت کا سیاسی مؤقف اختیار کرنے کے بعد یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ روزگار کے لیے سرکاری چاکری کرتے۔ انھوں نے ''لوح و قلم'' نکالا، کچھ عرصے بعد ''طلوع'' سے وابستہ ہوئے اور ایک عرصے تک سوویت یونین کے بارے میں نکلنے والے اس پرچے کی ادارت کرتے رہے۔ انقلابی شاعری جاری رہی اور دانشورانہ بحثوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ وہ شہر میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کے حلقے میں ہمیشہ محترم رہے۔

''طلوع'' کا بند ہونا ان کی زندگی کے لیے سانحے سے کم نہ تھا۔ وہ ان کا شوق تھا، روزگار کا ذریعہ تھا۔ انور احسن صدیقی نے کبھی کاسہ لیسی نہیں کی تھی، کبھی جعلی لوگوں کے دربار کا رخ نہیں کیا تھا۔ ہمارا سماج تیزی سے زوال پذیر تھا۔ اعلیٰ اقدار پسپا ہو رہی تھیں۔ نستعلیق، شریف شائستہ لوگوں کو ''بے وقوف'' سمجھا جاتا تھا۔

ایسے میں انھوں نے بہت کڑا وقت گزارا۔ یہ ڈائجسٹوں کے عروج کا زمانہ تھا، انور احسن صدیقی نے کہانیاں لکھنے کو اپنا روزگار بنا لیا۔ ابتدائی دنوں میں مجھے حیرت ہوتی تھی کہ بائیں بازو کے ایک دانشور نے کہانیاں گھڑنی کیسے سیکھ لیں۔ یہ بات بہت دنوں بعد سمجھ میں آئی کہ یہ خزانہ انھوں نے سدا بہار کہانیاں سنانے والی اماں کی آواز سے ان کی سماعت نے آٹھ دس برس کی عمر میں سمیٹ لیا تھا۔

یہ بات مجھے بہت بعد میں معلوم ہوئی کہ وہ ڈاکٹر اسلم فرخی کے چھوٹے بھائی اور ڈاکٹر آصف فرخی کے چچا ہیں۔ ان کی شریک حیات ریحانہ سے بھی یاد اﷲ رہی۔ محترم ڈاکٹر اسلم فرخی نے ''سدا بہار کہانیوں والی بڑی ماں'' کا نقشہ اس مہارت سے کھینچا ہے کہ وہ آنکھوں کی دہلیز پر آ کر بیٹھتی ہیں اور کہانیاں سناتی چلی جاتی ہیں۔

بڑے بھائی نے یہ سدا بہار کہانیاں سنانے والی کا خاکہ لکھ دیا۔ چھوٹے بھائی نے کہانیوں کے اس خزانے کو کاغذ پر سجا دیا اور آخری سانس تک ان کا روزگار کہانیاں اور مضامین لکھنے سے وابستہ رہا۔ یہ برادرم طاہر نجمی کی عنایت ہے کہ وہ ہمارے ایک اہم دانشور اور خلاق ذہن کو '' ایکسپریس'' میں لے آئے اور ہم سالہا سال ان کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھتے رہے۔

ان سے یاد اﷲ اس وقت کی تھی جب وہ ''طلوع'' کے مدیر تھے اور ہمارے کئی ادیب اور شاعر ان کی نظر کرم کے محتاج رہتے تھے۔ ''طلوع'' کے بعد یہ ان کی عنایت تھی کہ انھوں نے ''عالمی ڈائجسٹ'' کے لیے کہانیاں ترجمہ کیں میں جس کی مدیر تھی۔ قسط وار سلسلے لکھے جو نہ جانے کن ناموں سے شایع ہوئے۔ صرف ''عالمی'' پر ہی کیا منحصر تھا۔ انھوں نے بہت سے رسائل کے لیے ایسی طویل سلسلہ وارکہانیاں لکھیں جن کی طوالت سے طولِ شب فراق ناپ لی جائے۔

انھوں نے یوں تو بہت سی کہانیاں ترجمہ کیں لیکن ان کا ایک ترجمہ محمود سلماوی کے مضمون کا ہے جو مصر کے نوبیل انعام یافتہ ادیب نجیب محفوظ کے بارے میں ہے۔ محمود نے لکھا ہے کہ '' محفوظ ایک بہت ہی خاص قسم کے اور دریا دل انسان تھے۔'' انور احسن صدیقی کو رخصتی سلام کرتے ہوئے میںیہی کہوں گی کہ وہ دوستوں کے دوست اور ایک دریا دل انسان تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں